اسلام اور عملیات

تمیمہ سے کیا مراد ہے

  ملا قاری رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ المتوف فرماتے ہیں

تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو زمانہ جاہلیت کے ایسے دموں پر مشتمل ہوں جن میں شیاطین کے نام ہوتے ہیں اور ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن کے معنی معلوم نہیں ہوتے۔ 

اور کہا گیا کہ تمائم وہ گھونگے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اپنی اولاد کے گلوں میں ڈالتے کہ یہ ان کے زعم میں ان کو نظر بد سے بچاتے تھے ، اسلام نے اس کو باطل قرار دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی چیز نفع نہیں پہنچا سکتی اور نہ ہی مصیبت دور کرسکتی ہے۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجدخاتم المحققین علامه امین ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فر ماتے ہیں میں نے مجتبی میں لکھا دیکھا کہ تمیمہ وہ مکروہ ہے جو قرآن کے علاوہ کیا جائے 

اور کہا گیا کہ یہ گھونگھے (سپیاں) ہیں جو اہل جاہلیت لٹکاتے تھے۔ مغرب میں ہے۔

بعض نے یہ وہم کیا کہ تعویذات ہی تمائم ہیں، یہ درست نہیں ہے، تمیمہ تو گھونگھے ہیں ، اور وہ تعویذات جن میں قرآن یا اسماء الہی لکھے جائیں تو ان میں کوئی حرج نہیں، علماء فرماتے ہیں کہ تعویذ اس وقت منع ہے جب غیر عربی میں ہو اور پتا نہ چلے کہ اس کا مطلب کیا ہے منع کی وجہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے اس میں جادو یا کفر وغیرہ ہو۔ بہر حال قرآن مجید اور دیگر دعاؤں سے تعویذ کرنے میں کوئی حرج نہیں

      اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ” عملیات و تعویذ اسمائے الہی و کلام الہی سے ضرور جائز ہیں جبکہ ان میں کوئی طریقہ خلاف شرع نہ ہو