مسئلہ : مقتدی امام کے تابع ہے کہ امام مقتدی کے تابع حنفی امام کو شافعی مقتدی کے واسطے سورہ فاتحہ پڑھنے کے لیے ٹھہر نا چاہئے یا نہیں زید کہتا ہے ٹھہر نا چاہئے۔
الجواب:حنفی امام کو ہرگز جائز نہیں کہ سورہ فاتحہ پڑھ کر اپنے مقتدی شافعی کے خیال سے اتنی دیر ساکت رہے کہ وہ مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لے ایسا کرے گا تو گنہگار ہوگا۔۔اور نماز خراب و ناقص ہوگی اسے پوری کر کے دوبارہ پھر پڑھنا واجب ہوگا کہ ضم سورت یعنی الحمد شریف کے بعد بلا فاصلہ سورت ملانا واجب ہے۔۔اس واجب کے قصدا ترک سے گناہ گار ہو گا اور نماز کی اصلاح سجدہ سہو سے بھی نہ ہو سکے گی کہ یہ بھول کر نہیں قصدا ہے لہذا نماز پھیرنی واجب ہو گی۔ ردالمختار میں ہے۔۔لو قرأها اى الفاتحه في ركعة من الأولين مرتين وجب سجود الشهر لتأخير الواجب هو السورة كما في الذخيرة وغيرها ۔۔
ترجمہ۔۔ اگر پہلے یا دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ دو بار پڑھی سجدہ صاحب واجب ہوگا کہ واجب یعنی سورت کی تاخیر ہوئی اسی طرح ذخیرہ اور دوسری کتب میں ہے۔
وكذا لوقرآ أكثرها ثم اعادها كما في الظهيريہ
اور اسی طرح اگر اس کا اکثر حصہ پڑھا پھر اسے دوبارہ ارادہ کیا جیسے فتاوی ظہریہ میں ہے تب بھی سجدہ واجب ہوگااسی میں ہےلتأخير الواجب وهو السورة عن محله لفصله بين الفاتحه والسورة بأجنبي ۔۔
واجب کہ موخر ہونے کی وجہ سے بھی کیونکہ سورت کو اس کی جگہ سے موخر کر دیا گیا۔۔اور فاتحہ اور سورت کے درمیان اجنبی چیز کے فاصلے کی وجہ سے بھی سجدہ واجب ہو جائے گاعلاوہ بریں اس میں حکم شرع کی تغییر ہےرسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔انما جعل الامام ليؤتم به۔امام تو صرف اس لئے مقرر ہوا ہے کہ اسکی پیروی کی جائے نہ یہ کہ امام مقتدی کے فعل کا پابند کیا جائے یا تو فان فيه قلب الموضوع ۔۔۔(امام کو مقتدی کا پابند کرنا یہ شریعت کے حکم کو پلٹنا ہے)زید کہ کہتا ہے امام ٹھہر نا چاہیے یا تو جاہل محض ہے اور کسی شافعی المذہب یا غیر مقلد سے سنی سنائی کہتا ہے یا خود غیر مقلد ہے۔۔. والله تعالی اعلم۔