طلاق کا بیان

طلاق کا ایک اہم مسئلہ

سوال۔۔ 

زید نے اپنی زوجہ منکوحہ ہندہ کو شادی سے لیکر عرصہ کئی سال تک رخصت نہیں کروایا اور خود شرابی بھی ہے ہندہ کے والدین نے زید کو بلاکر کہا کہ میری لڑکی کو رخصت کروانے کا انتظام کر کے لے جاؤ اگرنہ لے جانا ہو تو طلاق دیدو۔

 زید نے بایں الفاظ وعدہ کیا کہ میں اپنی شراب نوشی کی عادت چھوڑ دوں گا اور ہندہ کے رہنے کے لئے گھر کا انتظام کر لوں گا اور سر جنوری  سے قبل رخصت کروالوں گا اگر ایسا نہ کر سکوں گا تو اس جنوری کو تین بار طلاق سمجھا جائے۔

 اب جبکہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا اور نہ ہی خسر کے یہاں آیا۔ کیا الفاظ مذکور سے طلاق واقع ہو گئی ؟ 

ہندہ کا عقد نابالغی میں ہوا تھا اور اب بالغ ہے مگر عقد سے اب تک زید کے گھر نہیں گئی ہے۔ ایسی صورت میں عدت ہے یا نہیں ؟ بیان فرما کر عنداللہ  ماجور ہوں۔

الجواب: 

صورت مستفسرہ {پوچھی گئی صورت }میں زید کی بیوی پر طلاق نہیں واقع ہوئی۔ 

فتاوی رضویہ جلد نمبر پنجم میں ہے ۔

کہ شوہر کے اس جملہ سے کہ میری زوجہ کو طلاق سمجھی جائے ، طلاق واقع نہ ہوئی اور 

فتاوی قاضی خاں میں ہے۔ امراة  قالت  لزوجھا ۔مرا  طلاق  ده۔فقال الزوج۔

زاده انگار او قال کرده انگار۔ لا يقع الطلاق وان نوى{طلاق} كانه قال لها بالعربية احسبى انك طالق وان قال ذلك لا يقع الطلاق وان نوى امر۔

وهو تعالى اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

فتاویٰ فیض رسول جلد دوم صفحہ نمبر 106.107