عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

متفرق سوالات اور اعلی حضرت کے ارشادات

مسئلہ ۱۸۲: از مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ سرکار کلاں مرسلہ سید محمد میاں صاحب دامت برکاتہم ۲۴ ذیقعدہ ۱۳۳۲ھ دوشنبہ
مولانا المعظم ذوالمجدو الکرم معظم ومکرم دام مجدھم ، پس از سلامِ مسنون عارضِ خدمت ہوں۔ بفضلہ تعالٰی جناب کی صحت و عافیت کا مستدعی بخیر ہوں۔ میں نے جناب سے سیّد ظہور حیدر صاحب مرحوم کے لیے جو اُن کے نام سے ایک عدد کم کرکے تاریخ وفات ان کی کردینے کو کہہ آیا تھا اور جناب نے وعدہ فرمایا تھا ۔ اب اگر ہوگئی ہو تو روانہ فرمائیں۔ تقریظات الحدوث والقدوم اور التناسخ بھی روانہ ہوں جو بدایونی رسائل ہیں، اور اگر کوئی جدید رسالہ مبحث اذان میں شائع ہوا ہو تو روانہ ہو، کنزالآخرۃ جو چودھری صاحب سہاروی کی ہے وہ جدید الطبع سُنا ہے کہ جناب کی نظر و اصلاح سے بتما مہاگزری ہے، آیا یہ درست ہے؟ اور اس میں جو صفحہ ۷۲ پر امامت کے مسائل ہیں، قبروں پر چادریں چڑھانے کو بدعت سیئہ کے قسم اعتقاد یہ اور باب زیادۃ القبور میں قبر وں پر کچھ چڑھانے یا چُومنے کو جو حرام اور بدعت لکھ دیا ہے۔ آیا یہ بھی جناب کے نزدیک صحیح ہے؟ اس سے مطلع فرمائیے۔ والسلام

 

 

الجواب :
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ، ونصلی علٰی رسولہ الکریم بشرف ملاحظہ عالیہ حضرت صاحبزادہ والا قدر بالا فخر حضرت جناب مولانا مولوی سید محمد میاں صاحب دامت برکاتہم بعد تسلیم مع التکریم ملتمس والا حضرت سیدنا شاہ مہدی میاں صاحب قبلہ کے حکم سے ان عظیم بے فرصتیوں میں یہ کتاب فقیر نے بنائی۔ اغلاطِ شدیدہ کثیرہ عظیمہ شرعیہ کا نکالنا تو لازم و واجب ہی تھا۔ حکم یہ ہوا کہ اشعار کی بھی اصلاح کر۔ جس سے بلا مبالغہ اتنی بڑی کتاب نظم اور اتنے کثیر حواشی از سرِ نو تصنیف کرنی ہوئی، بلکہ تصنیفِ جدیدہ میں اس کی نصف محنت بھی نہ ہوتی جو اس کے بنانے میں ہوئی، طبع اول صفحہ ۱۲۳ تک کہ طبع جدید کے صفحہ ۱۳۳ ہے، تمام اصلاحات کی نقل میں نے اپنے پاس رکھی ، اور جناب چودھری صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ بعد تبیضیں یہاں پھر دیکھنے کو بھیج دیا کریں۔ جناب موصوف نے کچھ اجزاء کافی شدہ دیکھنے کو بھیجے۔ اس کے مطالعہ سے واضح ہوا کہ اصلاح میں شدید تبدیلیں فرمادیں ہیں۔ اس کے بعد مجھے چاہیے تھا کہ باقی کتاب واپس کرتا۔ مگر حکمِ حاکم سے چارہ نہ تھا۔ باقی کی بھی اسی محنت سے اصلاح کی اور چودھری صاحب سے عرض کر بھیجی کہ اب مبیضہ یہاں بھیجنے کی حاجت نہیں۔ یہ مسئلہ چادر وغیرہ کا جو حضرت نے دریافت فرمایا ہے الحمد ﷲ کہ اسی صفحہ ۱۲۳ پر تھا جسے میں یہ دکھا سکتا ہوں کہ میری اصلاح یہ تھی، اور یہ حضرت خود ملاحظہ فرمالیں گے کہ طبع جدید میں اس کی کیا گت ہوگئی ہے۔

طبع اول کے صفحہ ۸۵ و ۸۶ پر کہ اب صفحہ ۹۲ تا ۹۴ہے، اس میں یہ شعر” کچھ چڑھانا قبر پر یا چومناالخ كا ٹ کر یہ بنام تھا:؂
سجدہ قبر اور طوافِ باخضوع اُن کے آگے جھُکناتاحدِ رکوع۱؂

(۱؂ کنزالاخرۃ)

طبع دوم میں وہی اپنا شعر رہا، یہیں میں نے یہ اشعار اضافہ کیے تھے۔ ؎ع
اولیاء سے استعانت ہے روا وہ وسائل ہیں تِرے پیشِ خدا
معُطی و مالک فقط اﷲ ہے واسطہ اپنا ولی اﷲ ہے
ہے توسّل کی طلب القرآن میں وابتغوا آیا ہے اس کی شان میں
دیکھ تفسیر عزیزی پارہ عم لکھتے ہیں یوں شاہ صاحب محترم
اولیاء کرتے ہیں امدادِ بشر جارحہ ہیں بہرِ امداد بشر
اہلِ حاجت ان سے حاجت مانگ کر اپنی مشکل کرتے ہیں حل سربسر
یہ بھی فرمایا کہ نذرِ اولیاء ہے تمام امت میں رائج بے خطا
ہے یہ مقصودِ شہ عبدالعزیز نذر عرفی ہے، نہ شرعی اے عزیز
تحفہ جولے جائیں شاہوں کے حضور نذر کہتے ہیں اسے اہل شعور
فرقِ عُرف و شرع سے غافل نہ ہو کہہ نہ مشرک اہلِ الااﷲ کو
اُمت احمد کوجو مشرک کہے خود ہے وہ نزدیک شرک و کفر سے
اور سماع و علمِ موتی مطلقا اہلِ سنت کا ہے اجماع اے فتٰی
مُردے مومن ہوں کہ کافر لاکلام دیکھتے سُنتے سمجھتے ہیں مُدام
اس پہ ناطق ہے تواتر سے حدیث ہے فنائے رُوح تو قولِ خبیث
وہ نہیں سُنتے تو کیوں اُن پر سلام کیا شریعت چاہے پتھر سے کلام
عام کے یہ دھڑ نہیں سُنتے ضرور ہیں یہی موتی یہی من فی القبور
یہ بھی جب حق چاہے سُنتے ہیں ندا کیونکہ انّ اﷲ یسمع من یشاء ۱ ؎

(۱؂ کنزالاخرۃ)

ملاحظہ ہو طبعِ دوم میں ان کی کیا تبدیلی ہوئی ہے، سب سے زیادہ سخت افسوس مجھے ان اشعار کا ہوا کہ نعت شریف میں میں نے اضافہ کیے تھے وہ یہ ہیں۔ع

حضرتِ علّامِ کُل بے شک و ریب بخشا ہے انبیاء کو علم غیب
ان کو کرتا ہے مسلط غیب پر اوروں کو ان کے توسط سے خبر
ان پہ کردیتا ہے روشن لاکلام ختم تک دنیا و مافیہا تمام
مصطفی کو جس سے بخشا ہے سِوا مایکون ماکان جس کا جز ہوا
علم مانے شہ سے شیطاں کا وسیع کس سے جز شیطاں ہو یہ کفر شنیع
علمِ غیب اُن کا سا جو ثابت کرے بچے پاگل جانور کے واسطے
وہ شقی مرتد عدو اﷲ ہے کافروں سے بھی سوا گمراہ ہے
جوکریں تنقیصِ شانِ شاہ دیں لعنۃ اﷲ علیہم اجمعین
مصطفٰی ہی ہیں، قیامت میں شفیع ہے انہیں کا حصہ یہ شان رفیع
فاتحِ باب شفاعت ہیں وہی کہفِ ارباب شفاعت ہیں وہی
جو کبائر والے بے توبہ مریں وہ کریم ان کی شفاعت بھی کریں
جو کہے اس دن کے وہ شافع نہیں وہ ہے گمراہ و خبیث اے اہلِ دیں
فضلہ خو رانِ سگانِ اعتزال بکتے ہیں ایسے بداقوال ضلال
اُن کی گمراہی سے تم مُنہ موڑنا اپنے مولا کا نہ دامن چھوڑنا
وہ نہ ہوں شافع ہمارے گر وہاں کہیے ہم سوں کا ٹھکانہ پھر کہاں۲؎

ملاحظہ ہو کہ اس میں کتنا اور کیا باقی رہا، ان تمام اضافات پر حواشی تھے جن میں ہر لفظ کا آفتاب سے زیادہ ثبوت تھا وہ بھی اکثر حذف ہوگئے،

(۲؂ کنزالاخرۃ)

اب حضرت اپنی مسئول عبارت ملاحظہ فرمائیں، اشاعتِ اولٰی میں اس حاشیہ کی عبارت یہ تھی۔
ص۵ ہوتی ہے مگر وہ الخ یعنی فاسق فاجر اور نابینا اور اہلِ بدعت اور جاہل کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے ولیکن بعض کے پیچھے مکروہ تحریمہ اور بعض کے پیچھے مکروہ تحریمہ اور بعض کے پیچھے مکروہ تنزیہی یعنی اہل بدعت اور وہ جاہل جو قراء ت توڑے اور ادھ کٹ حرفوں سے پڑھے، ان کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمہ ہوتی ہےاور نابینا و فاسق کے پیچھے اگر وہ اہل بدعت اور جاہل نہ ہو تو نماز مکروہ تنزیہی ہوتی ہے ، اہل بدعت کے پیچھے اس لیے کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : من احدث فی امرنا ھٰذا الیس منہ فہورد ۱ ؎۔ یعنی جس شخص نے نئی بات نکالی اپنی طرف سے بیچ دین میں ہمارے کے جو کہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔(مراد اس سے بدعت سیئہ ہے) پس وہ شخص یعنی بدعتی مردود ہے۔اورایک جگہ فرمایا : کل بدعۃ ضلالۃ ۲ ؎۔ یعنی ہر بدعت گمراہی کا راستہ ہے۔پس جو شخص مرتکب ایسی بدعت کا ہو اس کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھنا چاہیے ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمہ ہوگی۔

( ۱ ؎۔ صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ الخقدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۷)
(۲ ؎۔ صحیح مسلم کتاب الجمعۃباب تخفیف الصلوۃ والخطبۃقدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۷۷)
(سُنن ابن ماجۃ باب اجتناب البدع والجدل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۶)

واضح ہو کہ قبروں کو سجدہ کرنے والے اور اہل قبور سے منت ماننے والے اور فرقہائے باطلہ مثل خوارج وجبریہ و قدریہ کے، اور وہ اَن پڑھ جاہل جو کہ کتاب و سنت سے بالکل ناواقف و بے بہرہ ہیں اور پھر ترکِ تقلید کرتے ہیں، یہ لوگ اہلِ بدعت ہیں انکی صحبت سے بچنا چاہیے، غرضیکہ جن باتوں پر صحابہ و تابعین و آئمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع ہوچکا ہے انکے خلاف عقیدہ رکھنا یہی بدعت ہے۔

اس فقیر نے یوں بنایا تھا۔
نمبر ۵ : پچھلے دور میں الخ یعنی جاہل اور نابینا اور ولدالزنا اور غلام، فاسق اور اہلِ بدعت کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے لیکن اگلے چار کے پیچھے مکروہِ تنزیہی او ر پچھلے دو کے پیچھے مکروہ تحریمی ہوتی ہے، جب کہ وہ فاسق معلن ہویعنی اس کا فسق ظاہر اور مشہور ہو، ورنہ اس کے پیچھے بھی مکروہ تنزیہی ہوگی۔ اور جب کہ اس مبتدع کی بدعت و بدمذہبی حَدِ کفر تک نہ پہنچی ہو، ورنہ اس کے پیچھے باطل محض ہوگی، جیسے آج کل کے روافض ووہابی ونیچری وقادیانی و چکڑالوی کہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں، اور غیر مقلد، حدیث میں فرمایا : کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے۔

اور اس سے مراد بدعت سیئہ ہے، پس جو شخص مرتکب ایسی بدعت کا ہو اس کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھنا چاہیے اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ادا ہوگی۔

واضح ہو کہ بدعتِ سیئہ دو قسم ہے: عملی اور اعتقادی ، عملی جیسے عَلم، تعزیے اور قبروں کو سجدہ، اور اعتقادی جیسے تفضیلیہ وخوارج وجبریہ وقدریہ وغیرہ ، یہ لوگ اہلِ بدعت ہیں ان کی صحبت سے بچنا چاہیے، غرضیکہ جن باتوں پر صحابہ و تابعین و آئمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع ہوچکا ہے ان کے خلاف عقیدہ رکھنا یہی بدعت ہے ۔ پھر ان میں جن کی بدعتِ حد کفر کو نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ ، اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے ورنہ باطل محض ۱۲ منہ۔

اب اشاعتِ ثانیہ میں جس طرح کرلیا گیا ہے وہ پیش نظر ہے۔ اسی طرح بیشمار تبدیلات ہیں، اشعار میں بھی پھر اسی قسم کی اغلاط نے عود کیا ہے۔ صفحہ ۱۲۳ کے بعد کی اصلاحات یہاں نہ رہیں اگر وہ بھی ہوں اور یہ کتاب مطابق اصلاِح فقیر کوئی صاحب چھاپیں تو کتابِ ثالث ہوگی اور بفضلہ تعالٰی اغلاطِ شرعیہ و شعریہ سے پاک۔

حضرت سید ظہور حیدر میاں صاحب رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کی تاریخِ وصال جبھی خیال میں آگئی تھی معروض ہے:ع نحو لقاء جدہ اُم ظہور حیدر
حسن الی الجنان اذ ثمّ ظہور حیدر
قیل متٰی ھذا السفر ھمَّ ظہور حیدر
قلت لان بقی السنۃ(عہ) ثمَّ ظہور حیدر
۱۳۳۲ ۱۳۳۳

(عہ : بقی یبقٰی ، سمع اور ضرب دونوں سے آتا ہے، علاوہ ازیں ضرب سے بمعنی انتظار لغتِ معروف ہے۔

بدایوں کے رسالہ تناسخ اور رسالہ حدوث و قدوم پر جو الفاظ نیاز مند نے لکھے تھے ان کی نقل حاضر ہے، مولانا کے خط کی نقل گر بدایوں سے مل گئی ہو تو میں بھی دیکھتا۔
والا خدمت حضرت جناب سیدنا شاہ ابوالقاسم حاج سید اسمعیل حسن میاں صاحب قبلہ تسلیم معروض رسالہ ہزار ضرب اقوی جس میں مولوی عبدالغفار خاں صاحب کے چوتھے رسالہ آثار المتدعین پر کامل ایک ہزار رد ہیں، تین چار روز میں ان شاء اﷲ تعالٰی طبع ہوجائے گا بعونہ تعالٰی حاضر کیا جائے گا۔ کلکتہ والوں کا ردَ حاضر ہے حسب تحریر اسماء تقسیم فرمادیا جائے فقط۔