رسالہ
السّھم الشہابی علٰی خداع الوھابی
(شعلے برساتا ہوا تِیر بڑے دھوکا باز وہابی پر)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۳۵: از شہر جیت پور کا ٹھیا وار مرسلہ جماعت میمناں ۸ شوال ۱۳۲۵ھ
حضرات کرام علمائے اہلسنت وارث علوم حضرت رسالت علیہ الصلوۃ والسلام اس باب میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخض مولوی رحیم بخش نامی لاہور کے رہنے والے نے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے اردو کی کتابوں کا ایک سلسلہ بنایا ہے جس کا نام اسلام کی پہلی کتاب ،اسلام کی دوسری کتاب،اسلام کی تیسری کتاب وغیرہ رکھا ہے،ان کتابوں کا مصنف اسلام کی دوسری کتاب کے صفحہ ۳ سطر ۸ میں لکھتا ہے : ان کتابوں میں بعض مقام میں جو لفظ اہل حدیث اور فقہاء کا استعمال کیا گیا ہے اس سے نہ اہل حدیث پر طعن مقصود ہے اور نہ فقہا کو مخالف حدیث کا لقب مدنظر ہے بلکہ اہل حدیث سے وہ لوگ مراد ہیں جو صرف صحیح حدیث پڑھ کر یا سن کر عمل کرتے ہیں کسی خاص مذہب کے پابند نہیں،اور فقہاء سے وہ لوگ مراد ہیں جو خاص کتبِ فقہ اور خاص مذہب امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے پابند ہیں اور اپنے مذہب کی روایت کو زیادہ مانتے ہیں اس اختلاف کو اس سلسلے میں اس لیے بیان کیا ہے کہ اس زمانہ میں اکثر اہل حدیث اور فقہاء کے اختلاف کا زیادہ چرچا ہے۔ اور دونوں فریق کے لوگ بکثرت موجود ہیں ________________________________________________اور اس سلسلے میں عام مسلمانوں کی تعلیم اور اتحاد مقصود ہے،اور یہ اختلاف اسی اختلاف کے مشابہ ہے جو قدیم سے صحابہ اور آئمہ دین میں چلا آیا ہے اور کتبِ فقہ وغیرہ میں اکثر حنفی شافعی وغیرہ کے نام سے مذکور ہے،اصولِ دین میں سب متفق ہیں،صرف بعض فروع میں مختلف ہیں فروعی اختلاف میں بھی سند رکھتے ہیں،غایت یہ ہے کہ کسی کی دلیل قوی ہے اور کسی کی ضعیف اور جو ضعیف پر ہے وہ بھی اپنے نزدیک اس کو قوی سمجھتا ہے غرض ہمیں اس میں نہ تعصب ہے اور نہ کسی کی مخالفت منظور ہے،محض اشاعتِ دین اور اتباعِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقصود ہے۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۳ سطر ۶ میں لکھتا ہے : “حیض کی مدت میں علماء کا یہ اقوال ہیں ۔ ایک دن رات،دو دن رات،تین دن رات،سات دن رات،دس دن ،پندرہ دن،اصل یہ ہے کہ یہ امر ہر عورت کی عادت اور طبیعت پر منحصر ہے”۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۵ میں مرقوم ہے : “پانی کی طبیعت پاک ہے تھوڑا ہو یا بہت،بندہو یا جاری،بومزہ بدلنے سے ناپاک ہوجاتا ہے”۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۲۴ سطر ۸ میں کہتا ہے : “ظہر کا وقت آفتاب کے ڈھلنے کے وقت سے اصلی سایہ کے سوا ایک مثل تک ہے،بعض فقہا کے نزدیک دوسرے مثل تک بھی رہتا ہے لیکن مکروہ”۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۵۷ سطر ۵ میں تحریر ہے : “جن نمازوں میں قصر کا حکم ہے یہ ہیں ،ظہر،عصر ،عشاء ان میں سنتیں بھی معاف ہیں”۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۶۳ سطر ۸ میں لکھا ہے : “جو شخص خطبے میں آکر شریک ہو دو رکعت سنت پڑھ کر بیٹھے،جو شخض دوسری رکعت کے قیام سے پیچھے ملے اس کا جمعہ نہیں ہوتا وہ ظہر پڑھے”۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۱ سطر ۱۳ میں کہتا ہے : “اگر ایک دن میں جمعہ اور عید اتفاق سے اکٹھے ہوں تو جمعہ میں رخصت آئی ہے اگر پڑھے تو بہتر ہے”۔
پھر مولوی رحیم بخش کی بنا ئی ہوئی اسلام کی تیسری کتاب کے صفحہ ۸۶ میں مذکور ہے : “طلاق تین قسم کی ہے،احسن ،جائز ،بدعت”۔
پھر طلاق بدعت کی نسبت اسی صفحے کی سطر ۶ میں کہتا ہے :” طلاقِ بدعت یہ ہے کہ ایک طہر میں تین طاقیں پوری کردے یا ایک ہی دفعہ تین طلاق دے دے”۔
ھر صفحہ ۸۷ میں کہتا ہے : “طلاقِ بدعت بعض کے نزدیک تو واقع ہی نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک ہوتی ہے لیکن مکروہ ،تین طلاق ایک دفعہ میں یہ اختلاف ہے اگر تین طلاق ایک دفعہ دے دے تو کسی کے نزدیک طلاق ہے اور کسی کے نزدیک نہیں،جیسے طلاقِ بدعت میں بیان ہوا ہے۔”
یہ مُشتے نمونہ ازخروار ہے جو رحیم بخش مذکور کی طرف دو کتابوں میں سے مع نشانِ صفحہ و سطر آپ کے حضور میں پیش کیا گیا ہے،اب ارشاد ہو کہ مولوی رحیم بخش مذکور سنی حنفی پاک دین ہے یا پکا کٹا وہابی غیر مقلد بدمذہب اور اس کی کتابوں میں سے جو مسائل نکال کر لکھے گئے ہیں اور شناخت کے لیے ان پر قومے (” “) لگادئے ہیں ،یہ مسائل حنفیوں کے ہیں یا لامذہب وہابیوں کے، پھر اگر مولوی رحیم بخش وہابی غیر مقلد ہے اور اس کی کتابوں میں مسائل مخالفِ ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بصراحت موجود ہیں تو سنی حنفیوں کے نادان بچوں کو ایسی برباد کرنے والی اور مقلدوں کو لامذہب بنانے والی کتابوں کا پڑھانا جائز ہے یا حرام یا ناجائز ؟ پھر جو شخص قصداً سنی بچوں کو ایسی کتابیں پڑھائے اور دوسرے نادانوں میں ان کی اشاعت کرے اور ان کے پڑھنے کی ترغیب دلائے وہ شخص خود بھی پکا وہابی اور لامذہب ہے یا نہیں؟ اور جو شخصاس مصنف کو سنی حنفی بتائے اور مسائل مندرجہ کی نسبت کہے کہ ایسے مسائل تو حنفیوں کی معتبر کتابوں ہدایہ وغیرہا میں لکھے ہیں اور ایسا اختلاف تو حنفیوں میں چلا آتا ہے اور کہے کہ ان کتابوں کا بچوں کو ایسی صورت میں پڑھانا کہ ان کے باپ داد ا اور شہر کے رہنے والے حنفی ہوں کچھ حرج نہیں بلاکراہت جائز ہے وہ خود بھی پکا وہابی ،پکا لامذہب ،دین کا چور،سنیوں کا ٹھگ ہے یا نہیں؟ ان سب باتوں کا مفصل جواب عطا فرما کر ہم مسلمانانِ اہلسنت کو دین کے فتنے سے بچائیے اور خداوند کریم سے اجر عظیم حاصل فرمائیے۔ سائلان ہم سنی حنفی مسلمانان جیت پور ملک کاٹھیا وار
الجواب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ الذی انجانا من کیدالکائدین والصلوۃ والسلام علٰی من رد فساد المفسدین وعلٰی الہ وصحبہ والمجتہدین ومقلدیھم الٰی یوم الدین ۔
تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مکاروں کے مکر سے نجات عطا فرمائی ،اور درود و سلام ہو اس پر جس نے فسادیوں کے فساد کو رد فرمایا،اور آپ کی آل پر،آپ کے صحابہ پر،آئمہ مجتہدین پر اور ان کے مقلدوں پر قیامت کے روز تک (ت)
شخص مذکور صریح غیر مقلد و ہابی ہے اور حنفیوں کا صریح مخالف و بدخواہ،اور اس کی یہ ناپاک کتاب یقیناً گمراہی و فساد پھیلانے والی اور عظیم دھوکا دے کر حنفی بچوں کے دلوں میں بچپن سے لامذہبی و گمراہی کا بیچ بونے والی ہے،بچے،جوان کسی کو اس کتاب کا پڑھانا ہر گز جائز نہیں۔ جو حنفی بچوں اور عامیوں میں اس ضلالت مآب کتاب کی اشاعت کرتا اور اس کے پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے حنفیہ کا دشمن،حنفیہ کا بدخواہ،خود غیر مقلد،لا مذہب ،گمراہی پسند گمراہ ہے،جو سفیہ اس کے مصنف کو سنی حنفی کہے اور کہے کہ ایسا اختلاف خود حنفیہ میں چلا آتا ہے اور ایسے مسائل خود ہدایہ وغیرہ کتب حنفیہ میں موجود ہیں اور ان کا پڑھانا بلا کراہت جائز ہے وہ خود بھی منہم اور انہیں بدمذہبوں کی دُم ہے۔ اولاً : مصنف عیار کا اتنا لکھنا ہی اس کی بدمذہبی و غیر مقلدی کے اظہار کو بس تھا کہ وہ لا مذہبوں کو جن کا نام اس نے انہیں لا مذہبوں سے سیکھ کر اہل حدیث و محدثین رکھا ہے اور حنفیہ کرام کو ایک پلے میں رکھتا ہے اور ان کا اختلاف مثلا اختلاف صحابہ کرام و آئمہ اعلام رضی اللہ تعالٰی عنہم صرف فروعی بتاتا اور دونوں فریق میں اتحاد مناتا ہے حالانکہ غیر مقلدین کا ہم سے اختلاف صرف فروعی نہیں بلکہ بکثرت اصولِ دین میں ہمارا ان کا اختلاف ہے،ہماری تمام کتب اصول مالا مال ہیں کہ ہمارے اور جملہ آئمہ اہلسنت کے نزدیک اصولِ شرع چار ہیں ،کتاب و سنت اجماع و قیاس لامذہبوں نے اجماع و قیاس کو بالکل اڑا دیا۔ ان کا پیشوا صدیق حسن بھوپالی لکھتا ہے۔
قیاس باطل اور اجماع بے اثرآمد۔ قیاس باطل اور اجماع بے اثر ہے(ت)
ان کی تمام کتابیں اس سے پُر ہیں کہ وہ سوا قرآن و حدیث کے کسی کا اتباع نہیں کرتے اور اجماع و قیاس کے سخت منکر ہیں اور ہمارے آئمہ نے اجماع و قیاس کے ماننے کی ضروریاتِ دین سے گنا ہے اور ان کے منکر کو ضروریاتِ دین کا منکر کہا ہے اور ضروریاتِ دین کا منکر کافر ہے، پھر ہمارا ان کا اختلاف فروعی کیسے ہوسکتا ہے ،
مواقف و شرح و مواقف موقف اول ،مرصد خامس،مقصد سادس میں ہے : کون الاجماع حجۃ قطعیۃ معلوم بالضرورۃ من الدین ۱ ؎۔ یعنی اجماع کا حجت قطعی ہونا ضروریاتِ دین سے ہے :
( ۱ ؎ شرح الموقف الموقف الاول المرصد الخامس المقصد السادس منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۲۵۵ )
کشف البزدوی شریف میں ہے : قد ثبت بالتواتران الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنھم عملوا بالقیاس و شاع وذاع ذلک فیما بینھم من غیررد وانکار ۲۔ یعنی تواتر سے ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم قیاس پر عمل فرماتے تھے اور یہ ان میں مشہور و معروف تھا جس پر کسی کو اعتراض و انکار نہ تھا۔
(۲ ؎ کشف الاسرار عن اصول البزدوی باب القیاس دار الکتاب العربی بیروت ۳/ ۲۸۰)
اسی میں امام غزالی سے ہے : قد ثبت بالقوا طع من جمیع الصحابۃ الاجتہاد و القول بالرائ والسکوت عن القائلین بہ و ثبت ذلک بالتواتر فی وقائع مشہورۃ ولم ینکر ھا احد من الامۃ فاورث ذلک علماء ضروریات فکیف یترک المعلوم ضرورۃ ۳؎۔ یعنی قطعی دلیلوں سے ثابت ہے کہ جمیع صحابہ کرام اجتہاد و قیاس کو مانتے تھے اور اس کے ماننے والوں پر انکار نہ کرتے تھے اور یہ مشہور واقعوں میں تواتر کے ساتھ ثابت ہوا، اور امت میں سے کسی نے اس کا انکار نہ کیا تو اس سے علم ضروری پیدا ہوا تو جو بات ضروریاتِ دین سے ہے کیونکر چھوڑی جائے گی۔
(۳ ؎ کشف الاسرار عن اصول البزدوی باب القیاس دار الکتاب العربی بیروت ۳/ ۲۸۱)
درمختار کتاب السیر باب المرتد میں ہے : الکفرتکذیبہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی شئی مما جاء بہ من الدین ضرورۃ۱۔ یعنی ضروریاتِ دین نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم میں سے کسی شے کا انکار کفر ہے۔
( ۱ ؎ الدارالمختار کتاب السیر باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۵)
بالخصوص امام الائمہ مالک الازمہ کاشف الغمہ سراج الامہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قیاس سے ان گمراہوں کو جس قدر مخالفت ہے عالم آشکار ہے ، ان کی کتابیں ظفر المبین وغیرہ امام و قیاساتِ امام پر طعن سے مملوہیں۔
اور فتاوٰی عالمگیری جلد ثانی میں ہے : رجل قال قیاس ابی حنیفہ حق نیست یکفر کذا فی التاتارخانۃ۲۔ یعنی جو شخص کہے کہ امام ابوحنیفہ کا قیاس حق نہیں وہ کافر ہوجائے گا۔ ایسا ہی تاتارخانیہ میں ہے۔
( ۲ ؎ الفتاوٰی الھندیۃ کتاب السیر الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۲۷۱)
ثانیاً : یہ چالاک مصنف خود اقرار کرتا ہے کہ اسے کسی فریق سے مخالفت نہیں،یہ بات لامذہب بے دینی ہی کی ہوسکتی ہے جسے دین و مذہب سے کچھ غرض نہیں ورنہ دو متخالف فریقوں میں مخالفت نہ ہوئی کیونکر معقول۔
ثالثاً : لا مذہبوں کا اہلسنت کے ساتھ اختلاف مثلا اختلاف صحابہ کرام بتانا صراحۃً انہیں اہلسنت بنانا ہے حالانکہ ہمارے علماء صاف فرماتے ہیں کہ وہ گمراہ بدعتی جہنمی ہیں۔
طحطاوی علی الدرالمختار جلد ۳ میں ہے :
ھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ وھم الحنفیون والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رحمہم اﷲ ومن کان خارجا عن ھذہ الاربعۃ فی ھذا الزمان فہو من اھل البدعۃ والنار۳؎۔ یہ نجات والا اگر وہ یعنی اہلسنت و جماعت آج چار مذہب حنفی،مالکی،شافعی ،حنبلی میں جمع ہوگیا ہے۔ اب جوان چار سے باہر ہے وہ بدمذہب جہنمی ہے۔
( ۳ ؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الذبائح المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۴ /۱۵۳)
اور جو بدعتیوں جہنمیوں کو اہلسنت جانے اور ان کا خلاف مثل اختلافِ صحابہ مانے خود بدعتی ناری جہنمی ہے۔
رابعاً : اس بیان سے غیر مقلدوں لامذہبوں کی وقعت و توقیر مسلمان بچوں کے دلوں میں جمے گی کہ ان کا اختلاف مثل اختلافِ صحابہ کرام ہے،
اور حدیث میں ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا : من وقر صاحب بدعتہ فقداعان علٰی ھدم الاسلام ۱ ؎ ۔ جو کسی بدمذہب کی توقیر کرے اس نے دین اسلام کے ڈھانے پرمدد دی۔
(۱؎ شعب الایمان حدیث ۹۴۶۴ دار الکتب العلمیہ بیروت ۷/ ۶۱)
تو اس کتاب کا نام “اسلام کی کتاب” رکھنا نہ تھا بلکہ اسلام ڈھانے کی کتاب۔
خامساً : اس مصنف عیار نے نادان مسلمانوں اور ان کے بے سمجھ بچوں کو کیسا سخت فریب شدید دھوکا دیا ہے،یہاں تو لکھ دیا کہ وہ کسی مذہب سے تعصب نہیں رکھتا ملک میں فقہاء و اہل حدیث دونوں بکثرت موجود ہیں،اور اس سلسلے میں عام مسلمانوں کی تعلیم مقصود ہے اس لیے دونوں فریق کا اختلاف اس میں بیان کردیا ہے جس سے ظاہر ہوا کہ وہ ہر جگہ مذہب فریقین بیان کردے گا کہ ہر فریق والا اپنا مذہب جان لے مگر اس نے صراحۃً اس کے خلاف کیا،کہیں کہیں اختلاف بتایا اور وہاں بھی جا بجا دوسروں کے مذہب کو اصل مسئلہ ٹھہرایا۔ اور حنفیہ کے مذہب کو کمزور کرکے کہا کہ بعض یوں کہتے ہیں،اور بہت جگہ صرف لامذہبوں کے مسئلے لکھے جو مذہب حنفی کے صریح خلاف ہیں،دراصل اختلاف کا پتا بھی نہ دیا جس سے مسلمانوں کے بچی اس مذہب مخالف پر جم جائیں اور اپنے مذہب کی خبر بھی نہ پائیں اگر وہ ابتداء میں اختلافات بتانے کا وعدہ نہ کرتا تو دھوکا اتنا سخت نہ ہوتا،جب مسلمان جانتے کہ اس کتاب میں حنفیہ وغیر حنفیہ سب کے مسائل گھال میل بے تمیز ہیں،تو مسلمان اس کتاب سے بچتے،اب کے ان کو یہ دھوکا دیا کہ جہاں اختلاف ہے دونوں مذہب بتادیئے جائیں گے تو ان کو اطمینان ہوگیا کہ اپنا مذہب لیں گے دوسروں کا چھوڑ دیں گے اب کیا یہ گیا کہ کہیں کہیں اختلاف بتا کر بکثرت مواقع پر مذہب لکھا دوسروں کا اور اختلاف اصلاً نہ بتایا تو ناواقفوں کو صاف بتایا کہ یہ مسئلے متفق علیہ ہیں ان پر بے تکلف عمل کرو یہ کتنی بڑی دغا بازی اور مسلمان بچوں کی بد خواہی ہے،اس کی نظیریہ ہے کہ کوئی شخص سبیل لگائے اور اشتہار دے دے کہ جو آبخورے ناپاک یا تمہارے مذہب کے خلاف ہیں ان پر چٹ لگادی ہے اور بعض پر تو چٹ لگائے باقی بہت ناپاک آبخورے بے چٹ کے ملادے تو وہ صراحۃً بے ایمانی و دغا بازی کررہا ہے اگر وہ اتنا ہی کہتا کہ ان میں کچھ آنجورے نجس بھی ہیں تو کوئی مسلمان انہیں ہاتھ نہ لگاتا،چٹ کے دھوکے نے مسلمانوں کو فریب دیا،غیر مقلدوں کے طور پر سوئر کی چربی حلال اور شراب وخون پاک ہے،یہ کتاب ایسی ہوئی کہ کسی غیر مقلد نے کوئی عام دعوت کی اور اعلان کردیا کہ جس سالن میں گھی ہے وہ حنفیہ کے لیے پکایا ہے اور جس میں سوئر کی چربی ہے وہ ان غیر مقلدوں اہل حدیث کے لیے پکایا ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ حنفیہ کا کھانا چینی کے برتنوں میں ہے اور غیر مقلدوں کا پیتل کے بٹوے میں۔ اور پھر کرے یہ کہ بہت سالن سوئر کی چربی والا چینی کے برتنوں میں رکھ دے،ہر صاحبِ انصاف یہی کہے گا کہ یہ شخص سخت مفسد ہے اور بڑے فساد کا بیج بوتا ہے۔ اس وقت اس کی دوسری کتاب ہمارے پیش نظر ہے اس سے اسی قسم کے چند اقوال التقاط کیے جاتے ہیں۔
(۱) کچھ سر کا مسح فرض ہے،حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ حنفیہ کرام کے نزدیک ربع سرکا مسح فرض ہے اگر ربع سے کم کا کرے گا ہر گز نہ وضو ہوگا نہ نماز۔
ہدایہ میں ہے : المفروض فی مسح الراس مقدار الناصیۃ وھوربع الراس ۱؎ ۔
سرکا مسح ناصیہ کی مقدر وض ہے اور وہ سرکا چوتھا حصہ ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایۃ کتاب الطہارات المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۳)
(۲ و ۳) ص ۳۰ : بول و براز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے خون نکلنے اور قے کرنے سے وضوبہتر ہے حنفیہ کے نزدیک خون بہہ کر نکلے یا منہ بھر قے ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔وضو کرنا فقط بہتر ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔
ہدایہ میں ہے : نواقض الوضوء الدم والقی ملئ الفم ۲؎ ۔ (خون کا بہنا اور منہ بھر کر قے وضو توڑنے والی چیزیں ہیں۔ت)
(۲؎ الہدایۃ کتاب الطہارات فصل فی نواقض الوضو ا/۸)
(۴) حاشیہ ص۹ : بعض کے نزدیک عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے گو ٹوٹنے پر کوئی دلیل کافی نہیں تاہم اختلاف سے نکلنا بہتر ہے،نکسیر کا بھی یہی مسئلہ ہے۔یہاں صراحۃً نکسیر کے بارے میں حنفی مذہب کے مسئلہ کو بے دلیل کہا اور اس سے وضو بہتر بتایا حالانکہ حنفیہ کے نزدیک اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،
ہدایہ : لو نزل من الراس الٰی ما لا ن من الانف نقض الوضوء بالاتفاق ۱ ؎ ۔ اگر خون سر سے نازل ہوا اور ناک کے نرم حصہ تک پہنچ گیا تو بالاتفاق وضو ٹوٹ گیا۔ (ت)
( ۱ ؎الہدایۃ کتاب اطہارات فصل فی نواقض الوضوء المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱/ ۱۰)
(۵) ص ۱۰ : غسل کے فرائض میں صرف اتنا لکھا ہے کہ سارے بدن پر پانی ڈالنا فرض ہے حالانکہ مذہب حنفی میں غسل کے تین فرض ہیں : کلی اور ناک میں پانی پہنچانا اور سارے بدن پر پانی ڈالنا ،
ہدایہ : فرض الغسل المضمضۃ والا ستنشاق وغسل سائرالبدن ۲ ؎ ۔ غسل کے فرائض کلی کرنا،ناک میں پانی پہنچانا،اور سارے بدن پر پانی بہانا (ت)
( ۲ ؎الہدایۃ کتاب اطہارات فصل فی الغسل الوضوء المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۱۲)
(۶) ص ۱۳ : وہ کہ سائل نے دربارئہ حیض نقل کیا اصل یہ ہے کہ یہ امر ہر عورت کی عادت و طبیعت پر منحضر ہے،یہ صراحۃً مذہبِ حنفی کا رد ہے حنفیہ کے نزدیک حیض نہ تین رات دن سے کم ہوسکتا ہے نہ دس رات دن سے زائد،
ہدایہ : اقل الحیض ثلثۃ ایام ولیا لیھا و مانقص من ذلک فہواستحاضۃ واکثرہ عشرایام والزائد استحاضۃ ۳۔ حیض کم از کم تین دن رات ہے جو اس سے کم ہو وہ استحاضہ ہے،اور زیادہ سے زیادہ حیض ۱۰ دن ہے جو اس سے زائد ہو وہ استحاضہ ہے۔ت)
( ۳؎ الہدایۃ کتاب اطہارات باب الحیض والا اسحاضہ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۴۶)
(۷) ص ۱۵ : وہ کہ سائل نے نقل کیا کہ پانی کی طبیعت پاک ہے،حنفیہ کے نزدیک تھوڑا پانی ایک قطرہ نجاست سے بھی ناپاک ہوجائے گا یہاں جو اس غیر مقلد نے فقط مزے اور بو کے بدلنے پر مدار رکھا اجماع تمام امت کے خلاف ہے کہ نجاست کے سبب رنگ بدلنے سے بھی بالاجماع پانی ناپاک ہوجائے گا اگرچہ مزہ و بو نہ بدلے،
درمختار باب المیاہ : ینجس الماء القلیل بموت بط وبتغیر احد اوصافہ من لون اوطعم اوریح و ینجس الکثیرو لو جاریا اجماعا اما القلیل فینجس وان لم یتغیر ، ۱ ؎ قلیل پانی بطخ کے اس میں مرنے کی وجہ سے نجس ہوجاتا ہے اور کثیر پانی نجاست کی وجہ سے نجس ہوجاتا ہے،اور کثیر پانی نجاست کی وجہ سے رنگ،بو یا مزہ بدلنے سے بالا جماع نجس ہوجاتا ہے اگرچہ جاری ہو،اور قلیل پانی نجاست کے وقوع سے نجس ہوجاتا ہے اگرچہ اس کا کوئی وصف نہ بدلے (ت)
( ۱ ؎الدرالمختار کتاب الطہارۃ باب المیاہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵)
(۸) ص ۲۵ : عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک اور وتروں کا اخیر رات تک ہے یہ نہ فقط حنفیہ بلکہ آئمہ اربعہ کے خلاف ہے،چاروں اماموں کے نزدیک عشاء کا وقت طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔
درمختار میں ہے : وقت العشاء والوترالی الصبح ۲؎۔ عشاء اور وتر کا وقت صبح صادق تک ہے۔(ت)
( ۲ ؎الدرالمختار کتاب الطہارۃ کتاب الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۵۹)
میزان الشریعۃ الکبرٰی میں ہے : وقت العشاء فانہ ید خل اذا غاب الشفق عند مالک والشافعی واحمد ویبقی الی الفجر ۱؎ ۔ امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم کے نزدیک عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے پر داخل ہوتا ہے اور صبح صادق تک باقی رہتا ہے۔ (ت)
( ۳ ؎میزان الشریعۃ الکبری کتاب الطہارۃ کتاب الصلوۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۷۳)
(۹) ص ۲۶ : پردہ زیر ناف گھٹنوں کے اوپر تک فرض ہے،حنفیہ کے مذہب میں گھٹنے بھی ستر میں داخل ہیں تو نماز میں گھٹنے کھلے رکھنے کی اجازت حنفی مذہب کے خلاف بھی ہے اور نماز میں بے ادبی کی تعلیم بھی،
درمختار میں ہے : الرابع ستر عورتہ وھی للرجل ماتحت سرتہ الٰی ماتحت رکبتہ ۴؎ ۔ چوتھی شرط سترِ عورت ہے اور مرد کے لیے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے۔(ت)
( ۴ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب شروط الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۶۵)
(۱۰)ص ۲۷ : آزاد عورت کو منہ اور ہاتھ اورپاؤں کے سوا سب بدن کا چھپانا فرض ہے۔ باندی کو اکثر منہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا پیٹ اور پیٹھ اور باقی جسم کا چھپانا فرض ہے،یہ شخص باندی کا عجب حکم لکھ رہا ہے کہ نہ فقط حنفیہ بلکہ تمام امت کے خلاف،اس نے آزاد عورت اور باندی کا حکم حرف بحرف ایک رکھا کہ منہ اور ہاتھ اور پاؤں کے سوا باقی بدن کا چھپانا دونوں پر فرض کیا فقط فرق یہ رکھا کہ آزاد عورت کے لیے سارا منہ مستثنٰی کیا اور باندی کے لیے اکثر منہ۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ باندی کا ستر آزاد کے ستر سے زائد ہے کہ اُسے نماز میں سارے منہ کھولنے کی اجازت ہے اور باندی کو کچھ منہ کا حصہ چھپانا بھی فرض ہے یہ تمام جہان میں کسی مسلمان کا قول نہیں۔ ایسی ہی خود ساختہ مسائل کی اشاعت کا نام اشاعتِ دین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رکھتاہے۔
درمختار میں ہے۔: ماھوعورۃ منہ عورۃ من الامۃ مع ظھرھا وبطنہا وجنبہا و وللحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین ۱؎ ۔ جو مرد کے لیے ستر ہے وہی لونڈی کے لیے بھی سترہے سوائے پشت،پیٹ اور پہلوؤں کے جب کہ آزاد عورت کا تمام بدن ستر ہے سوائے چہرے،ہتھیلیوں اور قدموں کے۔(ت)
( ۱ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب شروط الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۶۵و ۶۶)
(۱۱) ص ۲۷ : مقتدی کو امام کے اقتداء کی نیت کرنا چاہیے (حاشیہ) امام مالک کے نزدیک بالکل نہیں ہوتی۔ یہاں سے صاف ظاہر ہوا کہ مذہب حنفی میں مقتدی کو نیت اقتداء کی ضرورت نہیں صر ف اولٰی ہے اگر نہ کرے گا جب بھی نماز ہوجائے گی حالانکہ یہ محض غلط ہے ،
ہدایہ میں ہے : ان کان مقتدیا بغیرہ ینوی الصلوۃ ومتا بعتہ لانہ یلزمہ فساد الصلوۃ من جہتہ فلابد من التزامہ ۲؎ ۔ اگر نمازی غیر کامقتدی ہے تو نماز کی نیت بھی کرے اور متابعت امام کی نیت بھی کرے کیونکہ اس کی نماز کا فساد امام کی جہت سے لازم آتا ہے لہذا اس کا التزام ضروری ہے۔(ت)
( ۲ ؎ الہدایۃ کتاب الصلوۃ باب شروط الصلوۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۸۰)
عالمگیری میں ہے : الاقتداء لایجوز بدون النیۃ کذ ا فی فتاوٰی قاضی خان ۳ ؎ ۔ (بغیر نیت کے اقتداء جائز نہیں۔ فتاوٰی قا ضی خان میں یونہی ہے۔ت)
( ۳ ؎الفتاوٰی الہندیہ کتاب الصلوۃ الباب الثالث الفصل الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۶۶)
(۱۲) ص ۲۹ : تصویر دار کپڑے میں نماز نہیں ہوتی۔ یہ غلط ہے نماز ہوجاتی ہے البتہ مکروہ ہوتی ہے۔
ہدایہ میں ہے : لولبس ثوبافیہ تصاویر یکرہ الصلوۃ جائزۃ لاستجماع شرائطہا۱۔ اگر ایسے کپڑے پہنے جن میں تصویریں ہیں تو مکروہ ہے تاہم نماز ہوجائے گی کیونکہ شرائطِ نماز تمام موجود ہیں۔(ت)
( ۱ ؎ الہدایۃ کتاب الصلوۃ فصل فی مکروہات الصلوۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۱۲۲)
(۱۳) ص ۲۹ : ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکا ہو تو نماز نہیں ہوتی،یہ شریعتِ مطہرہ پر محض افترا ہے اس صورت میں نماز نہ ہونا کسی کا مذہب نہیں بلکہ تہبند لٹکا اگر بہ نیتِ تکبر نہ ہو تو ناجائز بھی نہیں جائز وروا ہے صرف خلافِ اولٰی ہے۔
عالمگیری میں ہے : اسبال الرجل ازارہ اسفل من الکعبین ان لم یکن لخیلاء ففیہ کراھۃ تنزیۃ کذا فی الغرائب ۲؎ ۔ مرد اگر بلا نیت تکبر اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے تک لٹکائے تو مکروہِ تنزیہی ہے غرائب میں یونہی ہے۔(ت)
( ۲ ؎ الفتاوی الہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۳۳)
(۱۴) ص ۳۰ : مسجد کے سوا نماز بلا عذر نہیں ہوتی۔ یہ بھی غلط ہے نماز بلاشبہ ہوجاتی ہے مگر مسجد کی جماعت گھر کی جماعت سے افضل ہے،اور بلا عذر ترک ِ مسجد فی نفسہ ممنوع ہے مگرمانع صحتِ نماز نہیں۔ ردالمتحار میں ہے : الاصح انہا کاقامتہا فی المسجدالا فی الافضلیۃ۳ ؎ ۔ اصح یہ ہے کہ گھر میں نماز قائم کرنا مسجد میں نماز قائم کرنے کی طرح ہے مگر افضلیت میں فرق ہے۔(ت)
(۳ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب الامامۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۷۲)
(۱۵) ص ۳۳ : فقہاء کے نزدیک الحمدپڑھنا صرف امام ہی کے لیے واجب ہے،یہ اس نے فقہاء پر محض افترا کیا۔ صرف اور ہی دو کلمے حصر کے جمع کردیئے حالانکہ ہمارے آئمہ کے نزدیک امام اور منفرد سب پر سورہ فاتحہ واجب ہے صرف مقتدی کے لیے ممنوع ہے۔
درمختار میں ہے : لھا واجبات ھی قراء ۃ فاتحۃ الکتاب وضم سورۃ فی الاولیین من الفرض وفی جمیع رکعات النفل والوتر۱؎ ۔ نماز کے لیے کچھ واجبات میں،وہ سورہ فاتحہ پڑھنا اور فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل و وتر کی تمام رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملانا۔ (ت)
( ۱ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی ۱ /۷۱)
اسی میں ہے : والمؤتم لا یقرؤ مطلقاً ولا الفاتحۃ ۲ ؎ ۔ مقتدی مطلقاً قراء ت نہ کرے اور نہ ہی فاتحہ پڑھے (ت)
( ۲؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی ۱ /۸۱)
(۱۶) ص ۳۳ : مغرب و عشاء فجر میں قراء ت آواز سے پڑھنی اور ظہر و عصر میں آہستہ پڑھنی سنت ہے۔ یہ بھی غلط ہے حنفی مذہب میں یہ صرف سنت نہیں بلکہ امام پر واجب ہیں۔
درمختار واجبات نماز میں ہے : والجھرللامام والاسرار للکل فیما یجھر فیہ ویسر ۳ ؎ ۔ اونچی قراء ت امام کے لیے اور پست قراء ت سب کے لیے جہری اور سری قراء ت والی نمازوں میں (ت)
( ۳ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی ۱ /۷۲)
(۱۷) ص ۳۳ : پہلی دورکعتوں میں سورت ملانی سنت ہے،حنفی مذہب میں یہ بھی واجب ہے ۴؎ ۔ درمختار کی عبارت گزری۔
(۴ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی ۱ /۷۱)
(۱۸) ص ۳۳ : رکوع میں پیٹھ کو سر کے برابر کرنا فرض ہے۔ یہ محض افترا ہے مذہب حنفی میں فقط سنت ہے نہ فرض نہ واجب۔
درمختار میں ہے : ویسن ان یبسط ظہرہ غیر رافع ولا منکس راسہ ۵ ؎۔ سنت ہے کہ پیٹھ کو سر کے برابر کرے نہ کہ بلند کرے نہ پست کرے ۔
( ۵ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی ۱ /۷۵)
(۱۹ و ۲۰) ص ۳۴ : سجدہ سے سر اٹھا کر دوزانو بیٹھنا اور ٹھہرنا فرض ہے ، رکوع سے اٹھ کر تسبیح کے برابر کھڑے رہنا فرض ہے،یہ بھی محض افتراء ہے دوزانو بیٹھنا صرف سنت ہے بلکہ مذہب حنفی میں اصل بیٹھنا بھی فرض نہیں واجب ہے بلکہ اصل مذہب مشہور حنفی میں اس جلسہ کو صرف سنت کہا یہی حال رکوع سے کھڑے ہونے کا ہے،
ردالمحتار میں ہے: یجب التعدیل فی القومۃ من الرکوع والجلسۃ بین السجدتین و تضمن کلامہ وجوب نفس القومۃ والجلسۃ ایضا ۱؎ ۔ رکوع کے بعد کھڑے ہونے اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے میں تعدیل واجب ہے،ماتن کا کلام خود قومہ اور جلسہ کے وجوب کو بھی متضمن ہے۔(ت)
( ۱ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ا/۳۱۲)
نیز اسی میں ہے : اما القومۃ والجلسۃ وتعدیلھما فالمشہور فی المذھب السنیۃ وروی وجوبہا۲؎ ۔ لیکن قومہ اور جلسہ اور ان میں تعدیل تو مذہب میں ان کا سنت ہونا مشہور ہے اور وجوب بھی مروی ہے۔ت)
(۲ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ا/۳۱۲)
(۲۱) ص ۳۵ : نماز کے سب فعلوں کو بالترتیب ادا کرنا سنت ہے،مذہب حنفی میں بہت ترتیبیں فرض اور بہت واجب ہیں،فقط سنت کہنا جہل و افتراء ہے،
درمختار میں ہے : بقی من الفروض ترتیب القیام علی الرکوع والرکوع علی السجودو القعود الاخیر علی ما قبلہ ۳ ، باقی ہے فرائض نماز میں سے،قیام کی ترتیب رکوع پر اور رکوع کی ترتیب سجدہ پر اور آخری قعدہ کی ترتیب اس کے ماقبل پر ۔(ت)
( ۳ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ داراحیاء مجتبائی دہلی ا/۳۱۲)
اسی کے واجبات نماز میں ہے : ورعایۃ الترتیب بین القراء ۃ والرکوع وفیمایتکرر امافیما لا یتکرر ففرض کما مر ۴؎ ۔ ترتیب کو ملحوظ رکھنا قراء ت و رکوع کے درمیان اور افعالِ متکررہ میں واجب ہے ،رہے افعالِ غیر متکررہ تو ان میں رعایت ترتیب فرض ہے،جیسا کہ گزرا (ت)
( ۴ ؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ داراحیاء مجتبائی دہلی ا/۳۱۲)
(۲۲) ص ۳۶ : اخیر کا التحیات اکثر کے نزدیک فرض اور بعض کے نزدیک سنت ہے مذہب حنفی میں یہ دونوں باتیں باطل ہیں،نہ فرض ہے نہ سنت ،بلکہ واجب،
درمختار باب واجبات الصلوۃ میں ہے : والتشہدان ۱؎ ۔ اور دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا واجب ہے (ت)
( ۱ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۷۲)
(۲۴ و ۲۴ و ۲۵) ص ۳۶ : دائیں بائیں طرف سلام پھیرنا فرض ہے،اس میں تین باتیں فرض کیں ،سلام پھیرنا اور اس کا دائیں طرف ہونا اور بائیں طرف ہونا،اور یہ تینوں باطل ہیں ان میں کچھ فرض نہیں،لفظ سلام فقط واجب ہے اور داہنے بائیں منہ پھیرنا سنت،درمختار واجباتِ نماز میں ہے : ولفظ السلام ۲؎ ۔ اور لفظِ سلام واجب ہے۔(ت)
( ۲ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۷۲)
مراقی الفلاح میں ہے : یسن الالتفات یمینا ثم یسارا بالتسلمتین۳ ؎ ۔ سلام کے وقت نمازی کا دائیں بائیں منہ پھیرنا سنت ہے۔(ت)
( ۳ ؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی کتاب الصلوۃ فصل فی بیان سننہا دارالکتب العلمیۃ بیروت ص ۲۷۴)
(۲۶ و ۲۷) ص ۳۹ : اگر قرآن شریف پڑھنے میں سب برابر ہوں تو وہ امام بنے جو زیادہ عالم ہو،اگر علم میں سب برابر ہوں تو وہ لائق ہے جو عمر میں سب سے بڑا ہو۔ یہ دونوں باتیں بھی مذہب حنفی کے خلاف ہیں مذہب حنفی میں امامت کے لیے سب سے مقدم وہ ہے جو علم زیادہ رکھتا ہو،پھر جو زیادہ قاری ہو،پھر جو زیادہ شبہات سے بچنے والا ہو،پھر جو عمر میں بڑا یعنی اسلام میں مقدّم ہو،
درمختار میں ہے : الاحق بالامامۃ الاعلم باحکام الصلوۃ ثم ّ الاحسن تلاوۃ وتجوید ا ثم االاکثر اتقاء للشبہات ثم الاسن ای الاقدم اسلام ۱؎۔ امام کا زیادہ حق دار وہ ہے جو نماز کے احکام کو سب سے زیادہ جانتا ہو،پھر جو زیادہ اچھی قراء ت کرتا ہو،پھر وہ جو شبہات سے زیادہ بچتا ہو،پھر وہ جو عمر میں سب سے بڑھ کر ہو یعنی اسلام میں مقدم ہو ت)۔
( ۱ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب الامامۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۸۲)
(۲۸) صفحہ ۴۱ : جو اکیلا نماز پڑھ لے اگر پھر اس وقت کی جماعت مل جائے تو جماعت میں شریک ہوجائے۔ یہ مطلق حکم بھی مذہب حنفی کے خلاف ہے مذہب حنفی میں جس نے فجر یا عصر یا مغرب پڑھ لی دوبارہ ان کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا۔
درمختار میں ہے : من صلی الفجر و والعصرو المغرب مرۃ فیخرج مطلقاً وان اقیمت ۲؎ ۔ جو شخص ایک مرتبہ فجر،عصر اور مغرب کی نماز پڑھ چکا ہو وہ مطلقاً مسجد سے نکل سکتا ہے اگرچہ اقامت ہوجائے (ت)
(۲ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب ادراک الفریضہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۹۹)
(۲۹) ص ۴۲ : جو شخص صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ بھی محض افترا ہے بلاضرورت ایسا کرنے میں صرف کراہت ہے نماز یقیناً ہوجائے گی۔
درمختار میں ہے : قدمنا کراھۃ القیام خلف صف منفرد ابل بجذب احد من الصف لکن قالوا فی زماننا ترکہ اولٰی ولذا قال فی البحریکرہ واحدہ اذا لم یجدفرجۃ ۳ ؎ ۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اکیلے مقتدی کا صف کے پیچھے کھڑا ہونا مکروہ ہے بلکہ وہ صف میں سے کسی کو پیچھے کھینچ لے۔ لیکنہمارے زمانے میں فقہاء نے فرمایا ہے کہ اس کا ترک اولٰی ہے اسی لیے بحر میں فرمایا ، اکیلے کھڑے ہونا مکروہ ہے مگر جب صف میں جگہ میں جگہ نہ پائے تو مکروہ نہیں ہے۔(ت)
(۳ ؎الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب ادراک الفریضہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۹۲)
(۳۰) ص ۵۳ : نماز استخارہ سنت ہے اس کی ترکیب یہ ہے کہ دو رکعت نماز پھر نماز پڑھ کر سو رہے۔ یہ سنت ہے سورہنے کا ذکر کہیں حدیث میں نہیں۔
(۳۱) ص ۵۷ : وہ جو سائل نے نقل کیا کہ جن نمازوں میں قصر کا حکم ہے ان میں سنت بھی معاف ہیں،یہ محض جہالت ہے حالت قرار میں کسی نماز کی سنت معاف نہیں اور حالتِ فرار میں سب کی معاف ہیں،مطلقاً معافی کا حکم دینا غلط اور اس معافی کو قصر کے ساتھ خاص کرنا دوسری غلطی ،
درمختا رمیں ہے: یاتی المسافر بالسنن ان کان فی حال امن وقرار والا بان کان فی حال خوف وفرار لایاتی بھاھوالمختار ۱؎ ۔ حالت امن و قرار میں مسافر سنتیں ادا کرے ورنہ یعنی حالتِ خوف و فرار میں نہ ادا کرے،یہی مختار ہے۔(ت)
( ۱ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صلوۃ المسافر مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۸)
(۳۲ و ۳۳) ۵۸ : جب کسی دشمن یا درندہ وغیرہ کا خوف ہو تو چار رکعت نماز فرض سے دو رکعت پڑھنا جائز ہے۔ یہ محض غلط ہے مسافر پر چار رکعت فرض کی پڑھنی ویسی ہی واجب ہے اگر چہ کچھ خوف نہ ہو،اور غیر مسافر کو چار رکعت فرض کی ،دو پڑھنی اصلاً جائز نہیں اگرچہ کتنا ہی خوف ہو۔
درمختار میں ہے : من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ قاصد امسیرۃ ثلٰثۃ ایام ولیالیہا صلی الفرض الرباعی رکعتین وجوبا۲ ۔ جو شخص تین دن رات کی مسافت کے ارادے سے اپنی جائے اقامت کی آبادی سے نکلا اس پر واجب ہے کہ چار رکعتی فرضوں میں دو دو رکعتیں پڑھے ت)۔
( ۲ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صلوۃ المسافر مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۷)
اسی میں ہے : صلوۃ الخوف جائزۃ بشرط حضور عدواوسبع فیجعل الامام طائفۃ بازاء العدوو یصلی باخری رکعۃ فی الثنائی ورکعتین فی غیرہ ۳ ؎ ۔ نمازِ خوف اس شرط پر جائز ہے کہ دشمن یا درندہ سامنے موجود ہو،چنانچہ امام لوگوں کے دوگروہ بنائے گا ان میں سے ایک گروہ کو دشمن کے سامنے کھڑا کرے گا جب کہ دوسرے کو دورکعتی نماز میں سے ایک رکعت اور چار رکعتی نماز میں سے دو رکعتین پڑھائے گا۔(ت)
( ۳ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الخوف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۱۸و ۱۱۹)
(۳۴) ص ۵۹ : کوئی نماز دیدہ و دانستہ قضا ہوجائے تو اس کا ادا کرنا واجب ہے۔
(۳۵) ص۶۳ : جو سائل نے نقل کیا جو خطبہ میں آکر شامل ہو دورکعت سنت پڑھ کر بیٹھے،مذہب حنفی میں خطبہ ہوتے وقت ان رکعتوں کا پڑھنا حرام ہے،
درمختار میں ہے : اذا خرج الامام فلا صلوۃ ولاکلام الٰی تمامھا ۱؎ ۔ جب امام خطبہ کے لیے نکلے تو ا سکے اتمام تک کوئی نماز اور کوئی کلام جائز نہیں۔(ت)
( ۱ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ الجمعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۱۳)
(۳۶) ص ۶۳ : وہ جو سائل نے نقل کیا جو شخص کے دوسری رکعت کے قیام سے پیچھے ملے اس کا جمعہ نہیں ہوتا وہ ظہر پڑھے۔ یہ محض غلط وافتراء ہے مذہب حنفی میں تو اگر التحیات یا سجدہ سہو بھی امام کے ساتھ پالیا تو جمعہ ہی پڑھے گا اور امام محمد کے نزدیک بھی دوسری رکعت کا رکوع پانے والا جمعہ پڑھتا ہے حالانکہ وہ بھی دوسری رکعت کے قیام کے بعد ملا ،
ہدایہ میں ہے : من ادرک الامام یوم الجمعۃ صلی معہ ما ادرکہ و بنی علیھا الجمعۃ وان کان ادرکہ فی التشہدا وفی سجود السہو بنی علیہا الجمعۃ عندھما وقال محمد ان ادرک معہ اکثرالرکعۃ الثانیۃ بنی علیھا الجمعۃ ۲ ؎ ۔ جس نے جمعہ کے دن امام کو پالیا تو امام کے ساتھ جتنی نماز پائی وہ اس کے ساتھ پڑھے،اور اس پر جمعہ کی بنا کرے،اگر اس نے امام کو تشہد یا سجدہ سہو میں پایا تو شیخین کے نزدیک اس پر جمعہ کی بنا کرے اور امام محمد کے نزدیک اگر امام کے ساتھ دوسری رکعت اکثر پالی تو اس پر جمعہ کی بنا کرے۔(ت)
(۲ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ الجمعۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۱۵۰)
(۳۷) ص ۶۴۰ : تین آدمی بھی جمع ہوجائیں تو جمعہ پڑھ لیں۔ یہ بھی ہمارے امام کے مذہب کے خلاف ہے کم سے کم چار آدمی درکار ہیں۔
درمختار میں ہے : والسادس الجماعۃ واقلہا ثلٰثۃ رجال سوی الامام ۳ ؎ ۔ چھٹی شرط جماعت ہے اور وہ یہ کہ امام کے علاوہ کم از کم تین مرد ہوں۔(ت)
( ۳ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ الجمعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۱۱)
(۳۸) ص ۶۴ : عید کی نماز ہر مسلمان پر واجب ہے مرد ہو یا عورت یہ بھی غلط ہے ۔مذہب حنفی میں عورتوں پر نہ جمعہ ہے نہ عید،ہدایہ میں ہے : تجب صلوۃ العید علٰی کل من تجب علیہ صلوۃ الجمعۃ ۱؎ ۔ نماز عید ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر نمازِ جمعہ واجب ہے۔(ت)
( ۱ ؎ الہدایۃ کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الجمعۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۱۵۱)
اسی میں ہے : لاتجب الجمعۃ علی مسافر ولا امرأۃ ۲؎ ۔ مسافر اور عورت پر جمعہ واجب نہیں،(ت)
( ۲ ؎ الہدایۃ کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الجمعۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۱۴۹)
(۳۹) ص ۶۵ : دونوں عیدیں جب بارش وغیرہ کا عذر ہو مسجد میں جائز ہیں۔ اس کے معنٰی یہ ہوئے کہ بارش وغیرہ کا عذر نہ ہو تو مسجد میں ناجائز ہیں یہ محض غلط ہے۔
درمختار میں ہے : الخروج الیہا ای الجبانۃ الصلوۃ العید سنۃ وان وسعھم المسجد الجامع ، ۳ ؎ ۔ نماز عید کے لیے عید گاہ کی طرف نکلنا سنت ہے اگرچہ جامع مسجد میں لوگ سما سکتے ہوں۔(ت)
( ۳ ؎ الدرالمختار کتاب الصلوۃ باب العیدین مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۱۴)
(۴۰) ص ۶۶ : بکری بھینگی ناجائز ہے،یہ بھینگی کا حکم بھی غلط لکھ رہا ہے مذہب حنفی میں بھینگی بکری کی قربانی جائز ہے۔
ردالمحتار میں ہے : وتجوز الحولاء مافی عینہا حول ۴ ؎ ۔ جس کی آنکھ بھینگی ہو اس کی قربانی جائز ہے۔(ت)
(۴ ؎ ردالمحتار کتاب الاضحیۃ باب العیدین داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۰۷)
(۴۱) ص ۶۳ : وہ جو سوال میں منقول ہوا کہ ایک دن میں جمعہ وعید اکٹھے ہوں تو جمعہ میں رخصت آئی ہے لیکن پڑھنا بہتر ہے۔ یہ بھی غلط ہے مذہب حنفی میں عید واجب اور جمعہ فرض ہے کوئی متروک نہیں ہوسکتا ، ہدایہ میں ہے : وفی الجامع الصغیر عیدان اجتمعا فی یوم واحدفالاول سنۃ والثانی فریضۃ ولا یترک واحد منھما ۵ ؎ ۔ جامع صغیر میں ہے کہ اگر ایک دن میں دو عیدیں جمع ہوجائیں تو پہلی سنت ( واجب مثبت بالسنہ) اور دوسری فرض ہے ان میں سے کوئی بھی ترک نہیں کی جائے گی۔(ت)
( ۵ ؎ الہدایۃ کتاب الصلوۃ باب العیدین المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱/ ۱۵۱)