یہ سب اوہامِ باطلہ وہوساتِ عاطلہ ہیں، مسلمانوں کو ان کی طرف اصلاً التفات جائز نہیں۔
(۱) منجم نے ان کی بناکواکب کے طول وسطی پر رکھی جسے ہیأت جدیدہ میں طول بفرض مرکزیت شمس کہتے ہیں، اس میں وہ چھ کواکب باہم ۲۶ درجے ۳ ۲ دقیقے کے فصل میں ہوں گے مگر یہ فرض خود فرض باطل ومطرود اور قرآن عظیم کے ارشادات سے مردود ہے، نہ شمس مرکز ہے نہ کواکب اُس کے گرد متحرک بلکہ زمین کا مرکز ثقل مرکز عالم ہے اور سب کواکب اور خود دشمس اُس کے گرددائر ۔
بعینہ اسی طرح سورہ لقمان، سورہ ملک ، سورہ زمر میں فرمایا۔ اس پر جو جاہلانہ اختراع پیش کرے۔
اس کے جواب کو آیہ کریمہ تمہیں تعلیم فرمادی ہے۔ اَلاَ یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر۔۱
(۲) یہ جسے طول بفرض مرکزیت شمس کہتے ہیں حقیقۃً کواکب کے اوساط معدلہ بتعدیل اول ہیں جیسا کہ واقفِ علم زیجات پر ظاہر ہے اور اوساطِ کواکب کے حقیقی مقامات نہیں ہوتے بلکہ فرضی، اوراعتبار حقیقی کا ہے۔ ۱۷ دسمبر کو کواکب کے حقیقی مقام یہ ہوں گے۔
ظاہر ہے کہ اُن چھ کا باہمی فاصلہ نہ ۲۶ درجے میں محدود بلکہ ۱۱۲ درجے تک محدود،یہ تقویمیہ اس دن تمام ہندوستان میں ریلوے وقت سے ساڑھے پانچ بجے شام اور نیویارک ممالک متحدہ امریکہ میں ۷ بجے صبح اور لندن میں دوپہر کے ۱۲ بجے ہوں۔ یہ فاصلہ اُن تقویمات کاہے باہمی بُعد اس سے قلیل مختلف ہوگا کہ عرض کی قوسین چھوٹی ہیں اس کے استخراج کی حاجت نہیں کہ کہاں ۲۶ اور کہاں ۱۱۲)
(۳) یہ کلام اسلامی اصول پر تھا۔ اب کچھ عقلی بھی لیجئے۔ یہ کہنا کہ دو ہزار برس سے ایسا اجتماع نہ دیکھا گیا بلکہ جب سے کواکب کی تاریخ شروع ہوئی ہے نہ جانا گیا محض جزاف ہے، مدعی اس پر دلیل رکھتا ہے تو پیش کرے ورنہ روزِ اوّل کواکب درکنار دو ہزار برس کے تمام زیجات بالاستیعاب اس نے مطالعہ کئے اور ایسا اجتماع نہ پایا،یہ بھی یقینا نہیں، تو دعوٰی بے دلیل باطل و ذلیل۔ اور یورنیس اور نیپچون تو اب ظاہر ہوئے۔ اگلے زیجات میں ان کا پتہ کہاں مگر یہ کہ اوساط موجودہ سے بطریق تفریق ان کے ہزاروں برس کے اوساط نکالے ہوں یہ بھی ظاہر النفی اوردعوے محض ادعاء۔
(۴)کیا سب کو کواکب نے آپس میں صلح کرکے آزار آفتاب پر ایکا کرلیا ہے؟ یہ تو محض باطل ہے، بلکہ مسئلہ جاذبیت اگر صحیح ہے تو اس کا اثر سب پر ہے اور قریب تر پر قوی تر اور ضعیف ترپرشدید تر۔ اور ۱۷ دسمبر کو اوساط کواکب کا نقشہ یہ ہے۔
اور ظاہر ہے کہ آفتاب ان سے ہزاروں درجے بڑا ہے۔ جب اتنے بڑے پر ۶ کی کھینچ تان اس کا منہ زخمی کرنے میں کامیاب ہوگی تو زحل کہ اس سے نہایت صغیر و حقیر ہے، پانچ کی کشاکش اور اُدھر سے یورنیس کی مارا مار یقیناً اس کو فنا کردینے کے لیے کافی ہوگی اور اس کے اعتبار سے ان کا فاصلہ اور بھی تنگ، صرف ۲۵ درجے۔
(۵) مریخ زحل سے بھی بہت چھوٹا ہے اور اُس کے لحاظ سے فاصلہ اور بھی کم، فقط ساڑھے۲/ ۱۔ ۲۴ درجے تو یہ پانچ ہی مل کر اسے پاش پاش کردیں گے۔
(۶) عطارد تو سب میں چھوٹا اور اس کے حساب سے باقی ۱۳ہی درجے کے فاصلہ میں ہیں تو ۲۶کا آدھا ہے تو یہ تین عظیم ہاتھی مع یورنیس اس چھوٹی سی چڑیاکے ریزہ ریزہ کردینے کو بہت ہیں۔منجم نے اسی مضمون میں کہا کہ دو سیارے ملے ہوئے کافی ہیں ایک چھوٹا داغ شمس میں پیدا کرنے اور ایک چھوٹا طوفان برپا کرنے میں اور تین اُن میں سے بڑا طوفان اور بڑا داغ اور چار فی الحقیقۃ ایک بہت بڑا طوفان اور بہت بڑا داغ جب آفتاب میں تین اور چار کا یہ عمل ہے تو بے بیچارے عطارد و مریخ چار اور پانچ کے آگے کیا حقیقت رکھتے ہیں اور زحل پر اکٹھے چھ جمع ہیں تو جو نسبت ان کو آفتاب سے ہے اسی نسبت سے اُن پر اثر زیادہ ہونا لازم واجب تھا کہ کھینچنے والوں سے چمٹ جائیں لیکن ان میں نافریت بھی رکھی ہے وہ انہیں تمرد پر لائے گی جس کا صاف نتیجہ ان کا ریزہ ریزہ ہو کر جواذب میں گم جانا۔ جیسا کہ ہمیشہ مشہود ہے کہ کمزور چیز نہایت قوی قوت سے کھینچی جائے۔ اگر دوسری طرف اس کا تعلق ضعیف ہے کھینچ آئے گی ورنہ ٹکڑے ہوجائے گی۔یہ سب اگر نہ ہوگاتو کیوں؟حالانکہ آفتاب پر اثر ضرب شدید کا مقتضی یہی ہے اور ہوگا تو غنیمت ہے کہ آفتاب کی جان چھوٹی وہ آپس میں کٹ مرکر فنا ہوں گے ، نہ آفتاب کے اس طرف ۶ رہیں گے نہ اس کے زخم آئے گا۔ بالجملہ پیشگوئی محض باطل و پا در ہوا ہے۔ غیب کا علم اﷲ عزوجل کو ہے، پھر اس کی عطا سے اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ہے۔ ا ﷲ تعالٰی اپنے خلق میں جو چاہے کرے۔ اگر اتفاقاً بمشیتِ الہٰی معاذ اﷲ ان میں سے بعض یافرض کیجئے کہ سب باتیں واقع ہوجائیں جب بھی پیشگوئی قطعاً یقینی جھوٹی ہے کہ وہ جن اوضاع کواکب پر مبنی ہیں وہ اوضاع فرضی ہیں اور اگر بفرض غلط واقعی بھی ہوئے تو نتائج جن اصول پر مبنی ہیں وہ اصول محض بے اصل من گڑھت ہیں جن کا مہمل و بے اثر ہونا خود اسی اجتماع نے روشن کردیا، اگر جاذبیت صحیح ہے تو یہ اجتماع نہ چاہیے اور اگر یہ اجتماع قائم ہے تو جاذبیت کا اثر غلط ہے، بہرحال پیشگوئی باطل۔ واﷲ یقول الحق وھویھدی السبیل ۔
(۷) جاذبیت پر ایک سہل سوال اوج وحضیض شمس سے ہوتا ہے جس کا ہر سال مشاہدہ ہے نقطہ اوج پر کہ اُس کا وقت تقریباً سوم جولائی ہے، آفتاب زمین سے غایت بعُد پر ہوتا ہے اورنقطہ حضیض پر کہ تقریباً سوم جنوری ہے غایت قرب پر یہ تفاوت اکتیس لاکھ میل سے زائد ہے کہ تفتیش جدید میں بعد اوسط نوکروڑ انتیس لاکھ میل بتایا گیا ہے اور ہم نے حساب کیامابین المرکز ین دو درجے پینتالیس ثانیے یعنی ۵۲۱۲۔ء ۲ ہے۔ تو بُعد ابعد ۹۴۴۵۸۰۲۶میل ہوا اور بعد اقرب ۹۷۴،۴۱،۱۳،۹ میل تفاوت ۰۵۲،۱۶،۳۱ میل اگر زمین آفتاب کے گرد اپنے مدار بیضی پر گھومتی ہے جس کے مرکز اسفل میں آفتاب ہے جیسا کہ ہیات جدیدہ کا زعم ہے۔ اول تو نافریت ارض کو جاذبیت شمس سے کیا نسبت کہ آفتاب حسب بیان اصول علم الہیأت ہیأت جدیدہ میں بارہ لاکھ پینتالیس ہزار ایک سو تیس زمینوں کے برابر ہے اور ہم نے بربنائے مقررات (عہ) تازہ اصل کُروی پر حساب کیا تو اس سے بھی زائد آیا یعنی آفتاب تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کے برابر ہے بعض کتبِ جدیدہ میں ۱۴ لاکھ ہے وہ جرم کہ اس کے بارہ تیرہ لاکھ کے حصوں میں سے ایک کے بھی برابر نہیں اس کی کیا مقاومت کرسکتا ہے تو کرو و دورہ کرنا نہ تھا بلکہ پہلے ہی دن کھینچ کر اُس میں مِل جانا، کیا بارہ تیرہ لاکھ آدمی مل کر ایک کو کھینچیں تو وہ کھنچ نہ سکے گا بلکہ اُن کے گرد گھومے گا۔
عہ: وہ مقررات تازہ یہ ہیں قطر مدار شمس اٹھارہ کروڑ اٹھاون لاکھ میل قطر معدل زمین ۰۸۶ء۷۹۱۳ میل قطر اوسط شمس دقائق محیطیہ سے ۳۲ دقیقے ۴ ثانیے ، پس اُس قاعدے پر کہ ہم نے ایجاد اور اپنے فتاوٰی جلد اول رسالہ الھنیئ النمیر میں ایراد کیا ۲۶۹۰۴۵۷ء۸ لوامیال قطر مدار۔۴۹۷۱۴۹۹ء ـ۰ = ۷۶۶۱۹۵۶ء۸ ۔ لو امیال محیط ،ما۔ ۵۵۳۸ ۳۳۴۴ء۴ لو دقائق محیط= ۴۳۱۷۴۱۸ء۴ لودقیقہ محیطیہ ما+ ۵۰۶۰۵۳۹ء۱ دقائق قطر شمس = ۹۳۷۷۹۵۷ء۵ لو امیال قطر شمس ما ۔۸۹۸۳۴۵۹ء۳ لوامیال قطر زمین =۰۹۴۴۹۸ء۲ لو نسبت قطرین ما x۳ کہ کرہ : کرہ ::قطر : قطر مثلثہ بالتکریر=۱۱۸۳۴۹۴ء۶لو نسبت کر تین عدد ۱۳۱۳۲۵۶ وھو المقصود یعنی محیط فلک شمس اٹھاون کروڑ پینتیس لاکھ آٹھ ہزار میل ہے اور ایک دقیقہ محیطیہ ۵ء۲۷۰۲۳ میل اور قطر شمس ۲ء۸۶۶۵۵۴ میل اور وہ قطر زمین کے ۵۰۹ء۱۰۹ مثل ہے اور جرم شمس تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کی برابر اور علم حق اس کے خالق جل وعلا کو ۱۲ منہ مدظلہ العالی۔
ثانیاً جب کہ نصف دورے میں جاذبیت شمس غالب آکر اکتیس لاکھ میل سے زائد زمین کو قریب کھینچ لائی تو نصف دوم میں اُسے کس نے ضعیف کردیا کہ زمین پھر اکتیس لاکھ میل سے زیادہ دور بھاگ گئی۔حالانکہ قرب موجبِ قوت اثر جذب ہے تو حضیض پر لاکر جاذبیت شمس کا اثر اور قوی تر ہونا اور زمین کا وقتاً فوقتاًقریب ترہوتا جانا لازم تھا نہ کہ نہایت قرب پر اُس کی قوت سست پڑ کر اور اس کے نیچے سے چھوٹ کر پھراتنی دور ہوجائے، شاید جولائی سے جنوری تک آفتاب کو راتب زیادہ ملتا ہے قوت تیز ہوجاتی ہے،ا ور جنوری سے جولائی تک بھوکا رہتا ہے کمزور پڑ جاتا ہے۔دو جسم اگر برابر کے ہوتے تو یہ کہنا ایک ظاہری لگتی ہوئی بات ہوتی کہ نصف دور ے میں یہ غالب رہتا ہے نصف میں وہ، نہ کہ وہ جرم کہ زمین کے ۱۲ لاکھ امثال سے بڑا ہے اُسے کھینچ کر ۳۱لاکھ میل سے زیادہ قریب کرلے اور عین شباب اثر جذب کے وقت سُست پڑجائے اور ادھر ایک اُدھر ۱۲ لاکھ سے زائد پر غلبہ و مغلوبیت کا دورہ پورا نصف نصف القسام پائے۔
ثالثاً خاص انہیں نقطوں کا تعین اور ہر سال انہیں پر غلبہ و مغلوبیت کی کیا وجہ ہے بخلاف ہمارے اصول کے کہ زمین ساکن اور آفتاب (عہ) اس کے گرد ایک ایسے دائرے پر متحرک جس کا مرکز مرکزِ عالم سے۔
عہ: تنبیہہ ضروری: آفتاب کو مرکز ساکن اور زمین کو اُس کے گرددائر ماننا تو صراحۃً آیاتِ قرآنیہ کا صاف انکار ہے ہی ہیأت یونان کا مزعوم کو آفتاب مرکز زمین کے گرد دائر تو ہے مگر نہ خود بلکہ حرکتِ فلک سے،آفتاب کی حرکت عرضیہ ہے جیسے جالس سفینہ کی، یہ بھی ظاہر قرآنِ کریم کے خلاف ہے بلکہ خود آفتاب متحرک ہے آسمان میں تیرتا ہے جس طرح دریا میں مچھلی،
قال اﷲ تعالٰی : وکل فی فلک یسبحون ۔۱
اور چاند سورج ایک ایک گھیرے میں تَیررہے ہیں۔(ت)
( ۱ ؎۔القرآن الکریم ۳۶/ ۴۰ )
افقہ الصحابہ بعد الخلفاء الاربعہ سیدنا عبداﷲ بن مسعود صاحب سِّررسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے حضور کعب کا قول مذکور ہوا کہ آسمان گھومتا ہے دونوں حضرات نے بالاتفاق فرمایا۔
کذب کعب
( ان اﷲ یمسک المسٰوٰت و الارض ان تزولا) ۔۲
کعب نے غلط کہا اﷲ تعالٰی فرماتا ہے بے شک اﷲ تعالٰی آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ سرکیں نہیں۔
( ۲ ؎۔جامع البیان (التفسیر الطبری) تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۰ )
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۷/ ۳۲ )
زاد ابن مسعود : وکفٰی بہازولا ان تدور ۳ رواہ عنہ سعید بن منصور و عبد بن حمید وابن جریر و ابن المنذرو عن حذیفۃ عبد بن حمید ۔
ابن مسعود نے اتنا زیادہ کیا کہ گھومنا اس کے زوال کے لیے کافی ہے اس کو عبداﷲ بن مسعود سے سعید بن منصور، عبدبن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے روایت کیا، جب کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عبدبن حمید نے روایت کیا۔(ت)
( ۳ ؎۔جامع البیان (التفسیر الطبری) تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۱ )
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۷/ ۳۲)
اس آیت میں اگرچہ تاویل ہوسکے، صحابہ کرام خصوصاً ایسے اجلہ اعلم بمعانی القرآن ہیں اور انکا اتباع واجب ۱۲۔منہ مدظلہ العالی۔
اکتیس لاکھ سولہ ہزار باون میل باہر ہے اگر مرکز متحد ہوتا زمین سے آفتاب کا بُعد ہمیشہ یکساں رہتا مگر بوجہ خروج مرکز جب آفتاب نقطہ (ا) پر ہوگا مرکز زمین سے اس کا فصل (ا ،ج) ہوگا یعنی بقدر (ا۔ب) نصف قطر مدار شمس + ب ج مابین المرکزین اور جب نقطہ ء پر ہو گا اس کا فصل ج ء ہو گا یعنی بقدر ب ء نصف قطر مدار شمس +
ب ج مابین المرکزین دونوں فصلوں میں بقدر دو چند مابین المرکزین فرق ہوگا یہ اصل کروی پر ہے لیکن وہ بعد اوسط اصل بیضی پر لیا گیا ہے اس میں بعد اوسط منتصف مابین المرکزین پر ہے تو بعد اوسط +نصف مابین المرکزین = بعد ابعد ۔ نصف مذکور = بعد اقرب لاجرم بقدر مابین المرکزین فرق ہوگا اور یہی نقطے اس قرب و بعد کے لیے خود ہی متعین رہیں گے۔
کتنی صاف بات ہے جس میں نہ جاذبیت کا جھگڑا نہ نافریت کا بکھیڑا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم ۔۱ یہ سادھا ہوا ہے زبردست جاننے والے کا، جل وعلاو صلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا وآلہ وصحبہ وسلم ۱۹ صفر ۱۳۳۸ھ ۱۲ نومبر ۱۹۱۹ ۔
عہ: ماہنامہ الرضا بریلی صفر ۱۳۳۸ھ ۔
( ۲ ؎۔القرآن الکریم ۳۶/ ۳۸ )
(۸) اقول: جاذبیت کے بطلان پر دوسرا شاہد عدل قمر ہے۔ ہیئات جدیدہ میں قرار پاچکا ہے کہ اگرچہ زمین قمر کو قریب سے کھینچی ہے اور آفتاب دور سے، مگر جرم شمس لاکھوں درجے جرم زمین سے بڑا ہونے کے باعث اس کی جاذبیت قمر پر زمین کی جاذبیت سے ۵/۱ ۔۲ گنی ہے۔یعنی زمین اگر چاند کو پانچ میل میں کھینچتی ہے تو آفتاب گیارہ میل اور شک نہیں کہ یہ زیادت ہزاروں برس سے مستمر ہے تو کیا وجہ کہ چاند زمین کو چھوڑ کر اب تک آفتاب سے نہ جا مِلا یا کم از کم ہر روز یا ہر مہینے اس کا فاصلہ زمین سے زیادہ اور آفتاب سے کم ہوجاتا مگر مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں تو ضرور جاذبیت باطل و مہمل خیال ہے اور یہاں یہ عذر کہ آفتاب زمین کو بھی تو کھینچتا ہے عجب صدائے بے معنی ہے زمین کو کھینچنے سے قمر پر اس کی کشش کیوں کم ہوگی۔ ایک اور ۵/ ۱۱ کی نسبت اسی حالت موجودہ ہی پر تو مانی گئی ہے جس میں شمس زمین کو بھی جذب کررہا ہے پھر اس قرار یافتہ مسلم کا کیا علاج ہوا۔
(۹) لطف یہ کہ اجتماع کے وقت قمر آفتاب سے قریب تر ہوجاتا ہے اور مقابلہ کے وقت دُور تر حالانکہ قریب وقت اجتماع آفتاب کی جاذبیت کہ ۱۶/ ۱۱ ہے صرف ۸/ ۳ ہی عمل کرتی ہے کہ قمر شمس وارض کے درمیان ہوتا ہے زمین اپنی طرف ۵ حصے کھینچتی ہے اور شمس اپنی طرف ۱۱ حصے تو بقدر فضل جذب شمس ۱۶/ ۶ جانب شمس کھینچا اور قریب وقت مقابلہ جاذبیت کے سب سولہ حصّے قمر کو جانب شمس کھینچتے ہیں کہ ارض شمس وقمرکے درمیان ہوتی ہے تو دونوں مل کر قمر کو ایک ہی طرف کھینچتے ہیں، غرض وہاں تفاضل کا عمل تھا یہاں مجموع کا کہ اس کے سہ چند کے قریب ہے، تو واجب کہ وقت مقابلہ شمس سے بہ نسبت وقت اجتماع قریب تر آجائے حالانکہ اس کا عکس ہے تو ثابت ہوا کہ جاذبیت باطل ہے۔
(۱۰) طرفہ یہ کہ اس بیچارے صغیر الجثہ چاند کو صرف شمس ہی نہیں اُس کے ساتھ زہرہ عطارد بھی جانب شمس کھینچتے ہیں اور ادھر سے ارض اپنی طرف گھسیٹتی ہے خصوصا اُن تینوں کا ایک درجہ سے بھی کم فاصلہ میں ہزاروں بار قران ہوچکا ہے نہ اُن تینوں کی مجموعی کشش جذب زمین پر غالب آتی ہےنہ اس ستم کشاکش میں قمر کو کوئی زخم پہنچتا ہے۔نہ وہ ہسپتال جاتا ہے نہ سول سرجن کا معائنہ ہوتاہے (عہ ) ۔
عہ: لطیفہ : اعلٰیحضرت مدظلہ کی نوعمری کا واقعہ ہے جسے تقریباً ۴۵ سال سے زائد ہوئے اعلٰیحضرت قبلہ ایک طبیب کے ہاں تشریف لے گئے ان کے استاد ایک نواب صاحب (جو علم عربی بھی رکھتے تھے اور علوم جدیدہ کے گرویدہ) ان کو مسئلہ جاذبیت سمجھا رہے تھے کہ ہر چیز دوسری کو جذب کرتی ہے اثقال کہ زمین پر گرتے ہیں نہ اپنے میل طبعی بلکہ کشش زمین سے۔
اعلٰی حضرت قبلہ: بھاری چیز اوپر سے دیر میں آنا چاہیے اور ہلکی جلد کہ آسان کھینچے گی حالانکہ امر بالعکس ہے ۔
نواب صاحب: جنسیت موجب قوت جذب ہے ثقیل میں اجزائے ارضیہ زائد ہیں لہذا زمین اسے زیادہ قوت سے کھنچتی ہے۔
اعلٰی حضرت : جب ہر شے جاذب ہے اور اپنی جنس کو نہایت قوت سے کھینچتی ہے تو جمعہ وعیدین میں امام ایک ہوتا ہے اور مقتدی ہزاروں، چاہیے کہ مقتدی امام کو کھینچ لیں۔
نواب صاحب : اس میں روح مانع اثر جذب ہے۔
اعلٰیحضرت : ایک جنازے پر دس ہزار نمازی ہوتے ہیں اور اس میں روح نہیں کہ نہ کھینچنے دے تو لازم ہے کہ مردہ اڑ کر نمازیوں سے لپٹ جائے۔ نواب صاحب خاموش رہے۔
آفتاب (عہ۱) کہ چھ کروڑ چاند سے بھی لاکھوں حصے بڑا ہے اس پر تو چار کے اجتماع سے وہ ظلم ہوتا تھا۔ قمر بیچارے کی کیا ہستی یہ اس کھینچ تان میں پرزے پرزے ہوجانا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر حرف آنا درکنا ر اس کی منضبط چال میں اصلاً فرق نہیں آنا۔ تو منجم کے اوہام اور جاذبیت کے تخیلات سب باطل ہیں۔
عہ۱: اصول علم الہیأۃ میں قمر کو زمین کا ۴۹/ ۱ لکھا اور بالتوفیق ۲۰۳۴ء۰ حدائق النجوم ۰۲۰۳۶ء۰ میں شمس اس کے نزدیک زمین کے ۱۲۴۵۱۳۰ مثل ہے اسے ۰۲۰۳۴ء پر تقسیم کیے سے آفتاب ۶۱۲۱۵۸۴۳ قمر کی مثل ہوا اور ہمارے حساب سے کہ قطر شمس ۲ء۸۶۶۵۵۴ میل ہے اور قطر قمر ہنس نے ۲۱۶۱ میل بتایا کما فی اصول الھیأۃ تو شمسی ۶۴۴۷۹۶۶۷ قمر کے برابرہوا بہرحال چھ کروڑ چاند کے بموجب سب سے لاکھوں کی قدر ہے۔
(۱۱) اس کے بعد بفضلہ تعالٰی جاذبیت کے ردنافریت کے رد حرکت زمین کے رد میں اور مضامین نفیسہ کہ آج تک کسی کتاب میں نہ ملیں گے۔ خیال میں آئے اُن کا بیان موجب طول تھا لہذا انہیں ان شاء اﷲ العزیز ایک مستقل رسالہ میں تحریر کریں گے۔یہاں بقیہ کلام منجم کی طرف متوجہ ہوں۔ آفتاب کا کلف جسے داغ کہا بارہا نظر آیا۔۱۷ دسمبروالا اگر ہو تو انہیں میں کا ایک ہوگا جو بارہاگزرچکے۔
(ا) قدیم زمانے میں شیز نامی ایک عیسائی راہب نے اپنے رئیس سے کہا میں نے سطح آب پر ایک داغ دیکھا اس نے اعتبار نہ کیا اور کہا میں نے اول تاآخر ارسطوکی کتابیں پڑھیں ان میں کہیں داغ شمس کا ذکر نہیں۔
(ب) علامہ قطب الدین شیرازی نے تحفہ شاہیہ میں بعض قدماء سے نقل کیا کہ صفحہ شمس پر مرکز سے کچھ اوپر محور قمر کی مانند ایک سیاہ نقطہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ کہ مہندس نے محض نظر سے دیکھا کتنا بڑا ہوگا۔کم از کم اس کا قطر۲۲۵۲۰ میل ہوگا کما یعلم ممّا سیاتی (جیسا کہ معلوم ہوجائے گا اس دلیل سے جو عنقریب آرہی ہے،ت)
(ج) ابن ماجہ اندلسی نے طلوع کے وقت روئے شمس پر دو سیاہ نقطے دیکھے جن کو زہرہ وعطارد گمان کیا ۔
(د) ہر شل دوم نے ایک داغ دیکھا جس کی مساحت تین ارب اٹھتّر کروڑ میل بتائی۔
اقول : یعنی اگر وہ بشکل دائرہ تھا تو اس کا قطر۶۹۳۷۵ میل۔
(ہ) یورپ کے ایک اور مہندس نے ایک اور داغ دیکھا جس کا قطر ایک لاکھ چالیس ہزار میل حساب کیا۔
اقول : یعنی اگر دائرہ تھا تو اس کی مساحت پندرہ ارب انتالیس کروڑ اڑتیس لاکھ میل۔
(و) ۲۹ جولائی ۱۸۰۷ء میں سمٹ نے اس شکل کا داغ دیکھا۔
(ز) بیس جنوری ۱۸۶۵ء میں کوسکی نے اس صورت کا داغ دیکھا۔
(ح) قرار پاچکا ہے کہ جو کلف قطر شمس کے پچاس ثانیے سے زائد ہوگا بے آلہ نظرآئے گا، ہاں آفتاب پر نگاہ جمنے کے لیے لطیف بخارات ہوں یا رنگین شیشے کی آڑ۔
(۱۲)کہا گیا ہے کہ یہ کلفت قطبین شمس کے پاس اصلاً نہیں ہوتی اور اس کے خط استواء کے پاس کم، وہاں سے ۳۰، ۳۵ درجے شمال جنوب کو بکثرت ان میں بھی شمال کو زائد جنوب کو کم، اگر یہ قران و مقابلہ سیارات کا اثر ہے تو یہ تخصیصیں کس لیے ہیں شمس کے جس حصہ کو ان سے مواجہہ ہو وہاں ہوں۔
(۱۳) ان کا حدوث آفتاب کی جانب شرقی اور زوال جانب غربی سے شروع ہوتا ہے۔ اثر قرانات میں یہ خصوصیت کیوں؟
(۱۴) بعض کلف دیرپا ہوتے ہیں کہ قرص شمس پر دورہ کرتے ہیں جانب شرقی سے باریک خط کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، پھر جتنا اوپر چڑھتے ہیں چوڑے ہوتے جاتے ہیں مرکز شمس تک اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں جب آگے بڑھے گھٹنا شروع کردیتے ہیں۔ کنارہ غربی پر پھر بشکل خط رہ کر غائب ہوجاتے ہیں پھر کنارہ شرقی سے اسی طرح چمکتے ہیں۔ ان کے دورے کی ایک مقرر میعاد خیال کی گئی ہے کہ پونے چودہ دن میں صفحہ شمس کو قطع کرتے ہیں اور پہلے ظہور شرقی سے ۲۷ دن ۱۲ گھنٹے ۲۰ دن کے بعد دوبارہ ظاہر ہوتے ہیں لیکن اکثر داغوں میں آناً فاناً بادلوں کے سے تغیرات ہوتے ہیں جن سے متاخرین یورپ نے گمان کیا ہے کہ یہ کرہ آفتاب کے سحاب ہیں بعض اوقات دفعۃً پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات دیکھتے دیکھتے غائب ہوجاتے ہیں، ہر شل یکم دوربین سے داغوں کا ایک گچھّا دیکھ رہا تھا لحظہ بھر کے لیے نگاہ ہٹائی اب جو دیکھے ایک داغ بھی نہیں،کبھی آفتاب کی جانب غربی سے ایک داغ زائل ہوا ہی تھا کہ معاً جانب شرقی میں نیا پیدا ہوگیا۔ ابھی ایک داغ دیکھ ہی رہے ہیں تھوڑی دیر میں وہ پھٹ کر چند داغ ہوجاتا ہے چند داغ ہیں اور ابھی مل کر ایک ہو گئے راجر لانک نے ایک گو ل داغ دیکھا جس کا قطر آٹھ ہزار میل تھا دفعۃً وہ متفرق متفرق ہو کر دوداغ ہوگیا اور ایک ٹکڑا دوسرے سے بہت دور دراز مسافت پر چلاگیا اکثر یہ ہے کہ اگر چند داغ بتدریج پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی چند بتدریج فنا ہوجاتے ہیں اور اگر کئی داغ دفعۃً چمکے ویسے ہی کئی دفعہ جاتے رہے ان کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں۔ ایک بار وسا میں تیس سال کامل ان کی رصد بندی کی گئی۔ بعض برسوں میں کوئی دن بھی داغ سے خالی نہ تھا۔ بعض میں صرف ایک دن خالی گیا بعض میں ایک سو ترانوے دن صاف ان تمام حالات کو قرانات کے سر ڈھالنا کس قدر بعید ہے۔
(۱۵) داغ پیدا کرنے کے لیے اقتران کی کیا حاجت ہے، سیارے آفتاب کے نزدیک ہمیشہ رہتے اور تمہارے زعم میں اُسے ہمیشہ جذب کرتے ہیں، تو چاہیے کہ آفتاب کا گیس مدام اڑتا رہے اور آتش فشانی سے کوئی وقت خالی نہ ہو۔ اس کا جواب یہ ہوگا کہ اور وقت ان کا اثر جرم شمس پرمتفرق ہوتا ہے جس سے آفتاب متاثر نہیں ہوتا بخلافِ قران کے دو یا زائد مل کر موضع واحد پر اثر ڈالتے ہیں۔اس سے یہ آگ بھڑکتی ہے ایسا ہے تو جب وہ ۲۶ درجے ۲۳ دقیقے کے فاصلہ میں منتشر ہیں اب بھی ان کا اثر آفتاب کے متفرق مواضع پر تنہا ہے نہ مجموعی ایک جگہ پر پھر آفتاب کیوں متاثرہوگا۔ یہ فاصلہ کہ تھوڑا سمجھے مرکز شمس سے فلک نیپچون تک ہر سیارے کے مرکز پر گزرتے ہوئے خط کھینچے جائیں تو معلوم ہو کہ سو کروڑ میل سے زائد کا فصل ہے۔ شمس سے نیپچون کا بُعد زمین کے تیس گنے سے زیادہ ہے۔اگر تیس ہی رکھیں تو دو ارب اٹھتر کروڑ ستر لاکھ میل ہوا اور اس کے مدار کا قطر پانچ ارب ستاون کروڑ چالیس لاکھ میل اور اس کا محیط ستر ارب اکیاون کروڑ بارہ لاکھ میل سے زائد اور اس کے ۲۶ درجے ۲۳ دقیقے ایک ارب اٹھائیس کروڑ ۳۳ لاکھ۴۶ ہزار میل سے زیادہ ایسے شدید بعید فاصلہ میں پھیلا ہوا انتشار کیا مجموعی قوت کا کام دے گا۔ یہ بھی اس حالت میں ہے کہ ان کے اختلاف عرض کا لحاظ نہ کیا اور اگر ضرر رسانی شمس کے لیے سب کو سب سے قریب تر فلک عطارد پر لاڈالیں تو بعد عطارد: بعد ارض ::۳۸۷ء: ۱ تو شمس سے بعد عطارد ۳۵۹۵۲۳۰۰ میل ہوا تقریباً تین کروڑ ساٹھ لاکھ میل اور قطر مدار ۷۱۹۰۴۶۰۰ سات کروڑ ۱۹ لاکھ میل سے زائد اور محیط ۲۲ کروڑ ۵۸لاکھ ۹۵ ہزار میل اور ۲۶ درجے ۲۳ دقیقے ایک کروڑ ۶۵ لاکھ ۵۵ ہزار ۱۷۳ میل ، یہ فاصلہ کیا کم ہے بلکہ بالفرض سب دوریاں اٹھا کر تمام سیاروں کو خود سطح آفتاب پر لاکھ رکھیں جب بھی یہ فاصلہ دو لاکھ میل ہوگا یعنی ۱۹۹۵۱۴ کہ قرص شمس کا دائرہ ۲۷ لاکھ ۲۲ ہزار ۳۶۱ میل ہے۔
(۱۶) اگر آفتاب کا جسم ایسا ہی کمزور مسام ناک ہے کہ اس قدر شدید متفرق زدسرایت کرکے اس کے موضع واحدپر ہوجاتی ہے تو پچاس ساٹھ یا ستّر اسی یا سو درجے کے فاصلہ پرپھیلے ہوئے ستارے کہ اکثر اوقات گر د شمس رہتے ہیں ان کی مجموعی زد ہمیشہ کیوں نہیں عمل کرتی، اگر اتنا فاصلہ مانع ہے تو دو سیاروں کا مقابلہ کیوں عمل کرتا ہے جب کہ ان میں غایت درجے کا فصل ۱۸۰ درجے ہے خصوصاً ایسا فرضی مقابلہ جیسا یہاں یورنیس کو ہے کہ تحقیقی کسی سے نہیں جس پر خط واحدکا مہمل عذر ہوسکے۔
(۱۷) بالفرض یہ سب کچھ سہی پھر آفتاب کے داغوں کو زمین کے زلزلوں، طوفانوں، بجلیوں، بارشوں سے کیا نسبت ہے۔ کیا یہ احکام منجموں کے لیے بے سرو پا خیالات کے مثل نہیں کہ فلاں گروہ یا جوگ یا نچھتر کے اثر سے دنیا میں یہ حادثات ہوئے جس کو تم بھی خرافات سمجھتے ہو اور واقعی خرافات ہیں، پھر آفتاب کیا امریکہ کی پیدائش یا وہیں کا ساکن ہے کہ اُس کی مصیبت خاص ممالک متحدہ کا صفایا کردے گی۔ کل زمین سے اس کو تعلق کیوں نہ ہوا، بیان منجم پر اور مواخذات بھی ہیں مگر ۱۷ دسمبر کے لیے ۱۷ پر ہی اکتفا کریں(عہ) ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
عہ: ماہنامہ الرضا بریلی ربیع الاول ۱۳۳۸ھ۔
رسالہ
معین مبین بہرد ورشمس وسکون زمین
ختم ہوا۔