Blog
نماز کا روحانی میکانزم
انسانی دماغ میں دو کھرب خلیے ہوتے ہیں جن کا تعلق زندگی کے افعال ، صلاحیتوں اور کارکردگی سے ہوتا ہے ۔ ان خلیوں کا باہمی ربط برقی رو سے منسلک ہوتا ہے اور یہ تمام خلیات میں دوڑتی رہتی ہے ۔ اس برقی رو کے ذریعے خیالات شعور اور تحت لا شعور ، لاشعور سے گزرتے ہیں ۔ دماغ میں ان دو کھرب خلیات کے یونٹ بھی ہوتے ہیں ۔ ان یونٹ میں برقی رو خیال کے فوٹو لیتی رہتی ہے یہ فوٹو بہت زیادہ تاریک یا چمکدار ہوتا ہے ۔ ہلکے فوٹو وہم کہلاتے ہیں ان سے تیز خیال ، مزید واضح احساس کہلاتے ہیں ۔ دماغ کے ان یونٹوں میں سے ایک یونٹ میں ایسی معلومات بھی ہوتی ہیں جن کو ہم روحانی صلاحیت کا نام دے سکتے ہیں ۔ نمازی ہاتھ اٹھا کر سر کے دونوں طرف کانوں کی جڑ میں رکھ کر نیت باندھتا ہے تو ایک مخصوص برقی نہایت باریک رگ کو اپنا کنڈنسر بنا کر دماغ میں جاتی ہے اور دماغ کے اندر اس خانے کے خلیوں کو چارج کر دیتی ہے۔ نتیجتا اس برقی رو کے ذریعے روحانی صلاحیتوں کا در کھل جاتا ہے۔ جب نمازی پوری توجہ اور انہماک سے تسبیح پڑھتا ہے تو روح اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ صفات الہیہ میں جذب ہو جاتی ہے اور پورے جسمانی نظام میں اللہ کی صفات روشنی بن کر سرائیت کر جاتی ہیں ، جسم کا رواں رواں اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ جب الحمد شریف کی تلاوت کرتا ہے تو انوار قرآن کا ایک ایک لفظ مشاہدہ بن جاتا ہے ۔ الحمد لله رب العالمین کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا بحیثیت رب سارے عالمین کی کفالت و پرورش کرنے کا فارمولا سامنے آجاتا ہے۔ اللہ کی صفت رحمن اور رحیم جو جو تخلیق کا ئنات کا پہلا مرحلہ ہیں اور عالم تکوین کے دو بنیادی جز و یعنی جلال اور جمال ہیں وہ سامنے آجاتے ہیں ۔ عارف کا ئنات کی کنہہ سے واقف ہو جاتا ہے اور کائنات میں ان انوار کا مظاہرہ کس طرح ہو رہا ہے اس کا ادراک ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جب مالک یوم الدین کی قرآت کرتا ہے تو عالم حشر و نشر کے راز و نیاز میں کھو جاتا ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین پر وہ عاجزی وانکساری سے اپنی کوتاہ بینی کو اللہ کے سامنے رکھ کر مدد کا خواستگار ہوتا ہے۔ پھر وہ اللہ سے پیغمبرانہ طرزی فکر پر گامزن ہونے اور شیطانی طرزوں پر چل کے نقصان پانے والے گروہ سے بچنے کی دعا کرتا ہے ۔ اس کے بعد وہ قرآن مجید کی کسی آیت کی تلاوت کرتا ہے تو انوار قرآن مشاہدہ بن کر سامنے آنے لگتے ہیں۔ جب نمازی رکوع میں جاتا ہے تو لطیف روشنی یعنی برقی رو دماغ کے اندر پورے اعصاب میں پھیل جاتی ہے یوں سراپا نور بن جاتا ہے۔
سجدہ کی حالت میں اکثر نمازی خواتین و حضرات نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ سانس کی رفتار یا تو رک جاتی ہے یا انتہائی سست ہو جاتی ہے۔ جو حضرات روحانیت میں سانس کے عمل دخل کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں وہ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ سانس جب اندر جاتا ہے تو آکسیجن جسم کے اندر سرائیت کر جاتی ہے اور پھیپھڑوں کے ذریعے خون میں شامل ہو جاتی ہے ۔ آکسیجن ذہنی صلاحیتوں اور شعور کی پختگی وصحت کے لیے ضروری ہے۔
سانس کا دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جسم سے خارج ہو جاتی ہے۔ اس طرح سانس کے دو رخ ہوئے ایک سانس کا آنا اور دوسرا واپس جانا ۔ روحانی نقطہ نظر سے سانس کا آنا بندہ کو نہاں خانہ دل میں ذات کے قریب جانے کا موقع دیتا ہے اور وہ ذات سے واقف ہو جاتا ہے اس عمل کو صعود کہتے ہیں جبکہ سانس کا واپس جانا ذات سے تعلق منقطع کر کے ظاہری دنیا یا مظاہر سے منسلک کر دیتا ہے اس عمل کو نزول کہتے ہیں ۔ صعود کے ذریعے بندہ روحانی صلاحیتوں سے قریب ہوتا ہے جبکہ نزول سے دور ہو جاتا ہے ۔ جب نمازی سجدہ کے اندر سانس روکتا ہے تو دراصل یہ سانس کی صعودی ترتیب ہوتی ہے اس میں اتنی یکسوئی ہو جاتی ہے کہ بندہ کو اللہ تعالیٰ کا عرفان و ادراک ہو جاتا ہے ۔ اسی کیفیت کے بارے میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا مومن بندہ اللہ کے قدموں میں سجدہ کرتا ہے۔ الله اعضاء و جوارح سے پاک ہے اس حدیث میں اللہ اور بندہ کے براہ راست تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے۔