تنتر یوگ
تنتر یوگ فن یوگا کی ایک انتہائی پراسرار شاخ ہے۔ اس شاخ کے عامل لوگ تنتر یو گی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تمام زندگی جنگلوں بیابانوں اور صحراؤں میں گزار دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر وہ شہروں میں چلے جائیں یا شہری لوگوں سے میل جول رکھیں تو ان کی مخفی اور پراسرار قوتیں ختم ہو جائیں گی۔ اس لئے یہ لوگ کبھی شہروں کا رخ نہیں کرتے اور نہ شہری لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ عقیدہ آواگون کے قائل ہیں اس لئے اپنی تمام زندگی روح کو مادہ کی قید سے آزاد کرانے میں لگے رہتے ہیں۔
تنتر یوگوں نے دیگر ریاضتوں کی طرح ان سُروں کو بھی مختص رکھا ہے۔ جن کے بھید کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ آپ نے سروں کا لفظ فن موسیقی سے سنا ہوگا۔ سنگیت کے سات سر ہوتے ہیں اور انہیں کہ امتزاج سے راگنیاں جنم لیتی ہیں مگر ہماری مراد یہاں ان سروں سے نہیں بلکہ تنتر یوگ کے اس شعبے سے ہے جو ناک کے نتھنوں سے ہوا کی امد و رفت سے متعلق ہےناک کا دایاں نتھنا سورج اور بایاں چاند کا مظہر ہے ۔ یہ تنتر یوگیوں کا کہنا ہے ۔ سورج حدت اور توانائی کا آئینہ دار ہے جبکہ چاند ٹھنڈک اور سکون کا چنانچہ انہیں دو نحقنوں کو دن رات کے کے لحاظ سے چلایا جاتا ہے ۔وجدان ہر طرح کا ہو سکتا ہے، کوئی ادیب اسی وقت اچھا ہے ادب پیش کر سکتا ہے جبکہ اس میں ادبی وجدان پایا جائے مسئلہ اضافیت آئن سٹائن کا سائنسی وجدان ہے ۔
و جدا ن در اصل ذہن انسانی کی اس تیز لہر کا نام ہے جو ہر وقت اور اچانک ذہن میں کوندے کی طرح لپکتی ہے اور انسان کو صحیح طور پر کسی بات سے باخبر کر دیتی ہے۔
ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں کہ انسان کے دماغ میں کروڑوں خلیئے ہیں جو طاقتور شعاعیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان کو وجدان کہتے ہیں۔ انسان شدید جذباتی استغراق اور بھر پور ذہانت کے ساتھ جو کام کرے گا اس میں ضرور کچھ وجدانی کیفیت پیدا ہو گی یا ہو جاتی ہے۔