مسئلہ ۱۲۵: از بلوچستان مرسلہ قادر بخش ۵ ربیع الاخر ۱۳۳۸ھ
اندرین حکایت علمائے کرام چہ می فرمایند کہ قولے معتبر است آیا واعظ ذکر بکند یا حقیقت است درکدام کتاب ایں نقل است، آن حکایت این است ۔
اس حکایت کے بارے میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں کہ کیا یہ کسی معتبر قول سے منقول ہے وعظ کرنے والا اس کو اپنے وعظ میں بیان کرسکتا ہے ؟ اس کی کوئی حقیقت ہے؟ کون سی کتاب میں منقول ہے؟ حکایت یہ ہے ۔
(۱) یک حکایت یاد دارم از رسول باد مقبول ھمہ اہل قبول
(۲) تاکہ معلوم تو گردد ہمتش تاچہ حد است امتاں راشفقتش
(۳) بعدازاں آیم بمدح چار یار اے برادریک زمان گوش دار
(۴) جملہ شبہامصطفٰی بیدار بود اتفاقاً یک شبے خوابش ربود
(۵) بود اندرخواب تاوقتے نماز ناگہاں آمدخطابش بے نیاز
(۶) آفریدم من ترا از بہرآں تاشدی پشت پنا ہے اُمتاں
(۷) اے محمد خواب تو زیبندہ نیست ہرکہ در خدمت نباشدبندہ نیست
(۸) چوں بہ پروازی بخوابِ نیم شب کردم اکنوں امتانت راغضب
(۹) دوزخ اندازم ہمہ ازعام و خاص یک تنے زیشان نگردانم خلاص
(۱۰) چوں شنید ایں آیۃ خیر البشر انت زانجا امتی گویا بدر
(۱۱) رفت زانجا اوندیدہ ہیچ کس دانداو راعالم الاسرار بس
(۱۲) چوں گزشت ازدو سہ روزایں قصہ را خون دل خوردند یاراں غصہ را
(۱۳) عاقبت روز سوئم بعد از نماز جملہ پیش عائشہ رفتند باز
(۱۴) چوں بپرسید ندزام مومنین داد ایشاں راجواب ایں چنیں
(۱۵) گفت اوشین شب رسیداز حق خطاب امتاں را آیہ ازبہرعذاب
(۱۶) چونکہ ایں آیۃ بگوش او رسید شدبرون ازحجرہ او راکس ندید
(۱۷) آنچناں برخاست ازیاراں غریو لرزہ افتادند اندر جن ودیو
(۱۸) ناگہاں دیدندیک چوبان زدور یافت زاں چوبان دل ایشاں سرور
(۱۹) پیش او رفتندوپرسید ندازو گرخبر داری زپیغمبربگو
(۲۰) گفت من کے مصطفٰی رادیدہ ام بلکہ او را از کسے نشنیدہ ام
(۲۱) لیک سہ روز است پیغام خروش ازمیان کوہ میآید بگوش
(۲۲) جانورازنالہ اودل خستہ اند ازچراگاہ دہاں رابستہ اند
(۲۳) ہر زماں ازدیدہ می رانند آب بستہ اندازہ راہ دیدہ راہِ خواب
(۲۴) چوں شنیدند ایں خبر را آں گروہ جملہ آوردند روئے سوئے کوہ
(۲۵) شدنمایاں درمیان کوہ غار دیدور آن غار آں صدرکبار
(۲۶) سر بسجدہ بروہ پیش بے نیاز باخدائے خویشتن میگفت راز
(۲۷) گریہ میکرد وہمی گفت اے الٰہ تانہ بخشی امتانم راگناہ
(۲۸) مانہ بردارم سرخود از زمیں تابروِ حشر عالم ایں چنیں
(۲۹) ایں چنیں می گفت و می نالہ زار اشک میباریدچوں ابر بہار
(۳۰) چوں شنیدندایں خفاش رازور جملہ راازنالہ اش خون شد جگر
(۳۱) گفت صدیق شفیع المومنین ازکرم بردار سررا از زمین
(۳۲) آنچہ من درعمر طاعت کردہ ام انچہ دردنیا عبادۃ کردہ ام
(۳۳) آں ثواب ازبرائے امتاں دارم اے پیغمبرآخر زماں
الی اخرالحکایت (حکایت کے آخر تک ،ت) یہ حکایت رسالہ میلاد غلام شہید میں ہے۔
(ترجمہ حکایت )
(۱) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں مجھے ایک حکایت یاد ہے جو تمام نیک لوگوں میں مقبول ہے۔
(۲) تاکہ تجھے آپ کی ہمتِ اقدس کا پتا چلے کہ امت پر آپ کی کس قدر شفقت ہے۔
(۳) اس کے بعد میں چاروں یاروں کی مدح کی طرف آؤں گا، اے بھائی ! تھوڑا سا وقت غور سے سُن،
(۴) مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام راتیں بیدار رہتے ، ایک رات اتفاقاً آپ پر نیند غالب آگئی۔
(۵) نماز کے وقت تک آپ نیند میں تھے۔ اچانک آپ کو خدائے بے نیاز کا حکم پہنچا۔
(۶) کہ میں نے آپ کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ آپ امت کے پشت پناہ بنیں۔
(۷) اے میرے محبوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سونا آپ کو زیب نہیں دیتا، جو خدمت میں مشغول نہ ہو وہ بندہ نہیں ہے۔
(۸) جب آدھی رات کو نیند میں مشغول ہیں تو میں آپ کی اُمت پر غضب نازل کروں گا۔
(۹) ہر خاص و عام کو دوزخ میں ڈالوں گا ان میں سے کسی ایک کو چھٹکارا نہیں دوں گا۔
(۱۰) جب خیر البشر (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نے یہ آیت سنی تو فوراً وہاں سے امتی کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔
(۱۱) وہاں سے آپ تشریف لے گئے، کسی نے آپ کو نہیں دیکھا، آپ کے بارے میں فقط چھپی باتیں جاننے والے کو علم تھا۔
(۱۲) اس قصّہ کو جب دو تین دن گزر گئے آپ کے دوست یعنی صحابہ کرام غم سے دل کا خون پیتے رہے۔
(۱۳) آخر کار تیسرے دن نماز کے بعد تمام صحابہ کرام سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس گئے ۔
(۱۴) جب انہوں نے اُم المومنین سے پوچھا تو آپ نے انہیں یہ جواب دیا۔
(۱۵) آپ نے کہا کہ پچھلی رات رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حق کی طرف سے خطاب ہوا، امت کے عذاب سے متعلق آیت نازل ہوئی۔
(۱۶) جب آپ کے کان مبارک تک یہ آیت پہنچی آپ حجرہ سے باہر چلے گئے کسی نے آپ کو نہیں دیکھا۔
(۱۷) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دوستوں سے اس قدر شور بلند ہوا کہ جنوں اور دیوؤں پر لرزہ طاری ہوگیا۔
(۱۸) صحابہ نے اچانک دور سے ایک چرواہے کو دیکھا اس چرواہے کو دیکھنے سے ان کے دلوں کو کچھ چین آیا۔
(۱۹) اس کے پاس پہنچے اور پوچھا اگر پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تجھے کوئی خبر ہے تو بتا۔
(۲۰) اس نے کہا میں نے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو کب دیکھا ہے بلکہ میں نے ان کے بارے میں کسی سے سُنا بھی نہیں ہے۔
(۲۱) لیکن تین دنوں سے پہاڑ کے درمیان سے شور کی آواز میرے کانوں میں آتی ہے۔
(۲۲) اس کے رونے سے جانوروں کے دل زخمی ہوگئے ہیں، چراگاہ سے انہوں نے اپنے منہ بند کرلیے ہیں۔
(۲۳) ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں، نیند سے انہوں نے آنکھیں باندھ رکھی ہیں۔
(۲۴) جماعتِ صحابہ نے جب یہ خبر سنی تو ان سب نے اپنا رُخ پہاڑ کی طرف کرلیا۔
(۲۵) پہاڑ کے درمیان ایک غار ظاہر ہوئی، اس غار کے اندر انہوں نے بڑوں کے سردارکو دیکھا۔
(۲۶) بے نیاز کی بارگاہ میں سر سجدہ میں رکھے ہوئے تھے، اپنے خدا سے راز داری میں کہہ رہے تھے۔
(۲۷) فریاد کررہے تھے اور کہہ رہے تھے اے اﷲ ! جب تک تو میری اُمت کے گناہ نہیں بخشے گا،
(۲۸) میں اپنا سر زمین سے نہیں اٹھاؤں گا، روزِ حشر تک میں اسی طرح روتا رہوں گا۔
(۲۹) اس طرح کہہ رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے ، موسم بہار کی طرح آنسو بہہ رہے تھے۔
(۳۰) جب غار کے چمگادڑوں اور صحابہ کرام نے گریہ وزاری کا یہ زور سُنا تو سرکار کے رونے سے سب کے جگر خون ہوگئے۔
(۳۱) صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اے مومنوں کی شفاعت فرمانے والے ! مہربانی فرمائیں ، زمین سے سر اٹھائیں۔
(۳۲) میں نے عمر بھر جو طاعت کی ہے، اور دنیا میں جتنی عبادت کی ہے ۔
(۳۳) اس کا ثواب آپ کی اُمت کے لیے دیتا ہوں میں اے نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)
الجواب :
ایں نقل باطل و بے اصل ست ودرہیچ کتاب معتبر ازونشانے نیست، واﷲ تعالٰی اعلم یہ نقل باطل اور بے اصل ہے ، کسی معتبر کتاب میں اس کا نام نشان نہیں ہے، واﷲ تعالٰی اعلم۔