بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ کیا ہر طواف کے بعد دو رکعت نفل ادا کرنا ضروری ہے اور کیا نفلی طواف کی طرف نفلی سعی بھی کرسکتے ہیں اور سعی کے بعد نفل پڑھنے کا حکم کیا ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق طواف چاہے فرض ہو یا نفل اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا واجب ہے اور وقت مکروہ نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ طواف کے فوراً بعد نفل ادا کرے اور اگر وقت مکروہ ہو تو بعد میں ادا کرے مگر جب بھی پڑھے گا ادا ہی ہوگا قضا نہیں مگر بلاعذر تاخیر کرنا برا ہے کہ اس سے سنت فوت ہوئی۔
جس طرح نفلی طواف کرسکتے ہیں نفلی سعی نہیں کرسکتے کہ یہ مشروع نہیں ہے ۔سعی صرف حج اور عمرہ کے واجبات میں سے ہے اور سعی کے بعد مسجد میں جاکر دو رکعت نفل نماز پڑھنا مستحب ہے۔
ردالمختار میں ہے
’’وعلیہ لکل اسبوع رکعتان،لباب،واطلق الاسبوع فشمل طواف الفرض والواجب والسنۃ والنفل“
ترجمہ:اور اس پر ہر سات چکروں کے بعد دو رکعت لازم ہیں،لباب،اور اسبوع کو مطلق رکھا تو یہ شامل ہے فرض،واجب،سنت اور نفل طواف کو۔(ردالمحتار،جلد3،صفحہ585، مطبوعہ:کوئٹہ)
لباب المناسك مع إرشاد السارى میں ہے
”وهي ” أى صلاة الطواف واجبة بعد كل طواف فرضًا كان أو واجبًا ، أو سنة أو نفلاً ولا تختص بزمان ولامكان ، أى باعتبار الجواز والصحة“
ترجمہ:اور نماز طواف واجب ہے ہر طواف کے بعد چاہے وہ فرض ہو یا واجب ، سنت ہو یا نفل اور اس میں زمانے اور مکان خاص نہیں ہے یعنی باعتبار جواز اور صحت کے۔(لباب المناسك مع إرشاد السارى ،باب أنواع الأطوفة وأحكامها،ص 218، الإمدادية ، مكة المكرمة )
بہار شریعت میں ہے
سنت یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً نماز پڑھے، بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا ،ادا ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنت فوت ہوئی۔(بہار شریعت ،جلد 1 ،حصہ 6، صفحہ 1110، مکتبہ المدینہ کراچی)
فتاویٰ نوریہ میں ہے:
”تین یا متعدد طواف اکھٹے کئے جائیں تو ہر طواف کے بعد دو رکعتیں طواف کی ادا کرے اور دو یا تین طواف کرکے نماز سب کی اکھٹی ادا کرنی حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ ہے جبکہ وقت کراہت نہ ہو اور وقت کراہت میں بالاجماع مکروہ نہیں ۔۔۔۔۔تو نماز عصر اور نماز فجر کے بعد تین یا زیادہ طواف جمع کرسکتا ہے اور جب وقت کراہت ختم ہو تو سب طوافوں کی نماز ادا کرسکتا ہے۔“(فتاویٰ نوریہ ، جلد 2 ، صفحہ 309، ناشر دار العلوم حنفیہ فریدیہ)
ردالمحتار میں ہے:
”والسعی من واجبات الحج والعمرۃ فقط ووھذا الطواف تطوّع فلا سعی بعدہ۔ قال فی الشرنبلالیۃ عن الکافی:لانّ التنفّل بالسعی غیر مشروع “
ترجمہ:سعی صرف حج وعمرہ کے واجبات میں سے ہےجبکہ یہ طواف نفلی ہے لہذا اس کے بعد سعی نہیں کریں گے،شرنبلالیہ میں کافی کے حوالے سے کہا کہ سعی اس لئے نہیں کریں گے کیونکہ نفلی سعی کرنامشروع نہیں۔(ردالمحتار،جلد3،صفحہ590، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاویٰ ھندیہ میں ہے
”وإذا فرغ من السعي يدخل المسجد ويصلي ركعتين“
ترجمہ: جب سعی سے فارغ ہو جائے تو مسجد میں داخل ہو اور دو رکعت نماز ادا کرے۔(الفتاوی الهندیة،ج:1،ص:227،دار الفکر،بیروت)
ردالمختار میں ہے
”قال الحصكفي: وندب ختمه (السعي) بركعتين في المسجد كختم الطواف“
ترجمہ:حصکفی نے فرمایا کہ سعی کے بعد مسجد میں دو رکعات پڑھنا مستحب ہے جیساکہ ختم طواف پر۔(ردالمحتار،كتاب الحج،ج 3،صفحہ 591 ، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے :
”مکروہ وقت نہ ہو تو سعی کے بعد دو رکعت نماز مسجد شریف میں جاکر پڑھنا بہتر ہے۔“(بہار شریعت ،جلد 1، حصہ 6، صفحہ 1117، مکتبہ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
18 ذی القعدہ 1445ھ27 مئی 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری
─── ◈☆◈ ───