کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب تقدیر میں سب کچھ لکھا ہے تو پھر کوشش کرنے کا کیا فائدہ اور جب جتنا رزق ملے گا وہ تقدیر میں تحریر ہے تو اس کے بڑھانے کے لیے دعا کرنے کا کیا فائدہ اور جب آفت و بلا کا آنا تقدیر میں ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے دعا کرنے کا کیا مقصد ہے، کیا دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے ؟
الجواب :جی ہاں! دعا تقدیر کو بدلتی ہے اور دعا سے بلا رد ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “لا يَرُدُّ القضاء إِلَّا الدعَاء، وَلَا يَزِيدُ فِي العُمْرِ إِلَّا البر ” تقدیر دعا کے سوا کسی چیز سے رد نہیں ہوتی اور سوا نیکی کے کوئی چیز عمر کو زیادہ نہیں کرتی
مگر یہ بلا اور تقدیر کو بدلنا بھی تقدیر کے مطابق ہے جس طرح ہر شی کا وجود کسی نہ کسی سبب سے مربوط ( ملا ہوا) ہے مثلا بیج ہوتا ہے تو درخت اگتا ہے اور چیز بناتا ہے تو بنتی ہے۔ اسی طرح ہر چیز کے روکنے اور دفع کرنے کے لیے بھی ایک سبب مقرر ہے۔ دوا کھاتا ہے تو علاج ہوتا اسی طرح دعا بھی بلاؤں کو روکنے اور تقدیر کے بدلنے کا ایک سبب ہے، جس طرح بیماری لگ جائے تو علاج کروانا تقدیر کے خلاف نہیں ہے تو اسی طرح بلا و آفت کو دور کرنے کے لیے دعا کرنا تقدیر کے خلاف نہیں ۔ اور تحقیق یہ ہے تقدیر کی دو قسمیں ہے:
(1) تقدیر مبرم حقیقی:
علم الہی میں کسی شے اور کسی سبب پر معلق نہیں جو علم الہی میں ہے ویسا ہی ہوتا ہے اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اسے دعا یا کوئی نیکی بدل سکتی ہے۔ اگر اللہ عزوجل کے پیارے بندے، انبیاء کرام وغیرہ اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں روک دیا جاتا ہے۔
(2) تقدیر معلق:
وہ تقدیر جوکس شی پر معلق ہوتی ہے۔ مثلاً : تقدیر میں لکھاہے کہ زید کی عمر ساٹھ 60 برس کی ہوگی اور اگر دعا کرے گا تو اسی 80 برس زندہ رہے گا یعنی اس کی عمر کا بڑھنادعا یا حج پر معلق ہے لہذا اگر وہ دعا یا حج کرے گا تو اس کی عمر بڑھ جائے گی یا تقدیر میں لکھا ہے اسے اتنا اتنا رزق ملے گا اگر دعا کرے گا تو اتنا بڑھ جائے گا تو دعا کرنے پر اس کے رزق کا بڑھنا بھی تقدیر کے موافق ہی ہوا۔
جیسا کہ والد گرامی اعلی حضرت مولانا نقی ہی یہ تحریر فرماتے ہیں کہ بعض اسباب سے عمر میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور وہ بھی لوح محفوظ میں لکھی ہے۔ پس قضا میں آخیر ( تبدیلی ) قضا کے مطابق روا ہے۔(احسن الوع الآداب الدعاص 244 مطبوعة مكتبة المدينه) 12
اور تقدیر معلق کی مزید دو قسمیں ؟ ہیں۔۔ (1): معلق محض :(2)معلق شبیہ بالمبرم۔
1۔جس کے معلق ہونے کا ذکر لوح مفحود اثبات یا صحفِ ملائکہ میں بھی ہے یعنی صحف ملائکہ میں بھی یہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ یہ تقدیر اس سبب پر معلق ہے اگر وہ شخص وہ سبب بجالائے تو یہ تقدیر بدل جائے گی تو عام اولیاء جن کو ایسی تقدیر کا اپنے علوم کے ذریعے پتا چل جاتا ہے وہ ایسی تقدیر پر دعا کی ہمت فرماتے ہیں کیونکہ انہیں بوجہ تعلیق اس بات کا علم ہوتا ہے یہ تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
(2): مُعَلَّقَ شَبيه بالمبرم: وہ تقدیر جو اللہ عز و جل کے علم میں تو کسی نہ کسی شئے پر معلق ہے مگر لوح محفوظ و اثبات و دفاتر ملائکہ میں اس کی تعلیق ظاہر نہیں کی گئی ، ایسی تقدیر ان ملائکہ اور عام اولیاء کے علم میں مبرم ہوتی ہے، مگر خواص اولیاء کرام جنہیں امتیاز خاص ہے، بالہام ربانی اس تقدیر کے معلق ہونے پر مطلع ہوتے ہیں اس تقدیر کو ٹالنے اور بدلنے میں دعا کی اجازت پاتے ہیں جس سے وہ مل جاتی ہے یا عام مؤمنین جنہیں الواح و صحائف پر اطلاع نہیں حسب عادت دعا کرتے ہیں اور معلق ہونے کی وجہ سے وہ تقدیر بدل جاتی ہے کیونکہ وہ اصلا معلق ہی تھی مگر عام اولیاکی اس تک رسائی نہ تھی لہذا یہ وہ تقدیر مبرم ہے جو بدل سکتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں آیا کہ ” أكثر من الدعاء فإن الدعاء يرد القضاء المبرم ۔
“ترجمہ ۔۔دعا بكثرت مانگ کہ دعا قضائے مبرم کو رد کر دیتی ہے
۔(كنز العمال”، كتاب الأذكار الباب الثامن في الدعاء الحديث : ۳۱۱۷، ج ۱، ص ۲۸)
لہذا بلا و آفت کو دور کرنے یا رزق کے بڑھنے یا کسی مراد کو حاصل کرنے کی دعا ضرور کی جائے کہ ہو سکتا ہے کہ حصول مدعا یا بیماری و بلا سے نجات اس دعا پر معلق ہو کہ دعا کی جائے اور بیماری وبلا جاتی رہے۔ جیسا کہ والد گرامی اعلی حضرت مولانا نقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ دعا خلاف رضا نہیں ، ہو سکتا ہے کہ حصول مدعا یا نجات از بلا دعا پر مقدر ہو۔
فتاویٰ یورپ و برطانیہ صفحہ نمبر42