امامت کا بیان

صاحب عذر امام کے پیچھے تندرست کی نماز

سوال۔۔۔
زید ایک سنی درسگاہ کا طالب علم ہے۔مسائل شرعیہ ضروریہ سےبخوبی آگاہ ہے۔ صحیح الطہارت اور صحیح القرآت ہے۔مگر کمر سے پیر تک مرض جھولہ اور فالج کے باعث لاٹھی کے سہارے لنگڑاتے ہوئے چلتا ہے۔نماز کا قیام اور رکوع تو سنت کے مطابق ادا کرتا ہے۔لیکن سجدہ کی حالت میں بوجہ مجبوری داہنے پاؤں کے انگوٹھے کا محض سرا لگتا ہے اور دوسرے پیر کی چار انگلیوں کے صرف سرے لگتے ہیں پیٹ نہیں لگ پاتے باقی فرائض سنت کے مطابق ادا کرتا ہے تو ایسی صورت میں زید مذکور عالم اور غیر عالم کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں ؟ زید کے پیچھےنماز پڑھنےمیں شرعاً کوئی حرج ہے یا نہیں؟

الجواب۔۔۔
بعضے اعذار ایسے ہیں جس میں معذور کی اقتدا صحیح اور درست ہے جیسے بیٹھ کر رکوع اور سجود کرنے والے کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی نماز ۔اور تیمم والے کے پیچھے وضو والے کی نماز کا درست ہونا۔اسی طرح صورت مسئولہ میں زید چونکہ نماز کے بعض فرض یاواجب ادا کرنے سے مجبور اور معذور ہے۔اس لئے اسے غیر عالم کی امامت کرنا تو بلاشبہ درست ہے۔ رہا عالم کی تو اس میں بھی حرج نہیں لیکن صحت امامت کا جامع عالم صف میں موجود ہو تو اسی کو امام بنانا اولی اور بہتر ہے۔
هكذا في فتاوى الرضوية صفحہ 226 ۔فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ 79 خط مصری۔
میں ہے امام کے پاؤں میں ایسا لنگ ہو کہ پاؤں کے بعض حصہ کے بل کھڑا ہوتا ہے پورا حِقہ زمین پر نہیں جمتا تو اس کی امامت درست ہے۔مگر دوسرا شخص (جو ایسانہ ہو)بہتر ہے ۔
در مختار جلد اول ۔396۔
عبارت تنویر الابصار۔۔ صح اقتداء قائم باحدب کے تحت ہے ۔
وان بلغ حدبه الركوع على المعتمد وكذا باعرج وغیرہ اولی یعنی قول معتمد کے مطابق کبڑی پیٹھ والے کی اقتداء درست ہے اگر اس کا کبڑا پن قیام فرض کی شکل سے ہٹ کر رکوع کی صورت میں پہونچ چکا ہو ایسے ہی لنگڑے کے پیچھے نماز درست ہے مگر دوسرا شخص بہتر ہے۔
شامی جلد اول صفحہ 378 میں عبارت۔
در مختار ومفلوج وابرص شاع برصه کےتحت ہے- وكذا العرج يقوم ببعض قدمه فالاقتداء بغیرہ اولی۔
یعنی فالج زدہ اور ظاہر کے برص والے کی طرح وہ لنگڑا شخص بھی ہے جو اپنے پیر کے بعض حصہ کے بل کھڑا ہوتا ہے پورا حصہ زمین پر نہیں جنت تو ایسوں کی اقتدا اگر چہ درست ہے مگر دوسرا شخص اولی اور بہتر ہے۔ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ وقت مجبوری جب پورا قیام فرض (كما في الاحداب ) اور استقرار على الارض (کما فی الاعرج)حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی امامت درست ہے تو حالت سجدہ میں صرف انگوٹھا یا بعض واجب انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہ لگنا صحت امامت کے لئے کب حرج بن سکتا ہے۔بلا شبہ یہاں بھی امامت صحیح اور درست ہے اقتدا کرنے میں حرج نہیں ۔ سوال مذکور میں زید کے متعلق فالج زدہ اور لنگڑا ہونا دو چیز بتائی گئی ہے اور دونوں کا حکم واضح ہو چکا اب رہی یہ بات کہ ایسے لوگوں کی امامت تنزیہی کراہات میں شمار کی گئی ہے اور کراہت تنزیہی بھی ایک قسم کی ہی ملحوظ ہوتی ہے جس کے مطابق ایسے لوگوں کی امامت
ممنوع کہی جا سکتی ہے تو شرعی نقطہ فقہ سے ایسا خیال درست نہیں ہے کیونکہ مکروہ تنزیہی شرعا ممنوع نہیں۔

کما تحق فی فتاوی الرضویۃ جلد اول ص179تا 180 مکروہ تنزیہی کا حاصل معنی خلاف اولی ہوتا ہے۔
چنانچہ شامی جلد اول ص 439میں قول فقہاء نقل کیا ہے المکروہ تنزیها مرجعه الى خلاف الاولی تو مسئلہ مذکور کی بابت حسب تصریحات فقہاۓ اعلام مطلب یہ ہوا کہ جماعت میں مذکورہ عذر رکھنے والوں سے بہتر دوسرا موجود ہو تو ان لوگوں کی امامت ناپسند اور خلاف اولی ہے ورنہ خلاف اولی بھی نہیں۔بلکہ قوم میں اگر دوسرا لائق امامت نہ ہو اور یہ لوگ شرائط امامت کے مطابق ہوں تو امامت کے لئے یہی اولی اور بہتر ہیں۔ واللہ تعالى اعلم جل مجده اتم واحكم وصلى الله تعالى على النبي الامی والہ وسلم
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
ص:281