سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک مسجد جو اہلسنت و جماعت کی ہے ۔ اس میں ایک شخص جو کہ فقہ حنفی سے تعلق رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ اذان سے پہلے اور اذان واقامت کے درمیان صلوٰۃ و سلام ” ) بطور تثویب ) پڑھنا منع ہے۔ آپ سے مؤدبانہ نے عرض ہے کہ اس مسئلہ پر قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عطا فرمائیں
الجواب:
صلوۃ و سلام پڑھنے کا حکم تو اللہ تعالٰی نے قرآن میں دیا ہے ارشاد فرمایا :

پارہ ومن یقنت۔22۔سورة نمبر 33۔الاحزاب۔آیت نمبر 56۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(56)
 ترجمه کنزالایمان
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

اس میں کوئی وقت کی قید ہے نہ کسی حالت وکیفیت کی پابندی ۔ یہ حکم مطلق ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ مسلمان جب ، جس وقت اور جس طرح چاہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھ سکتے ہیں ۔ اذان کے بعد اور اقامت سے پہلے تو درود و سلام پڑھنے کو علماء نے تثویب لکھا ہے اورتثویب کے معنی یہ بیان کیے ہیں۔ ہدایہ میں ہے :

العود على الاعلام وهو على حسب ما تعارفوه
یعنی اعلان کے بعد دوبارہ اعلان کرتا اور یہ حسب حرف ہے۔

ہمارے یہاں کا حرف درود و سلام پڑھنا ہے متاخرین علماء نے تثویب کو مستحسن قرار دیا ہے ۔
صاحب ہدایہ آگے لکھتے ہیں :
والمتاخرون استحسنوه في الصلوات كلها الظهور الثواني في الأمور الدينية۔
(بدایہ اولین باب الاذان صفحه : ۱۸۹ )
یعنی متاخرین علماء نے (تثویب کو تمام نمازوں میں مستحسن قرار دیا لوگوں کے امور دین میں سستی کی وجہ با صورت مسئولہ میں اس شخص کا اذان سے پہلے یا بعد درود و سلام کے پڑھنے سے متعلق یہ کہنا کہ یہ منع ہے، غلط ہے فسادات پر مبنی ہے
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1

Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest