عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

اگر تمام مخلوقات کے قلب مثل قلب حضور

مسئلہ ۱۲۴: از سہاور ۲۴ صفر ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اندریں باب کہ ایک صاحب نے دو مضامین ذیل بحوالہ حدیث بیان فرمائے اور اول کو حدیث قدسی کہا مضمون اول یہ ہے کہ اگر تمام مخلوقات کے قلب مثل قلب حضور سرور کائنات علیہ افضل الصلوات والطیبات کے ہوجائیں یا مثل شیطان لعین کے ہوجائیں تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے، کہ مجھ کو مطلق پروا نہیں۔
دوسرا مضمون یہ ہے کہ بروزِ قیامت جنت و دوزخ میں حجت ہوگی۔ دوزخ کہے گی کہ میں محلِ جبابرہ وافاخرہ ہوں اور تو محلِ مساکین وغرباء ہے اس لیے میں افضل ہوں یا مستحق اس کی ہوں کہ تمام بنی آدم میرے حوالے ہوں۔ جنت کچھ جواب نہ دے گی، مکالمہ میں کمزور پڑے گی، پس اللہ تعالٰی فیصلہ فرمائے گا کہ تم دونوں کو استحقاقِ حجت کسی طرح نہیں ہے میں جس کو جہاں چاہوں گا بھیجوں گا۔
پس سوال یہ ہے کہ آیا یہ دونوں مضمون اُن صاحب کے صحیح موافق حدیث کے ہیں یا نہیں؟
اور برتقدیر اول یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا قلب مثل قلب مبارک حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہوجائے، علماء نے تو ایسی احادیث کو جو صاحبِ درمنثور وغیرہ نے حبر الامۃ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے درجہ اعتبار سے گرایا ہے، اور نیز دوسرے مضمون میں جبابرہ وافاخرہ کا ہونا دوزخ کے لیے کب موجبِ فضیلت وفوقیت ہوسکتا ہے کہ وہ مشرکین و کفار ہوں گے، امید کہ جواب باصواب عنایت ہو کہ ایک جماعت مسلمین کا شک رفع ہو، بینوا توجروا، ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

الجواب : حدیث اول میں ہر گز نامِ اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں بلکہ یوں ہے کہ: علی اتقی قلب رجل واحد منکم ۔۱؂ تم میں کا جو بڑا پرہیزگار شخص ہو اس کے دل پر ہوجائیں۔

(۱؂ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۹)

اور فرض کے لیے امکان شرط نہیں۔ قال اﷲ تعالٰی: قل ان کان للرحمٰن ولد فانا اوّل العابدین ۔۱؂ تم فرماؤ اگر بفرضِ محال رحمن کے کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۴۳/۸۱)

حدیث تو لفظ لَوْ سے ہے کہ: لو ان اولکم واٰخرکم واِنسکم وجِنکم کانوا علی اتقی ۔۲؂ اگر تمہارے پہلے، پچھلے انسان ، اور جن سب سے بڑے پرہیزگار کے دل پر ہوجائیں۔الخ (ت)

(۲؂ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۹)

اور آیہ کریمہ میں تو لفظ ان ہے، بیان حدیث دوم میں غلط ہے کہ حجت روزِ قیامت ہوگی اور یہ بھی غلط کہ تمام بنی آدم میرے حوالہ ہوں اور یہ بھی غلط کہ جنت کچھ جواب نہ دے گی یا کمزور پڑے گی، اسی طرح بیان حدیث اول میں متعدد اغلاط تھے۔

یہ حدیث یوں ہے: تحاجت الجنۃ والنار فقالت النار اوثرت بالمتکبرین والمتجبرین وقالت الجنۃ فمالی لایدخلنی الا ضعفاء الناس ۔۳؂ الحدیث ۔ جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا تو دوزخ نے کہا مجھے متکبروں اور جابروں کے سبب ترجیح دی گئی اور جنت نے کہا مجھے کیا ہے کہ میرے اندر صرف کمزور لوگ داخل ہوتے ہیں، الحدیث (ت)

(۳؂ صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ ق قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۱۹)
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ باب جہنم اعاذنا اللہ منھا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۸۱)

یہ گزشتہ کی حکایت ہے اُس وقت نار کا علم اُسے محیط ہونا کیا ضرور کہ اس کے لیے کفار و مشرکین ہیں جس طرح جنت کا یہ کہنا بتارہا ہے کہ اُسے ان کمزوروں کا فضل و تقرب معلوم نہ تھا جب سے معلوم ہوا خود ان کی مشتاق ہے واللہ تعالٰی اعلم۔