اسلامی مہینوں کے اعمال

صفر المظفر

اسلامی تقویم کا یہ دوسرا مہینہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ محرم الحرام کے بعد آتا ہے اور ماہ محرم الحرام میں عرب قبائل جنگ و قتال کو حرام جانتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی محرم الحرام ختم ہوتا تو عرب قبائل جنگ و قتال کے لئے نکل پڑتے اور گھروں کو خالی چھوڑ جاتے ۔ اسی لئے اس کو صفر یعنی خالی کا مہینہ کہتے ہیں ۔

ویسے پرانے لوگ آج بھی اس کو خالی کا مہینہ ہی کہتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کے اذہان میں اس ماہ کی نحوست راسخ ہو چکی ہے اور خصوصاً پہلی تیرہ تاریخوں میں تو ضعیف الاعتقاد لوگ کسی بھی کام کا آغاز نہیں کرتے اور نہ ہی شادی بیاہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر چہ دین متین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ سب تو ہم پرستی کی باتیں ہیں۔اگر چہ یہ سب باتیں تو ہم پرستی ہی کی ہیں مگر جب یہ لوگوں کے اذہان میں پختہ ہو جاتی ہیں تو پھر ان کا یقین بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں پڑھے لکھے طبقہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس تو ہم پرستی کے خلاف جہاد کرے اور لوگوں کے اذہان میں ان الٹے سیدھے خیالات کو درست کرے اور یہ بتلائے کہ ہمارا مذہب ان سب باتوں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ محض یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا کہ جی یہ باتیں جہالت کی ہیں۔

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : حج کر نے والا مغفرت یافتہ ہے اور حاجی ذوالحجۃ الحرام ، محرم الحرام ، صفر المظفر اور ربیع الاول کے 20دنوں میں جس کے لئے استغفار کرے اس کی بھی مغفرت ہو جاتی ہے ۔

ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہاں صفر سے مُراد ماہِ صفر المظفر ہے ۔ پھر آگے اس کی وضاحت میں بھی بَربِنائے اختلاف دو قول ہیں :
پہلا قول : زمانَۂ جاہلیت میں لوگ مہینے پیچھے ہٹاتے تھے اور محرّم الحرام کی حرمت ختم سمجھ کر اس کے بدلے میں صفر المظفّر کو حرمت والا مہینا قرار دیتے تھے ، تو حدیثِ پا ک میں اس رَوِش سے منع فرمایا گیا ۔ یہ امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے ۔

دوسرا قول : زمانَۂ جاہلیت میں لوگ صفر المظفر کو منحوس سمجھتے تھے ، کہتے تھے : یہ نحوست بھرا مہینا ہے ۔ لہٰذا حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس خیال کو باطل قرار دیا ہے ۔ یہ قول امام ابو داود رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا محمد بن راشد مکحولی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اپنے شیخ سے یہ قول سُنا ۔
شاید یہ قول سب سے مناسب قول ہے ۔ بہت جاہل لوگ صفر المظفّر کو منحوس سمجھتے ہیں ، بعض اوقات اس مہینے میں سفر کرنے سے بھی منع کرتے ہیں ۔ صفر المظفر سے بدشگونی لینا بھی اسی بدشگونی میں شامل ہے جس سے شریعتِ مطہّرہ میں منع کیا گیا ہے ۔ یونہی کسی دن مثلاً بُدھ کے دن سے بدشگونی لینا بھی ممنوع ہے ۔

حضرت سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ حضور رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : صبح سویرے صدقہ کرو کیونکہ بلا صدقے سے آگے نہیں بڑھتی ۔
دوسری حدیثِ پاک میں ہے : ” ہر دن کی ایک نحوست ہوتی ہے لہٰذا اس دن کی نحوست کو صدقہ کے ذریعے دُور کرو ۔ “  کہ صدقہ وہ عظیم عمل ہے جو بلا کے اسباب اکٹھے ہوجانے کے بعد بھی بلا کو دُور کردیتا ہے ، یونہی دُعا کی بھی برکت ہے ۔
حدیثِ پاک میں ہے : بے شک بلا اور دُعا آسمان وزمین کے بیچ ملاقات کرتے ہیں اور پھر قیامت تک جھگڑتے رہتے ہیں ۔ 

حضرت سیِّدُنا سَلمان فَارِسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : قضا کو دُعا ہی لوٹاسکتی ہے ۔

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیث میں ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جو صبح وشام یہ کہے : بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم تو اُسے کوئی بلاء نہ پہنچے گی 

فرمانِ مصطفے ٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے : ہرانسان کے دل میں بدشگونی آہی جاتی ہے ، جب بندہ اسے محسوس کرے تو کہے : اَنَا عَبْدُ اللہِ ، مَا شَاءَ اللہُ ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ، لَا یَأتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اللہُ ، وَلَا یَذْہَبُ بِالسَّیِّئَاتِ اِلَّا اللہُ ، اَشْہَدُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ( یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں ، جو اللہ چاہے ، اللہ کے بنا کوئی قوت نہیں ، نیکیاں اللہ پاک ہی عطا کرتا ہے ، بُرائیاں اللہ پاک ہی ختم کرتا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ) پھر اپنے راستے پر چلا جائے
حضرت سیِّدُناا بنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جسے بدشگونی اس کے کام سے روک دے اُس نے شرک کیا ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا شخص کہے : اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ یعنی الٰہی! تیری فال فال ہے اور تیری ہی خیر خیر اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔

حضرت سیِّدُنا عُرْوَہ بن عامر قرشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں : بارگاہِ رسالت میں بدشگونی کا تذکرہ ہوا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اس میں بہترین نیک فال ہے ، بدشگونی مسلمان کو نہ لوٹائے ،جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ آثار دیکھے تو کہے : اَللّٰہُمّ لَا یَأتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ ، وَلَا یَذْہَبُ بِالسَّیِّئَاتِ اِلَّا اَنْتَ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ ( یعنی الٰہی! نیکیاں تُو ہی عطا فرماتا ہے ، بُرائیاں تُو ہی دُور فرماتا ہے ، تیرے بنا نیکی کی قوت ہے نہ بُرائی سے بچنے کی طاقت ۔ ) “  دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : بدشگونی مسلمان کو نقصان نہ دے

حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جب کوّے کی کائیں کائیں سُنتے تو فرماتے : اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ ( یعنی الٰہی! تیری فال فال ہے اور تیری ہی خیر خیر) ۔

اس ماہ مقدس کی آخری بدھ کو بھی اہل سنت و جماعت میں بڑی قدر و منزلت حاصل . ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اہل سنت و جماعت اس دن کاروبار بند کر کے سیر و تفریح کرتے ہیں، پوریاں پکاتے ہیں ، غسل کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس روز صحت کا غسل کیا تھا اور بیرون مدینہ طیبہ سیر کے لئے تشریف لے گئے تھے یہ سب باتیں بے اصل ہیں ۔کہنے والے تو نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں مگر یہ فقیر عرض کرتا ہے کہ آخری چہار شنبہ کو سیر کے لئے جانا کوئی چار چھ سال کی بات تو نہیں ہے کہ ہم یہ خیال کر لیں کہ اس کو اب ایجاد کیا گیا ہے۔ یہ تو صدیوں سے روایت چلی آرہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس روز سرور دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ میں قدرے افاقہ ہونے کی وجہ سے مدینہ طیبہ میں چہل قدمی فرمائی ہو اور آپ کی اس سنت کو ازاں بعد عشاق نے اپنا لیا ہو۔ بات اس کو غلط کہنے سے بنے گی نہیں جو کام ہم اپنے بزرگوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں اس کو ہم یک لخت رو بھی نہیں کر سکتے ۔

اگر ہمارے اکابرین آج کے دور میں یہ خیال فرماتے ہیں کہ آخری چہار شنبہ والے دن جو کچھ ہوتا ہے غلط ہوتا ہے تو انہیں واضح طور پر عوام الناس میں شعور کو بیدار کرنا ہو گا یہ نہ ہو کہ وہ کہیں راستہ ہی بھی چیز کا یہ خیال ہے کہ جو بات نرم یاور خوش گفتاری سے بندہ سمجھ سکتا ہے وہی بات درشت روی اور سختی سے بگڑ جایا کر کرتی ہے۔ صحیح بخاری، عن عقبہ بن عامر، کتاب المغازی اور مسلم کتاب الفضائل میں یہ حدیث درج ہے کہ صفر 11 ہجری (اپریل، مئی 632ء) میں آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم احد پر تشریف لے گئے اور احد کے گنج شہیداں پر نماز ادا فرمائی اور ان کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ وہاں سے واپس ہو کر آپ نے مختصر خطبہ ارشاد فرمایا کہ: ” لوگو! میں تم سے آگے جانے والا ہوں اور تمہاری شہادت دینے والا ہوں۔ واللہ ! میں حوض کوثر کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں، مجھے سلطنتوں کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔ مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے۔ البتہ اس کا اندیشہ ہے کہ دنیاوی مفاد لی کشمکش میں نہ پڑ جاؤ اور اس کے لئے آپس میں کشت و خون کرو اور اس طرح ہلاک ہو جاؤ، جس طرح تم سے پہلے کی قومیں ہلاک کی ہوئیں۔“

اس مہینہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایک شب، جنت البقیع بھی تشریف لے گئے اور وہاں پر دفن اہل اسلام کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔ اس فقیر کو رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ناساز کی طبع سے قطعاً انکار نہیں مگر کیا کوئی بھی صاحب عقل اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ جب اہل مدینہ نے اپنے آقا و مولی کو گھر سے باہر آتے دیکھا ہو گا اور چہل قدمی کرتے دیکھا ہو گا تو ان کی خوشی کی کیفیت کیا ہو گی۔ کیا ان کو یہ دن صدیوں بعد بھی فراموش ہو سکتا ہے۔ آج بھی اگر اہل اسلام اس دن کی یاد تازہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی غیر شرعی بات تو نہیں۔ پورے سال میں اگر سو، سوا سو چھٹیاں منائی جا سکتی ہیں تو کیا اپنے آقا کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے محض چند گھنٹے قربان نہیں کئے جا سکتے

جواہر غیبی اور راحت القلوب میں روایت درج ہے کہ غربت کے خاتمہ کے لئےاگر آخری چہار شنبہ کی صبح کو تازہ غسل کر کے بوقت چاشت دو رکعت نماز ادا کرے تو رب کریم اس کی غربت کا خاتمہ فرمائے گا اور اس کو غنی کر دے گا۔ ترکیب یوں مرقوم ہے کہ:ہر رکعت میں بعد از سوره فاتحہ 11,11 مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جب سلام پھیر لے تو اس درود مقدس کو 70 مرتبہ پڑھے۔اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ نِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَبَارِكَ وَسَلَّمُ درود شریف پڑھنے کے بعد جب دعا مانگنی شروع کرے تو یہ دعا پڑھے۔ اللّٰهُمَّ صَرِّفٌ عَنِّي سُوءَ هَذَا الْيَوْمِ وَاعْصِمُنِي مِنْ سُؤبِهِ وَنَجِّنِي عَمَّا أَصَابَ فِيهِ مِنْ نَحْو سَاتِهِ وَكَرَبَاتِهِ بِفَضْلِكَ يَا دَافِعَ السُّرُورِ وَمَا لِكَ النُّشُورِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الامْجَادِ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ

 

 اس کے علاوہ ایک اور عمل بھی جواہر غیبی میں درج ہے کہ پورے دن اور پوری رات میں کسی بھی وقت اگر دو رکعت نماز اس ترکیب سے پڑھی جائے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور دوسری رکعت میں بھی یہی عمل کرے جبکہ دونوں رکعتوں کو مکمل کر کے جب سلام پھیر لے تو سورہ الم نشرح، سورۂ والتین اور سورہ کوثر کو 80,80 مرتبہ اسی جگہ بیٹھ کر پڑھے تو اللہ کے فضل سے غربت، امیری میں رات بدل جائے گی

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی . ہے کہ جب تم صفر کی زحمتوں کو پاؤ تو اللہ سے پناہ مانگو اور عافیت و تندرستی چاہو اور جو کچھ ہو سکے صدقہ بھی دیا و تندرستی ہواکرو اورپہلی شب کو چار رکعتیں بھی پڑھا کرو۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پچاس مرتبه سوره اخلاص پڑھا کرو۔

پہلی شب کو چار رکعتیں بھی پڑھا کرو۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پچاس مرتبه سوره اخلاص پڑھا کرو۔ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی بھی ان چار رکعتوں کو پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھے گا اور ان تمام بلاؤں کے برابر جو اس پر اس مہینہ میں نازل ہوتی ہیں اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! اس مہینہ میں کتنی بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا اٹھارہ ہزار بلائیں اترتی ہیں۔ ان میں سے چھ ہزار ایسی ہیں کہ جن کا نام بھی ہے اور ان کی دوا بھی ہے اور چھ ہزار ایسی ہیں کہ ان کا نام تو ہے مگر ان کی دوا کوئی نہیں۔ اور چھ ہزار ایسی ہیں کہ نہ ان کا نام ہے اور نہ ہ ان کی دوا ہے۔ اللہ ہی کو ان کا علم ہے۔ جو بھی اس مہینہ کی اول اور درمیانی رات اور آخری رات کو یہ دعا پڑھے وہ تمام تر بلاؤں سے اللہ کے فضل سے محفوظ رہے گااللّٰهُمْ يَا شَدِيدُ الْقُوَى يَا شَدِيدَ الْمِحَالِ يَا عَزِيزُ ذَللْتَ بِعَزتِكَ جَمِيعُ خَلْقِكَ أَغْنِنِي عَنْ جَمِيعِ خَلْقِكَ يَا مُحْسِنُ يَا مُفَضِلُ يَا مُنَعِمُ يَا مُكْرِمُ يَا لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ يَا ذَ الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بھی ماہ صفر کے آخری عشرہ میں آٹھ رکعتیں اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھے تو اس کے لئے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کو پل صراط سے گزرنا آسان ہو جائے گا ۔ ( ان آٹھ رکعتوں کو دو، دو یا چار چار کر کے پڑھا جاتا ہے۔)

ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جب صفر المظفر کا چاند دیکھ لے تو نماز مغرب کے بعد کچھ دیر توقف کرے اور پھر چار رکعات نوافل کو دو دو کر کے ادا کرے۔ طریقہ یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور جب چاروں رکعتوں کو مکمل کر کے سلام پھیر چکے تو اسی جگہ بیٹھ کر ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھے۔ درود شریف یہ ہے۔اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِي الْأُمِّي

اگر کوئی یہ چاہے کہ وہ مصائب و آلام سے محفوظ و مامون رہے تو اس کو چاہئیے کہ صفر المظفر کی پہلی رات کو جب نماز عشاء ادا کر لے تو اس کے بعد چار رکعات نفل نماز ادا کرے اور پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پندرہ مرتبہ سورہ کافرون دوسری میں بعد از سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص، تیسری میں سورہ فاتحہ کے بعد پندرہ مرتبہ سورۂ خلق اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد پندرہ مرتبہ سورہ الناس پڑھے۔ جب سلام پھیر چکے تو اس دعا کو اپنی حاجات سامنے رکھتے ہوئے پڑھے۔ اللّٰهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينَ اس دعا کو کم از کم گیارہ مرتبہ پڑھے اور اس کے بعد ستر مرتبہ درود شریف بھی پڑھے

اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کی تنگدستی دور ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ اس ماہ میں ہر دن بعد از نماز فجر دورکعت نماز نفل اس مقصد کے لئے پڑھے۔ انشاء اللہ بہت جلد اس کے رزق کشادہ ہونے کے اسباب پیدا ہو جائیں گے۔

جواہر غیبی میں یوں رقم ہے۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھے اور جب سلام پھیر چکے تو سورہ الم نشرح ، سورہ نصر اور سورہ اخلاص کو مجموعی طور پر اسی مرتبہ پڑھے

بزرگوں کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی یہ چاہے کہ اس کی زندگی اس کے مال میں و کے بعد یعنی خیر و برکت ہو تو اس کو چاہیئے کہ آخری چہار شنبہ کی پانچوں فرض نمازوں ۔اس روز کی آخری نماز (عشاء) پڑھنے کے بعد اسی جگہ بیٹھ کر درج ذیل سات سلام جو کہ در حقیقت آیات مبارکہ ہیں گیارہ مرتبہ پڑھے اور پڑھنے کے بعد پانی پر دم کر کے اپنے دوستوں، عزیزوں اور اہل خانہ کو پلائے ۔ انشاء اللہ پورا سال درست گزرے گا۔

سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَبِ الرَّحِيمِ .

سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي العَلَمِينَ .

سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ .

سلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ .

سَلَامٌ عَلَى الياسين .

سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَلِدِينَ.

سَلَامٌ حِي حَتَّى مَطَلَعِ الْفَجْرِ .