وضو اور حفظان صحت

وضو حفظان صحت کے زریں اصولوں میں سے ہے ۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے ۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ ہوا ، زمین اور ہمارے استعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں ۔ جسم انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں ۔ اللہ رب العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف ان سوراخوں کو بلکہ ہمارے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا ہے۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اعضاء ہیں جس کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں ، لہذا گلے کی صفائی کے لیے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا ۔ بعض اوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بارا سے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھر پور سانس بھی نہیں لے سکتے ۔ اس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تا کہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ امراض سے محفوظ رہیں ۔ اسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں ۔ وضو ہمارے بے شمار امراض کا از خود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ۔ طہارت کے باب میں طب جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اسلام نے انہیں عملاً تصور طہارت میں سمو دیاہے۔

روزانہ پانچ فرض نمازوں کے واسطے ایک مسلمان کم از کم پانچ مرتبہ وضو کرتا ہےجس میں تین تین بار وہ ہاتھ ، منہ ، آنکھیں ، ناک، دانت اور پیر دھوتا ہے یعنی جسم کے وہ حصے جو کھلے رہتے ہیں ۲۴ گھنٹوں میں کم از کم پندرہ بار دھل جاتے ہیں۔ سر، گدی اور کانوں کا مسح بھی پانچ بار ہو جاتا ہے ۔ چہرہ اور ہاتھ گو اس کے علاوہ بھی کئی بار دھل جاتے ہیں اور دانت بھی۔ غرض اسلام نے چودہ سو سال قبل انسانی مشین کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے نہایت واضح اصول وضع فرمائے ۔ جبکہ جدید حفظان صحت (Hygiene) کی عمر ایک سو سال سے بھی کم ہے۔ تاریخ عالم میں اسلام نے نفاست، پاکیزگی اور صفائی کا جو معیار مقرر کیا ہے اور کہیں نہیں ملتا ۔ ورنہ لوگ تو اس پر فخر کرتے تھے کہ تمام زندگی پانی کے پاس نہیں گئے ۔ عبادت ہو رہی ہے اور ریاح بھی خارج ہورہی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Pinterest
Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest