جواب: مسجد یا فنائے مسجد میں تعویذات کا بیچنا نا جائز ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے:
ایک آدمی مسجد جامع میں تعویذ بیچتا ہے ، اس تعویذ میں تورات، انجیل اور قرآن لکھتا ہے اور اس پر رقم لیتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ اس کا ہدیہ مجھے دے تو یہ جائز نہیں ۔ الکبری میں اسی طرح ہے۔ (فتاوی ہندیہ ج 5 ص 321 ، کتاب الكراهية ، الباب الخامس في آداب المسجد ، مطبوعہ نورانی کتب خانہ، پشاور )
فتاوی رضویہ میں ہے:عوض مالی پر تعویذ دینا بیع ہے اور مسجد میں بیع و شرانا جائز ہے، اور حجرہ فنائے مسجد ہے اور فنائے مسجد کے لئے حکم مسجد ” (فتاوی رضویہ ، ج 8 ص 95، رضافاؤ نڈیشن، لاہور )
سوال: انگریزی قلم اور روشنائی سے تعویز لکھنے میں کیا کوئی حرج ہے؟ جواب : ہاں ، تعویذات واعمال میں ایسی اشیاء سے احتراز ضرور ہے جس میں نا پاک چیز کا میل ہو اگر چہ بروجہ شہرت و شبہہ جیسے پڑیا کی رنگت اس سے تعویذ نہ لکھا جائے بلکہ ہندوستانی سیاہی سے لکھا جائے ، رہا قلم وہ مثل سیاہی تعویذ کا جزو نہیں ہو جاتا لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ، ہاں ان کاموں میں انگریزی اشیاء سے احتراز مطلقا بہتر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی رضویہ ، ج 23 ص 397 رضا فاؤنڈیشن، لاہور )۔
سوال : کافر کو آیت قرآنی بطور تعویذ لکھ کر دینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا تدبیر کی جائے؟
جواب : غیر مسلم کو آیات قرآنی لکھ کر ہرگز نہ دی جائیں کہ اساءت ادب بے ادبی ) کا مظنہ ہے، بلکہ مطلقا اسماء الہیہ و ونقوش مطہرہ نہ دین کہ ان کی بھی تعظیم واجب، بلکہ دیں تو ان کے اعداد لکھ دیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی رضویہ، ج 23 ، ص ، 397 رضا فاؤنڈیشن، لاہور )
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
کافر کو اگر تعویذ دیا جائے تو مضمر جس میں ہند سے ہوتے ہیں نہ کہ مظہر جس میں کلام الہی واسمائے الہی کے حروف ہوتے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی رضویہ ، ج 24، ص 197 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )