مسئلہ:
رئیسہ خاتون کے شوہر عبدالقدوس نے اپنی حاملہ بیوی کے بھائی کے پاس مندرجہ ذیل تحریر ہندی میں روانہ کی جو اردو میں نقل ہے ماسٹر! آپ اپنی بہن کو امرڈوبھا مت بھیجنا کیونکہ تمہاری بہن سے ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اور اب مجھے اپنے گھر والوں سے بھی کوئی مطلب نہیں ہے اور جو سامان ہے تھوڑا بہت آکر لے جانا کیونکہ ہمارے گھر والے استعمال مت کرتے پاویں جو کہنا سننا ہوگا اور کرنا ہوگا وہ عبد القدوس سے کہنا ۔ تحریر مذکور بالا بھیجنے کے بعد دوسرے دن اس نے ایک کاغذ پر یوں لگے کہ اپنی بیوی کے بھائی کے پاس بھیجا کہ رئیسہ کو طلاق دیتا ہوں پھر اس کے نیچے اپنا دستخط کیا۔ تیسرے دن پھر اپنے دستخط کے ساتھ تحریر بھیجی کہ رئیسہ کو طلاق۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ رئیسہ خاتون پر طلاق پڑی یا نہیں؟اگر اس کا شوہر رئسیہ کو رکھنا چاہے تو اس کی صورت از روئے شرع کیا ہے؟
الجواب:
پہلی تحریر کے اس جملہ سے کہ تمہاری بہن سے ہم کو کوئی واسطہ نہیں ہے ، اگر طلاق کی نیت کی تھی تو رئیسہ خاتون پر ایک طلاق بائن واقع ہوئی لان نفی الواسطة من کنایات الطلاق ۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں، مجھ سے تجھ سے کوئی واسطہ نہیں ، یہ ضرور کنایات طلاق سے ہے اور پھر بعد کی دو تحریروں سے دو طلاق پڑ کر مغلظ ہوگی۔اس صورت میں بغیر حلالہ عبد القدوس رئیسہ خاتون سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتا
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(230)
ترجمۂ کنز الایمان
پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے۔۔سورة البقره.آیت نمبر 230۔
اور اگر پہلی والی تحریر سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو صرف دو طلاق رجعی واقع ہوئی اس صورت میں بغیر حلالہ اس سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے اگر عدت پوری ہوگئی ہو اور اگر عدت نہ گذری ہو تو رجعت کر سکتا ہے هذا ما ظھرلی وھو تعالیٰ اعلم باالصواب
(فتاوی فیض رسول جلد دوم صفحہ نمبر 254)