ٹیلی پیتھی اور مراقبہ
دوزا نو ہو کر بیٹھ جائیں۔ اس طرح کہ پشت بالکل سیدھی سربلند اور نظر بالکل سامنے ہو اور پھر پوری کیوئی سے اپنی نظر جما دیں یہ نظری ارتکاز توجہ کی مشق کہلاتی ہے ۔اس دوران لاشعور کی پیدا کردہ جو پراسرار آوازیں سنائی دیں گی ۔ ان کی وجہ سے ابتدا میں دشواری ہو گی۔ مگر آہستہ آہستہ ذہنی یکسوئی پیدا ہوتی جائے گی اور آپ اس کے عادی ہوتے جائیں گے ۔اس مشق کا اصل مقصد تحت الشعور کی خفیہ قوتوں کو بیدار کر کے ان سے ارتکا ز توجہ کا کام لینا ہے۔
شمع بینی اور ٹیلی پیتی دو مختلف منزلیں ہیں۔ یہ نہ سمجھ لینا چاہئیے کہ شمع بینی کی مشق ہی انتقال خیال کے لئے کافی ہو گی شمع بینی اس منزل تک پہنچنے کا ایک زینہ ہے۔ شمع بینی سے انسان میں حسی ادراک کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے اور توجہ مرکوز کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے ۔
شمع بینی بڑی آسان مشتق ہے۔ ہمیشہ اچھی قسم کی بڑی موم بتی استعمال کریں ۔ شمع بینی کے لئے صاف ستھرے پر سکون اور مناسب کمرے کا انتخاب کریں موم بتی کو رکھنے کے لئے میز اتنی اونچی ہو کہ جب آپ بیٹھے ہوئے ہوں تو شمع کی لو بالکل آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو۔ کرسی آرام دہ ہو لیکن اتنی بھی نہیں کہ نیند آ جائے۔ شمع بینی کی ایک اور مشق یہ ہے کہ شمع روشن کر کے تقریبا ڈھائی فٹ کے فاصلے پر رکھ دیں۔ آرام دہ کرسی پر بیٹھ جائیں ۔ عضلات کو ڈھیلا چھوڑ دیں ۔ گہری سانس لیکر آرام کی کیفیت پیدا کریں۔
اس کے بعد مکمل توجہ سے شمع کو گھور نا شروع کر دیں۔ شمع کی لو پھیلتی ہوئی محسوس ہو گی ۔ لیکن آپ اپنی مشق جاری رکھیں۔
اب اسی روشنی میں مختلف رنگوں کی کیفیت آپ کے ذہنی افق پر نمودار ہوگی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ سارا ذہن روشنی سے منور نہ ہو جائے ۔ اس مشق سے آپ ارتکا ز توجہ پر قابو پالیں گے ۔
جن لوگوں کو شمع بینی کی مشق میں دشواری ہو۔ ان کو تیسری آنکھ سے کام لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس مشق میں اپنی آنکھ میں بند کر کے اپنی باطنی آنکھ سے تصور کریں کہ آپ کے سامنے سلولائیڈ کی طرح ایک اسکرین ہے۔
اپنی نظریں اسی سکرین پر جما دیں ۔ پوری توجہ سے گھورتےر ہیں ۔ اپنے ذہنی خیالات کا عکس اس پر ڈالیں۔ اس میں کرسی پر بیٹھنے کی بجائے زمین پر بیٹھنا ضروری ہے یہ یوگا مشق ہے جسے یوگا سما دھی میں کنول اسن کہتے ہیں
بہر حال اس مشق سے فارغ ہو کہ بستر پر چت لیٹ جائیں اور جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور کریں کہ مرکز دماغ میں برقی قمقمہ روشن ہےجب یہ مشق اپنے انتہائی مرحلے میں تکمیل پا جاتی ہے تو یہ مشق کرنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ روشنی کے بالوں میں ملقوف ہو چکا ہے۔ وہ اپنے جسم کے ایک ایک حصہ سے ان روشنیوں کو نکلتے ہوئے محسوس کرتا ہے جیسے اس کے جسم میں تیز روشنی کے بلب جل رہے ہیں ۔
انسان کا دماغ ایک بہت بڑا کمپیوٹر ہے جو ہمہ وقت کام کرنا رہتا ہے شعوری طور پر بھی اور غیر شعوری طور پر بھی ۔ یہ عمل انسان کے دل کی حرکت کی طرح خود کار ہے یہ وہ خود کار حصہ ہے جو القا کی شکل میں اطلاعات فراہم کرتا رہتا ہے۔
سائنس دان اس خود کار نظام کو بصیرت کہتے ہیں جو انسان کی روح کی طرح ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے ۔ انسان سوتا ہو یا جاگتا ہو اس کے عمل میں فرق نہیں آتا ہے۔ روح کبھی نہیں سوتی۔ یہ روح کی آنکھ ہوتی ہے جو دیکھ لیتی ہے اور ہم اس پر عمل کر تے ہیں۔ جتنی روح قوی ہوتی ہے۔ انسان کا دائرہ اسی قدر وسیع ہو تا ہے جسم جس قدر کمزور ہو گا روح اتنی ہی طاقتور ہو گئ جس طرح جسم کے لئے ورزش ہے ، اسی طرح روح کی ورزش ذکر اور فکر کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ بعض وظائف روحانیت بڑھانے کے لئے بہت کارآمد ہیں۔ وظائف کے دوران ترک حیوانات اس طرح کرایا جاتا ہے کہ جسم کو زیادہ طاقتور بنانے سے روحانی طاقت پر اثر پڑتا ہے۔