تعویذ لکھنا کیا جائز ہے
ان شاء اللہ عزوجل اس فصل میں احادیث مبارکہ، ارشادات صحابہ اور اقوال علماء وفقہاء سے تعویذات لکھنے کا ثبوت پیش کیا جائے گا۔
جنوں کی شامت
حضرت ابودجانہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ( جنات کی ) شکایت کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے اپنے گھر میں ایک آواز سنی جو کہ چکی چلنے کی طرح تھی ، ایک بھنبھناہٹ سنی جو کہ شہد کی مکھیوں کی مثل تھی اور بجلی کی چمک کی مثل چمک دیکھی ، میں نے گبھرا کر سر اٹھا کر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ ) ایک سیاہ سایہ ہے جو کہ گھر کے صحن میں بلند ہوتا جا رہا ہے، میں نے اس کے قریب جا کراس کی کھال کو چھوا تو اس کی کھال سیہہ کی کھال کی مثل تھی ، پھر اس نے میرے چہرے پر آگ کے چنگاروں کی مثل کوئی چیز پھینکی تو مجھے ایسے لگا کہ گویا اس نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے (یا گھر کو جلا دیا ہے ) ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابو دجانہ وہ تیرے گھر میں ایک بری چیز رہنے والی ہے، اور رب کعبہ کی قسم اے ابودجانہ! تیری مثل لوگ تکلیف دیئے جاتے ہیں ، پھر فرمایا: تو ایک کاغذ اور دوات لا ،میں ان دونوں کو لے کر آیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دے کر فرمایا: اے ابوالحسن لکھو! انہوں نے عرض کیا کہ کیا لکھوں؟ فرمایا: لکھو
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ، وَالزُّوَّارِ، وَالصَّالِحِينَ، إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرِ يَا رَحْمَنُ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا، وَلَكُمْ فِي الْحَقِّ سَعَةً۔ فَإِنْ تَكُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، هَذَا كِتَابُ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَنْطِقُ عَلَيْنَا وَعَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نستنسخ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ، وَرُسُلُنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمُكُرُونَ، اتْرُكُوا صَاحِبَ كِتَابِي هَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَى عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَى مَنْ يَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللهِ إِلهَا آخَرَ لَا إِلَهَ ھو کل شَيْءٍ هَالِك إِلَّا وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وإليه ترجعون يُغْلَبُونَ حم لا ينصَرُونَ، حم عسق، تُفَرِّقَ أَعْدَاء اللهِ وَبَلَغَتْ حُجَّةٌ اللّٰہ ولا حول ولا قوة إلا بالله فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ابودجانہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کو لپیٹا اور لے کر گھر آگیا اور اپنے سر کے نیچے رکھا اور رات کو سو گیا پھر میں ایک چلانے والے کی چیخ سے اٹھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ اے ابودجانہ !لات و عزی کی قسم ان کلمات نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے ، تیرے صاحب کی قسم جب تو اس تحریر کو ہم سے اٹھا لے گا تو ہم نہ تو تیرے گھر لوٹ کر آئیں گے
ایک روایت میں ہے کہ نہ ہم تجھے ایذا دیں گے اور نہ تیرے پڑوس میں کبھی آئیں گے اور نہ اس جگہ آئیں گے جہاں یہ کتاب ( تعویذ ) ہوگی ۔
ابو دجانہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میرے صاحب (یعنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی قسم کہ میں اس کو اس وقت تک نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت نہ مانگ لوں ۔
ابو دجا نہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے جنوں کی آہ و بکا سنی تھی میرے لئے رات لمبی ہو گئی رات گزارنا مشکل ہو گئ یہاں تک کہ صبح ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اور رات والا جنوں سے ہونے والا مکالمہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو دجانہ !اس قوم سے اس تعویذکو اٹھا لو کیونکہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ،وہ قوم قیامت تک عذاب کی تکلیف میں مبتلا رہے گی۔