تقلید, علم و تعلیم, فتاوی رضویہ

رسالہ جب کوئی حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے

رسالہ
الفضل الموھبی فی معنی اذا صح الحدیث فہو مذہبی(١٣١٣ھ)
(فضل (الہٰی) کا عطیّہ (امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اس قول کے) معنی میں کہ جب کوئی حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے)
ملقّب بلقب تاریخی
اعزّالنّکات بجواب سوال ارکات(١٣١٣ھ)

مسئلہ۱۶ : از گڑامپور علاقہ نارتھ ارکاٹ مرسلہ کاکا محمد عمر ۱۳ رجب ۱۳۱۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس امر میں کہ کوئی حنفی المذہب حدیث صحیح غیر منسوخ وغیر متروک جس پر کوئی ایک امام آئمۃ اربعہ وغیرہم سے عمل کیا ہو۔ جیسے آمین بالجہر اور رفع یدین قبل الرکوع و بعدالرکوع اور وتر تین رکعتیں ساتھ ایک قعدہ اور ایک سلام کے ادا کرے تو مذہب حنفی سے خارج ہوجاتا ہے یا حنفی ہی رہتا ہے۔ اگر خارج ہوجاتا ہے کہیں تو ردالمحتار میں جو حنفیہ کی معتبر کتاب ہے اس میں امام ابن الشحنہ سے نقل کیا۔

اذا صح الحدیث وکان علٰی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون ذٰلک مذہبہ و لایخرج مقلدہ عن کو نہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عنہ انہ قال اذا صح الحدیث فھو مذہبی، وحکی ذلک ابن عبدالبر عن ابی حنیفۃ وغیرہ من الائمۃ۱؎انتھی۔ جب صحت کو پہنچے حدیث اور وہ حدیث خلاف پر مذہب امام کے رہے عمل کرے وہ حنفی اس حدیث پر ، اور ہوجائے وہ عمل مذہب اس کا، اور نہیں خارج ہوتا ہے مقلد امام کا حنفی ہونے سے بسبب عمل کرنے اس حدیث پر، اس لیے کہ مکرر صحت کو پہنچی یہ بات امام ابوحنیفہ سے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب صحت کو پہنچے حدیث پس وہی مذہب میرا ہے۔ اور حکایت کیا اس کو ابن عبدالبر نے امام ابوحنیفہ اور دوسرے اماموں سے بھی۔ انتہٰی ۔

( ۱ ؎ ردالمحتار مقدمۃ الکتاب داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۶ )

اور کتاب مقاماتِ مظہری میں حضرت مظہر جانجاناں حنفی کے سولہویں (۱۶) مکتوب میں ہے: اگر بحدیث ثابت عمل نمایداز مذہب امام برنمی آید، چرا کہ قولِ امام اذا صح الحدیث فھو مذہبی نص است دریں باب واگر باوجود اطلاع برحدیث ثابت عمل نکند ایں قول امام را ترکوا قولی بخبرالرسول (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) خلاف کردہ باشد ۔۲؂ انتہٰی اگر کوئی شخص حدیث صحیح پر عمل کرے تو وہ امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ قولِ امام جب حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے اس باب میں نص ہے۔ اور اطلاع کے باوجود حدیث صحیح پر عمل نہ کرے تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے اس قول کی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے میرے قول کو چھوڑ دو (انتہی ت)

( ۲ ؎ کلمات طیبات فصل دوم درمکاتیب حضرت مرزا صاحب مکتوب ۱۶ مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۹)

اور بھی اسی مکتوب میں ہے: ہرکہ میگویدعمل بحدیث از مذہب امام برمی آرد اگر برہانے بریں دعوے دارد بیارو ۔۳؂ جو شخص یہ کہتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا مذہب امام سے خارج کردیتا ہے ، اگر اس کے پاس اس دعوٰی کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرے (ت)

( ۳ ؎ کلمات طیبات فصل دوم درمکاتیب حضرت مرزا صاحب مکتوب ۱۶ مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۹)

اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حنفی نے اپنی کتاب عقد الجید میں فرمایا: لاسبب لمخالفۃ حدیث النبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) الانفاق خفی اوحمق جلی۔۱؂ پوشیدہ منافقت یا واضح حماقت کے بغیر حدیث رسول صلی اللہ وسلم کی مخالفت کا کوئی سبب نہیں(ت)

( ۱ ؎ عقد الجید (مترجم اردو) ابن حزم کے کلمات کا مصداق محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی ص ۶۳ )

ان سب بزرگوں کے اُن اقوال کا کیا جواب اگر مذہب امام سے نہیں خارج ہوتا ہے کہیں تو اس پر طعن و تشنیع کرنا گناہ اور بے جاہے یا نہیں؟ بیّنوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے ،ت)

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ الذی انزل الفرقان فیہ تبیان لکل شیئ تمییز االطیب من الخبیث وامرنبیہ ان یبینہ للناس بما اراہ اﷲ فقرن القرآن ببیان الحدیث والصلوۃ والسلام علٰی من بین القرآن واقام المظان واذن للمجتہدین باعمال الاذھان فاستخرجوا الاحکام بالطلب الحثیث فلو لا الائمۃ لم تفھم السنۃ ولولا السنۃ لم یفھم الکتاب ولو لا الکتاب لم یعلم الخطاب فیا لھا من سلسلۃ تھدی و تغیث وعلی اٰلہ وصحابتہ ومجتھدی ملتہ وسائرا متہ الٰی یوم التوریث ۔ سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل فرمائی اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے ستھری کو گندے سے الگ کرنے کے لیے اور اس نی اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے لیے بیان فرمایں جو کچھ اللہ تعالٰی نے آپ کو دکھایا چنانچہ اس نے قرآن کو بیانِ حدیث کے ساتھ مقترن فرمایا اور درود و سلام ہو اس پر جس نے قرآن کی وضاحت فرمائی اور اصول قائم فرمائے اور مجتہدین کو اذن بخشا کہ وہ ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قیاس و اجتہاد کریں۔ چنانچہ انہوں نے بھرپور طلب کے ساتھ احکام مستنبط کیے۔ اگر ائمہ متجہدین نہ ہوتے تو سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نہ سمجھی جاتی۔ اور سنت نہ ہوتی تو اللہ تعالٰی کا خطاب نہ سمجھا جاتا۔ لہذا ایک راہنما اور معاون سلسلہ مہیا فرمادیا، نیز آپ کی آل، صحابہ، آپ کی اُمت کے مجتہدین اور قیامت تک آپ کی امت پر درود و سلام ہو۔(ت)

اقول: وباللہ التوفیق ( میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت) صحتِ حدیث علی مصطلح الاثر وصحتِ حدیث العمل المجتہدین میں عموم خصوص مطلقاً بلکہ من وجہ ہے ، کبھی حدیث سنداً ضعیف ہوتی ہے، اور ائمہ اُمت واُمنائے ملّت بنظر قرائنِ خارجہ یا مطابقت قواعدِ شرعیہ اس پر عمل فرماتے ہیں کہ اُن کا یہ عمل ہی موجبِ تقویت و صحتِ حدیث ہوجاتا ہے۔ یہاں صحت عمل پر متفرع ہوئی نہ عمل صحت پر۔
امام ترمذی نے حدیث : من جمع بین الصلٰوتین من غیر عذر فقدا تی بابا من ابواب الکبائر ۔۱؂ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کیا تو بے شک وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوا۔(ت)

( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الجمع بین الصلوتین امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۶ )

روایت کرکے فرمایا۔ حنش ھذا ھو ابوعلی الرحبی وھو حنش بن قیس وھو ضعیف عنداھل الحدیث ضعفہ احمد وغیرہ والعمل علٰی ھذا عنداھل العلم ۔۲؂ اس حدیث کا راوی ابو علی رحبی حنش بن قیس اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف فرمائی اور علماء کا عمل اسی پر ہے۔

( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الجمع بین الصلوتین امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۶ )

امام جلال الدین سیوطی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں فرماتے ہیں: اشاربذٰلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیرواحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علٰی مثلہ ۔۳؂ یعنی امام ترمذی نے اس سے اشارہ فرمایا کہ حدیث کو قول علماء سے قوت مل گئی اور بے شک متعدد ائمہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اہل علم کی موافقت بھی صحتِ حدیث کی دلیل ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے کوئی سند قابل اعتماد نہ ہو۔

( ۳ ؎ التعقبات علی الموضوعات باب الصلوۃ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ص ۱۲)

امام شمس الدین سخاوی فتح المغیث میں شیخ ابوالقطان سے ناقل: ھذا القسم لایحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الاعمال ، ویتوقف عن العمل بہ فی الاحکام الا اذا کثرت طرقہ او عضدہ اتصال عمل اوموافقۃ شاھد صحیح اوظاھر القرآن ۔۱؂ حدیث ضعیف حجت نہیں ہوتی بلکہ ، فضائل اعمال میں اس پر عمل کریں گے اور احکام میں اس پر عمل سے باز رہیں گے۔ مگر جب کہ اس کی سندیں کثیر ہوں یا عمل علماء کے ملنے یا کسی شاہد صحیح یا ظاہر قرآن کی موافقت سے قوت پائے۔

( ۱ ؎ فتح المغیث القسم الثانی الحسن دارالامام الطبری ۱/ ۸۰ )

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر باب صفۃ الصلوۃ میں فرماتے ہیں: لیس معنی الضعیف الباطل فی نفس الامربل مالم یثبت بالشروط المعتبرۃ عنداھل الحدیث مع تجویز کونہ صحیحا فی نفس الامرفیجوز ان تقترن قرینۃ تحقق ذلک وان الراوی الضعیف اجاد فی ھذا المتن المعین فیحکم بہ ۔۲؂ ضعیف کے یہ معنٰی نہیں کہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ اُن شرطوں پر ثابت نہ ہوئی جو محدثین کے نزدیک معتبر ہیں۔ واقع میں جائز ہے کہ صحیح ہو تو ہوسکتا ہے کہ کوئی قرینہ ایسا ملے جو اس جواز کی تحقیق کردے اور بتادے کہ ضعیف راوی نے یہ خاص حدیث ٹھیک روایت کی ہے تو اس کی صحت پر حکم کردیا جائے گا۔

( ۲؎ فتح القدیر کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۶۶ )

بارہا حدیث صحیح ہوتی ہے اور امام مجتہد اُس پر عمل نہیں فرماتا خواہ یوں کہ اس کے نزدیک یہ حدیث نامتواتر نسخ کتاب اللہ چاہتی ہے یا حدیث احاد زیادت علی الکتاب کررہی ہے۔ یا حدیث موضوع تکرروقوع وعموم بلوی یا کثرت مشاہدین و توفردواعی میں احاد آئی ہے یا اس پر عمل میں تکرار نسخ لازم آتی ہے۔ یا دوسری حدیث صحیح اس کی معارض اور وجوہ کثیرہ ترجیح میں کسی وجہ سے اس پر ترجیح رکھتی ہے۔ یا وہ بحکم جمع وتطبیق و توفیق بین الادلہ ظاہر سے مصروف و موؤل ٹھیری ہے، یا بحالتِ تساوی وعدم امکان جمع مقبول وجہل تاریخ بعد تساقط ادلہ نازلہ یا موافقت اصل کی طرف رجوع ہوئی ہے۔ یا عمل علماء اس کے خلاف پر ماضی ہے۔ یا مثل مخابرہ تعامل امت نے راہ خلافت دی ہے۔ یا حدیث مفسر کی صحابی راوی نے مخالفت کی ہے۔ یا علت حکم مثل سہم مؤلفۃ القلوب وغیرہ اب منتفی ہے۔ یا مثل حدیث لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اﷲ (۳؎صحیح البخاری کتاب الجمعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۳ وصحیح مسلم کتاب الصلوۃ ۱/ ۱۸۳ )

(اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔ ت ) مبنائے حکم حال عصر یا عرف مصر تھا، کہ یہاں یا اب منقطع و منتہی ہے، یا مثل حدیث شبہات اب اس پر عمل ضیق شدید و حرج فی الدین کی طرف داعی ہے۔ یا مثل حدیث تغریب عام اب فتنہ و فساد ناشی ہے، یا مثل حدیث ضجعہ فجر و جلسہ استراحت منشاء کوئی امر عادی یا عارضی ہے۔یا مثل جہربآیۃ فی الظہراحیاناً وجہر فاروق بدعائے قنوت حامل کوئی حاجت خاصہ نہ تشریع دائمی ہے۔ یا مثل حدیث علیک السلام تحیۃ الموتٰی (علیک السلام) ۔۱؂ مردوں کا سلام ہے۔ت) مقصود مجرد اخبار نہ حکم شرعی ہے۔

( ۱ ؎ المصنف لعبدالرزاق باب کیف السلام والرد حدیث ۱۹۴۳۴ المجلس العلمی بیروت ۱۰/ ۳۸۴ )

الٰی غیر ذلک من الوجوہ التی یعرفھا النبیہ ولا یبلغ حقیقۃ کنھھا الاالمجتھد الفقیہ۔ اس کے علاوہ دیگر وجوہ جن کو باخبر لوگ پہچانتے ہیں، اور سوائے مجتہد عالم کے ان کی حقیقت تک کسی کی رسائی نہیں۔(ت)

تو مجردصحت مصطلحہ اثر صحت عمل مجتہد کے لیے ہر گز کافی نہیں۔ حضراتِ عالیہ صحابہ کرام سے لے کر پچھلے ائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین تک کوئی مجتہد ایسا نہیں جس نے بعض احادیث صحیہ کو مؤول یا مرجوح یا کسی نہ کسی وجہ سے متروک العمل نہ ٹھہرایا ہو۔

امیر المومنین عمر فارق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث عمار رضی اللہ تعالٰی عنہ دوبارہ تیمم جنب پر عمل نہ کیا۔ اور فرمایا۔ اِتق اﷲ یا عمار کما فی صحیح مسلم ۔۲؂ اے عمار ! اللہ سے ڈر، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔(ت)

( ۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الحیض باب التمیم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۱ )

یونہی حدیث فاطمہ بن قیس دربارہ عدم النفقہ والسکنی للمبتوتہ پر۔ اور فرمایا: لانترک کتاب ربنا ولا سنۃ نبینا بقول امرأۃ لاندری لعلھا حفظت ام نسیت رواہ مسلم ایضا،۔۳؂ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک ایسی عورت کے قول سے نہیں چھوڑیں گے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ اس نے یاد رکھا ،یا بھول گئی، اس کو بھی مسلم نے روایت کیا(ت)

( ۳ ؎ صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۸۵)

یوں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حدیث مذکور تیمم پر اور حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: اولم تر عمر لم یقنع بقول عمارکما فی الصحیحین ۔۱؂ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قول پر قناعت نہیں کی، جیسا کہ صحیحین میں ہے۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب التیمم باب اذاخاف الجنب علی نفسہ المرضی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۰ )
(صحیح مسلم کتاب الحیض باب التیمم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۱ )

یونہی حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حدیث مذکور فاطمہ پر اور فرمایا: مالفاطمۃ الا تتقی اﷲ، رواہ البخاری ۔۲؂ فاطمہ کو کیا ہے، کیا وہ اللہ تعالٰی سے نہیں ڈرتی۔ اس کو بخاری نے روایت کیا۔(ت)

( ۲ ؎ صحیح البخاری کتاب الطلاق باب قصۃ فاطمہ بنت قیس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۰۲ )

یونہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ : الوضوء مما مست النار ۔۳؂ اس چیز کی وجہ سے وضو لازم ہے کہ جس کو آگ نے چھُوا ۔ت) پر اور فرمایا: انتوضّاء من الدھن انتوضاء من الحمیم رواہ الترمذی ۔۴؂ کیا ہم تیل کی وجہ سے وضو کریں گے، کیا ہم گرم پانی کی وجہ سے وضو کریں گے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔(ت)

( ۳ ؎ جامع الترمذی ابواب الطہارۃ باب الوضوء مما غیرت النار امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲ )
( ۴ ؎ جامع الترمذی ابواب الطہارۃ باب الوضوء مما غیرت النار امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲ )

یونہی حضرت امیر معاوضہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا : انہ لانستلم ھذین الرکنین ۔۵؂ ہم ان دو رکنوں کو بوسہ نہیں دیتے۔(ت)

پر اور فرمایا : لیس شیئ من البیت مھجوراکما فی البخاری۔ ۶ ؎

بیت اللہ شریف میں سے کچھ بھی چھوڑنے کے لائق نہیں ۔جیسا کہ بخاری میں ہے ۔(ت) ( ۵ ؎ صحیح البخاری کتاب المناسک باب من لم یستلم الاالرکنین والیمانیین قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۱۸) ( ۶ ؎ صحیح البخاری کتاب المناسک باب من لم یستلم الاالرکنین والیمانیین قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۱۸)

یوں ہی جماہیرا ئمہ صحابہ و تابعین ومن بعد ہم نے حدیث الوضوء من لحوم الابل ۔۱؂ (اونٹوں کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو ہے۔ت) پر: وھوصحیح معروف من حدیث البراء وجابر بن سمرۃ وغیرھما رضی اللہ تعالٰی عنھم ۔

اور یہ حدیث حضرت براء اور جابر بن سمرۃ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے صحیح ومعروف مروی ہے۔(ت)
امام دارالہجرۃ عالمِ مدینہ سیدنا مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے: العمل اثبت من الاحادیث ۔۲؎ عمل علماء حدیثوں سے زیادہ مستحکم ہے۔

( ۱؎ جامع الترمذی ابواب الطہارۃ باب الوضوء من لحوم الابل امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۲ )
(سنن ابو داؤد کتا ب الطھارت باب الوضوء من لحوم الابل آفتاب عالم پریس لاہور ۱/۲۴ )
(سنن ابن ماجہ ابواب الطھارت وسننھا باب ماجاء فی الوضوء من لحوم الابل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۳۸)
(مسند احمد بن حنبل عن براء بن عازب المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۲۸۸)
( ۲ ؎ المدخل لابن الحاج بحوالہ مالک فصل فی ذکرالنعوت دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۱۲۲)

ان کے اتباع نے فرمایا: انہ لضعیف ان یقال فی مثل ذلک حدثنی فلان عن فلان ۔۳؂ ایسی جگہ حدیث سنانا پوچ بات ہے۔

( ۳ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر الصلوۃ علی المیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۸۹)

ایک جماعت ائمہ تابعین کو جب دوسروں سے ان کے خلاف حدیثیں پہنچتیں، فرماتے : مانجھل ھذا ولکن مضی العمل علٰی غیرہ ۔۴؂ ہمیں ان حدیثوں کی خبر ہے مگر عمل اس کے خلاف پر گزر چکا ۔

امام محمد بن ابی بکر بن جریر سے بار ہا ان کے بھائی کہتے تم نے فلاں حدیث پر کیوں نہ حکم کیا ؟فرماتے: لم اجد الناس علیہ ۔۵؂ میں نے علماء کو اس پر عمل کرتے نہ پایا۔

بخاری و مسلم کے استاذ الاستاذ امام المحدثین عبدالرحمن بن مہدی فرماتے : السنۃ المتقدمۃ من سنۃ اھل المدینۃ خیرمن الحدیث ۔ ۶ ؎ ۔ اہل مدینہ کی پرانی سنت حدیث سے بہتر ہے ۔

(۴ تا۶ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر الصلوۃ علی المیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۸۹)

نقل ھذا الاقوال الخمسۃ الامام ابوعبداللہ محمد بن الحاج العبدری المکی المالکی فی مدخلہ فی فصل النعوت المحدثۃ ، وفیہ فی فصل فی الصلوۃ علی المیت فی المسجد ماورد “من ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صلی علی سہیل بن بیضاء فی المسجد ” فلم یصحبہ العمل والعمل عند مالک رحمہ اﷲ اقوی الخ ۔۱؂ ان پانچوں اقوال کو امام ابوعبداللہ محمد بن الحاج العبدری مکی مالکی نے اپنی کتاب المدخل کی فصل فی النعوت المحدثۃ میں نقل فرمایا ، اور اسی کتاب میں مسجد کے اندر نماز جنازہ سے متعلق فصل میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مسجد کے اندر سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نماز جنازہ کے بارے میں جو وارد ہے عملِ (علماء) اس کی موافقت نہیں کرتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک عمل زیادہ مستحکم ہے۔ (النخ (ت) ( ۱ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر الصلوۃ علی ا لمیت فی المسجد دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۲۸۹) خود میاں نذیر حسین صاحب دہلوی معیار الحق میں لکھتے ہیں: بعض ائمہ کا ترک کرنا بعض احادیث کو فرعِ تحقیق اُن کی ہے کیونکہ انہوں نے اُن احادیث کو احادیث قابل عمل نہیں سمجھا۔ بدعوی نسخ یا بدعوی ضعف اور امثال اس کے ۔۔۲؂

( ۲؎ معیار الحق مکتبہ نذیریہ لاہور ص ۱۵۱ )

اس امثال کے بڑھانے نے کھول دیا کہ بے دعوی نسخ یا ضعف بھی ائمہ بعض احادیث کو قابل عمل نہیں سمجھتے۔ اور بے شک ایسا ہی ہے خود اسی معیار میں حدیث جلیل صحیح بخاری شریف حتی ساوی الظل التلول ۔۳؂ (یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔ت) کو بعض مقلدین شافعیہ کی ٹھیٹ تقلید کرکے بحیلہ تاویلات باردہ کاسد ہ ساقطہ فاسدہ متروک العمل کردیا اور عذر گناہ کےلیے بولے کہ

جمعابین الادلۃ ۔۴؂ (دلائل میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے۔ ت) یہ تاویلیں حقہ کی گئیں۔ اور اس کے سوا اور بہت احادیث صحاح کو محض اپنا مذہب بنانے کے لیے بدعاوی باطلہ عاطلہ ذاہلہ زائلہ بے دھڑک واہیات و مردود بتادیا جس کی تفصیل جلیل فقیر کے رسالہ حاجزالبحرین الواقی عن جمع الصلاتین (ف) میں مذکور، یہ رسالہ صرف ایک مسئلہ میں ہے اس کے متعلق حضرت کی ایسی کاروائیاں وہاں شمار میں آئیں۔ باقی مسائل کی کارگزاریاں کس نے گنیں اور کتنی پائیں۔
قیاس کن زگلستانِ اوبہارش را
( اس کے باغ سے اس کی بہار کا اندازہ کرلے۔ ت)

( ۳ ؎ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الاذان لمسافر اذا کانوا جماعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۸۸ )
( ۴؎ معیار الحق مکتبہ نذیریہ لاہور ص ۳۵۴)

ف : رسالہ حاجز البحرین الواقی فتاوٰی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن کی جلد پنجم ۱۵۹ پر ملاحظہ ہو

بالجملہ موافق مخالف کوئی ذی عقل اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ مجرد صحتِ اثری صحت عملی کو مستلزم نہیں بلکہ محال ہے کہ مستلزم ہو۔ ورنہ ہنگامِ صحت متعارضین قول بالمتنافیین لازم آئے اور وہ عقلاً ناممکن تو بالیقین اقوال مذکورہ سوال اور ان کے امثال میں صحتِ حدیث سے صحتِ عملی، اور خبر سے وہی خبرواجب العمل عندالمجتہد مراد پھر نہایت اعلٰی بدیہات سے ہے کہ اگر کوئی حدیث مجتہد نے پائی اور براہِ تاویل خواہ دیگر وجوہ سے اُس پر عمل نہ کیا تو وہ حدیث اس کا مذہب نہیں ہوسکتی، ورنہ وہی استحالہ عقلی سامنے آئے کہ وہ صراحۃً اس کا خلاف فرماچکا تو آفتاب سے روشن تروجہ پر ظاہر ہوا کہ کوئی حدیث بزعم خود مذہب امام کے خلاف پا کر بحکم اقوال مذکورہ امام دعوٰی کردینا کہ مذہبِ امام اس کے مطابق ہے، دوا امرپر موقوف۔
اوّلاً: یقینا ثابت ہو کہ یہ حدیث امام کو نہ پہنچی تھی کہ بحال اطلا ع مذہب اس کے خلاف ہے نہ اس کے موافق۔
لاجرم علامہ زرقانی نے شرح موطا شریف میں تصریح فرمائی: قد علم ان کون الحدیث مذھبہ محلہ اذا علم انہ لم یطلع علیہ اما اذا احتمل اطلاعہ علیہ وانہ حملہ علی محمل فلایکون مذہبہ ۔۱؂ یعنی ثابت ہوچکا ہے کہ کسی حدیث کا مذہب مجتہد ہونا صرف اُس صورت میں ہے جب کہ یقین ہو کہ یہ حدیث مجتہد کو نہ پہنچی تھی ورنہ اگر احتمال ہو کہ اس نے اطلاع پائی اور کسی دوسرے محل پر حمل کی، تو یہ اس کا مذہب نہ ہوگی۔

( ۱ ؎ شرح الزرقانی علی مؤطا الامام مالک )

ثانیا : یہ حکم کرنے والا احکام رجال و متون وطرق احتجاج ووجوہ استنباط او ر ان کے متعلقات اصولِ مذہب پر احاطہ تامہ رکھتا ہو۔ یہاں اُسے چار منزلیں سخت دشوار گزار پیش آئیں گی۔ جن میں ہر ایک دوسری سے سخت تر ہے۔

منزل اوّل: نقدر جال کہ اُن کے مراتب ثقہ وصدق و حفظ وضبط اور اُن کے بارے میں ائمہ شان کے اقوال ووجوہ طعن و مراتب توثیق ، ومواضع تقدیم جرح وتعدیل وحوامل طعن و مناشی توثیق ومواضع تحامل و تساہل و تحقیق پر مطلع ہو، استخراج مرتبہ اتقان راوی بنقد روایات وضبط مخالفات واوہام وخطیات وغیرہا پر قادر ہو، اُن کے اسامی و القاب و کنی و انساب ووجوہِ مختلفہ تعبیر رواۃ خصوصاً اصحابہ تدلیس شیوخ و تعیین مبہمات و متفق و متفرق و مختلف مؤتلف سے ماہر ہو۔ ان کے موالیدو وفیات و بلدان ورحلات و لقاء و سماعات و اساتذہ و تلامذہ و طرق تحمل ووجوہ ادا وتدلیس و تسویہ و تغیر و اختلاط آخذین من قبل و آخذین من بعد و سامعین حالین وغیرہما تمام امور ضروریہ کا حال اس پر ظاہر ہو۔ اُن سب کے بعد صرف سند حدیث کی نسبت اتنا کہہ سکتا ہے صحیح یا حسن یا صالح یا ساقط یا باطل یا معضل یا مقطوع یا مرسل یا متصل ہے۔
منزل دو م: صحاح و سُنن و مسانید و جوامع ومعاجیم واجزاء وغیرہا کتب حدیث میں اس کے طرقِ مختلفہ والفاظ متنوعہ پر نظرِ تام کرے کہ حدیث کہ تواتر یا شہرت یا فردیت نسبیہ یا غرابت مطلقہ یا شذو ذ یا نکارت و اختلافاتِ رفع ووقف و قطع ووصل و مزید فی متصل الاسانید و اضطراباتِ سند ومتن وغیرہا پر اطلاع پائے نیز اس جمع طرق و احاطہ الفاظ سے رفع ابہام و دفعِ اوہام وایضاح خفی و اظہار مشکل و ابانت مجمل و تعیین محتمل ہاتھ آئے۔ ولہذا امام ابوحاتم رازی فرماتے ہم جب تک حدیث کو ساتھ (۶۰) وجہ سے نہ لکھتے اس کی معرفت نہ پاتے۔ اس کے بعد اتنا حکم کرسکتا ہے کہ حدیث شاذ یا منکر، معروف یا محفوظ، مرفوع یا موقوف ، فرد یا مشہور کس مرتبہ کی ہے۔
منزل سوم : اب علل خفیہ و غوامض دقیقہ پر نظر کرے جس پر صدہا سال سے کوئی قادر نہیں۔ اگر بعد احاطہ وجوہ اعلال تمام علل سے منزہ پائے تو یہ تین منزلیں طے کرکے طرف صحت حدیث بمعنی مصطلح اثر پر حکم لگاسکتا ہے۔ تمام حفاظِ حدیث و اجلہ نقاد ناو اصلان ذروہ شامخہ اجتہاد کی رسائی صرف اس منزل تک ہے۔ اور خدا انصاف دے تو مدعی اجتہاد و ہمسری ائمہ امجاد کو اِن منازل کے طے میں اصحابِ صحاح یا مصنفانِ اسماء الرجل کی تقلید جامد سخت بے حیائی نری بے غیرتی ہے بلکہ ان کے طور پر شرکِ جلی ہے۔ کس آیت و حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ بخاری یا ترمذی بلکہ امام احمد و ابن المدینی جس حدیث کی تصحیح یا تجریح کردیں وہ واقع میں ویسی ہی ہے۔ کون سا نص آیا کہ نقدر جال میں ذہبی وعسقلانی بلکہ نسائی و ابن عدی و دارقطنی بلکہ یحیٰی قطان ویحیی بن معین وشعبہ و ابن مہدی جو کچھ کہہ دیں وہی حقِ جلی ہے۔ جب خود احکام الہٰیہ کے پہچاننے میں ان اکابر کی تقلید نہ ٹھہری جو ان سے بدرجہا ارفع واعلٰی واعلم واعظم تھے۔ جن کے یہ حضرات اور ان کے امثال مقلد و متبع ہوتے جن کے درجاتِ رفیعہ امامت انہیں مسلم تھے تو ان سے کم درجہ امور میں اُن اکابر سے نہایت پست مرتبہ اشخاص کی ٹھیٹ تقلید یعنی چہ جرح وتعدیل وغیرہ جملہ امور مذکورہ جن جن میں گنجائش رائے زنی ہے محض اپنے اجتہاد سے پایہ ثبوت کو پہچائیے، اور این وآن وفلان و بہمان کا نام زبان پر نہ لائیے۔ ابھی ابھی تو کھلا جاتا ہے کہ کس برتے پہ تتّا پانی ؎

مااذا اخاضک یامغرورفی الخطر حتّی ھلکت فلیت النمل لم تطر۔۱؂ (اے مغرور ! تجھے کس شے نے خطرے میں ڈالا یہاں تک کہ تُو ہلاک ہوگیا، کاش ! چیونٹی نہ اڑتی۔ت)

خیر کسی مسخرہ شیطان کے منہ کیا لگیں۔برادران باانصاف انہیں منازل کی دشواری دیکھیں جس میں ابو عبداللہ حاکم جیسے محدث جلیل القدر پر کتنے عظیم شدید مواخذے ہوئے، امام ابن حبان جیسے ناقد بصیر تساہل کی طرف نسبت کیے گئے۔ اِن دونوں سے بڑھ کر امام اجل ابوعیسٰی ترمذی تصحیح و تحسین میں متساہل ٹھہرے، امام مسلم جیسے جبل رفیع نے بخاری و ابوذرعہ کے لوہے مانے ۔ کما اوضحنافی رسالتنا مدارج طبقات ۱۳۳۳ھ الحدیث ( جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ مدارج طبقات الحدیث میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ ت ) پھر چوتھی منزل تو فلکِ چہارم کی بلندی ہے جس پر نورِ اجتہاد سے آفتاب منیر ہی ہو کر رسائی ہے۔ امام ائمۃ المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری سے زیادہ ان میں کون منازل ثلثہ کے منتہٰی کو پہنچا۔ پھر جب مقام احکام و نقص و ابرام میں آتے ہین وہاں صحیح بخاری و عمدۃ القاری وغیرہا بنظر انصاف دیکھا چاہیے۔ بکری کے دودھ کا قصہ معروف مشہور ہے۔ امام عیسٰی بن ابان کے اشتغال الحدیث پھر ایک مسئلہ میں دو جگہ خطا کرنے اور تلامذہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے ملازم خدمت بننے کی روایت معلوم وماثور ہے۔ ولہذا امام اجل سفین بن عیینہ کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وا مام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے استاد اور امام بخاری وہ امام مسلم کے استاذ الاستاذ اور اجلہ ائمہ محدثین و فقہائے مجتہدین و تبع تابعین سے ہیں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ارشاد فرماتے ہیں:

الحدیث مضلّۃ الاّ للفقھاء ۲؂۔ حدیث سخت گمراہ کرنے والی ہے مگر مجتہدوں کو۔

( ۲ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر النعوت دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۱۲۲)

علامہ ابن الحاج مکّی مدخل میں فرماتے ہیں: یرید انّ غیر ھم قدیحمل الشیئ علی ظاھرہ ولد تاویل من حدیث غیرہ اودلیل یخفی علیہ اومتروک اوجب ترکہ غیر شیئ مما لایقوم بہ الا من ستبحروتفقہ۔ یعنی امام سفیان کی مراد یہ ہے کہ غیر مجتہد کبھی ظاہر حدیث سے جو معنے سمجھ میں آتے ہیں اُن پر جم جاتا ہی حالانکہ دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں مراد کچھ اور ہے۔، یا وہاں کوئی اور دلیل ہے جس پر اس شخص کو اطلاع نہیں، یا متعدد اسباب ایسے ہیں۔
جن کی وجہ سے اس پر عمل نہ کیا جائے گا۔ ان باتوں پر قدرت نہیں پاتا مگر وہ جو علم کا دریا بنا اور منصبِ اجتہاد تک پہنچا۔

خود حضور پُرنور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: نضراﷲ عبداً سمع مقالتی فحفظہا ووعاھا واداھا فربّ حامل فقہ غیر فقیہ وربّ حامل فقہ الٰی من ھوافقہ منہ ۱ ؎ ۔ اخرجہ امام الشافعی والامام احمد ۔۲؎ والدارمی وابوداؤد و الترمذی وصححہ وابن ماجۃ والضیاء فی المختارۃ والبیھقی فی المدخل عن زید بن ثابت والدارمی عن جبیر ین مطعم ونحوہ احمد والترمذی و ابن حبان بسند صحیح عن ابن مسعود والدارمی عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہم اجعمین۔ اللہ تعالٰی اس بندے کو سرسبز کرے جس نے میری حدیث سن کر یاد کی اور اسے دل میں جگہ دی، اور ٹھیک ٹھیک اوروں کو پہنچادی کہ بہتریوں کو حدیث یاد ہوتی ہے مگر اس کے فہم و فقہ کی لیاقت نہیں رکھتے۔ اور بہتیرے اگرچہ لیاقت رکھتے ہیں۔ دوسرے ان سے زیادہ فہیم و فقیہ ہوتے ہیں۔( امام شافعی، امام احمد، دارمی، ابوداؤد اور ترمذی نے اس کی تخریج کی اور اس کو صحیح قرار دیا ، نیز اس کی تخرین کی ابن ماجہ، ضیاء نے مختارہ میں اور بہیقی نے مدخل میں ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، اور دارمی و احمد نے جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اورترمذی و ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اور دارمی نے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، اللہ تعالٰی ان سب پر راضی ہو ۔ت)

( ۱ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی ذکر النعوت دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۱۲۲ و ۱۲۳ )
( ۲ ؎ مسند احمد بن حنبل حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۸۲ )
(سنن الدارمی باب الافتداء بالعلماء حدیث ۲۳۴ دارالمحاسن قاہرہ ۱/ ۶۵)
(سنن ابی داؤد کتاب العلم باب فضل نشر العلم آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۵۹)
(جامع الترمذی ابواب العلم باب ماجافی الحث علی تبلیغ السماع امین کمپنی دہلی ۲/ ۹۰)
(جامع سنن ابن ماجہ باب من بلغ علماء ایچ ایم سعید کمپنی دہلی ص ۲۱)
(مشکوۃ المصابیح کتاب العلم الفصل الثانی مطبع مجتبائی دہلی ص ۳۵)

فقط حدیث معلوم ہوجانا فہمِ حکم کے لیے کافی ہوتا تو اس ارشادِ اقدس کے کیا معنی تھے۔

امام ابن حجر مکی شافعی کتاب الخیرا ت الحسان میں فرماتے ہیں امام محدثین سلیمان اعمش تابعی جلیل القدر سے کہ اجلہ ائمہ تابعین و شاگردانِ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہیں کسی نے کچھ مسائل پوچھے، اس وقت ہمارے امام اعظم سیدنا ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی حاضر مجلس تھے، امام اعمش رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ مسائل ہمارے امام سے پوچھے۔ امام نے فوراً جواب دیا۔ امام اعمش نے کہا: یہ جواب آپ نے کہاں سے پیدا کیے؟ فرمایا ۔ اُن حدیثوں سے جو میں نے خود آپ ہی سے سنی ہیں۔ اور وہ حدیثیں مع سندِ روایت فرمادیں۔ امام اعمش رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا۔ حسبک ماحدثتک بہ فی مائۃ یوم تحدثنی بہ فی ساعۃ واحدۃ ماعلمت انّک تعمل بھٰذہ الاحادیث یا معشر الفقہاء انتم الاطباء ونحن الصیادلۃ وانت ایّھاالرجل اخذت بکلاالطرفین ۔ ۱ ؎ بس کیجئے جو حدیثیں میں نے سودن میں آپ کو سنائیں آپ گھڑی بھر میں مجھے سنائے دیتے ہیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ ان حدیثوں میں یوں عمل کردیتے ہیں۔ اے فقہ والو! تم طبیب ہو اور محدث لوگ عطار ہیں، یعنی دوائیں پاس ہیں مگر ان کا طریق استعمال تم مجتہدین جانتے ہو۔ اور اے ابوحنیفہ ! تم نے تو فقہ و حدیث دونوں کنارے لیے۔

( ۱ ؎ الخیرات الحسان الفصل الثلاثون ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۴۴ )

والحمد ﷲ رب العلمین oذٰلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء ، واﷲذوالفضل العظیم اور تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو کل جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی عظیم فضل والا ہے۔ت)

اب باقی رہی منزل چہارم، اور تُو نے کیا جانا کیا ہے منزل چہارم سخت ترین منازل دشوار ترین مراحل، جس کے سائرنہیں مگر اقل قلائل، اس کی قدر کون جانے۔ ؎ گدائے خاک(ف) نشینی تو حافظامخروش کہ نظمِ مملکت خویش خسرواں دانند۔۱؂ (اے حافظ ۔ تو خاک نشین گدا گر ہے شور مت مچا، کیونکہ اپنی سلطنت کے نظام کو بادشاہ ہی جانتے ہیں۔ت)

ف : دستیاب دیوان حافظ کی نسخہ میں اس شعر کے الفاظ یہ ہیں۔

رموزِ مصلحت ملک خسرواں دانند گدائے گوشہ نشینی تو حافطا مخروش

( ۱ ؎ دیوان حافظ ردیف شین معجمہ سب رنگ کتاب گھر دہلی ص ۳۵۸ )

اس کے لیے واجب ہے کہ جمیع لغاتِ عرب و فنونِ ادب ووجوہِ تخاطب و طرق تفاہم و اقسامِ نظم و صنوف معنٰے وادراک علل و تنقیح مناط و استخراجِ جامع وعرفانِ مانع و موارد تعدیہ و مواضع قصر و دلائل حکم آیات و احادیث ، واقاویل صحابہ و ائمہ فقہ قدیم و حدیث و مواقع تعارض، و اسبابِ ترجیح ، و مناہج توفیق و مدارج دلیل و معارک تاویل مسالک تخصیص ، مناسک تقیید، ومشارع قیود، و شوارع مقصود وغیرہ ذلک پر اطلاع تام ووقوفِ عام و نظرغائر و ذہن رفیع، وبصیرتِ ناقدہ و بصر منیع رکھتا ہو، جس کا ایک ادنٰی اجمال امام شیخ الاسلام زکریا انصاری قدس سرہ الباری نے فرمایا کہ: ایاکم ان تبادرواالی الانکار علی قول مجتہد اوتخطئتہ الابعد احاطتکم بِاَدِلَّۃ الشریعۃ کلّھا و معرفتکم بجمیع لغات العرب التی احتوت علیھا الشریعۃ و معرفتکم بمعانیھا وطرقھا۔ خبردار مجتہد کے کسی قول پر انکاریا اُسے خطا کی طرف نسبت نہ کرنا، جب تک شریعت مطہرہ کی تمام دلیلوں پر احاطہ نہ کرلو، جب تک تمام لغتِ عرب جن پر شریعت مشتمل ہے پہچان نہ لو، جب تک ان کے معانی اُن کے راستے جان نہ لو۔ اور ساتھ ہی فرمادیا واَنّٰی لکم بذٰلک بھلا کہاں تم اور کہاں یہ احاطہ نقلہ الامام العارف باﷲ عبدالوہاب الشعرانی فی المیزان ۔۲؂ ( اس کو خدا شناس امام عبدالوہاب شعرانی نے میزان میں نقل فرمایا ۔ت)

( ۲ ؎ میزان الشریعۃ الکبرٰی فصل فان ادعی احد من العلماء ذوق ھٰذہ المیزان دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۳۹)

ردالمحتار جس کی عبارت سوال میں نقل کی خود اُسی ردالمحتار میں اسی عبارت کے متصل اس کے معنے فرمادیئے تھے کہ وہ سائل نے نقل نہ کیے، فرماتے ہیں: ولا یخفی ان ذلک لمن کان اھلاً للنظر فی النصوص و معرفۃ محکمھا من منسوخھا فاذانظر اھل المذہب فی الدلیل وعملوابہ صح نسبتہ الی المذاہب ۔۱؂ یعنی ظاہر ہے کہ امام کا یہ ارشاد اُس شخص کے حق میں ہے جو نصوصِ شرع میں نظر اور ان کے محکم و منسوخ کو پہچاننے کی لیاقت رکھتا ہو۔ تو جب اصحابِ مذہب دلیل میں نظر فرما کر اُس پر عمل کریں، اس وقت اس کی نسبت مذہب کی طرف صحیح ہے۔

( ۱ ؎ ردالمحتار مقدمۃ الکتاب داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۶ )

اور شک نہیں کہ جو شخص اِن چاروں منازل کو طے کر جائے وہ مجتہد فی المذہب ہے، جیسے مذہب مہذب حنفی میں امام ابویوسف و امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما بلاشبہ ایسے ائمہ کو اُس حکم و دعوے کا منصب حاصل ہے اور وہ اس کے باعث اتباع امام سے خارج نہ ہوئے کہ اگرچہ صورۃً اس جزئیہ میں خلاف کیا مگر معنی اذن کلی امام پر عمل فرمایا پھر وہ بھی اگرچہ ماذون بالعمل ہوں۔ یہ جزمی دعوٰی کہ اس حدیث کا مفاد خواہی نخواہی مذہب امام ہے، نہیں کرسکتے، نہایت کارظن ہے، ممکن کہ اِن کے مدارک مدارکِ عالیہ امام سے قاصر رہے ہوں۔ اگر امام پر عرض کرتے وہ قبول فرماتے تو مذہب امام ہونے پر تیقن تام وہاں بھی نہیں۔
خود اجل ائمہ مجتہدین فی المذہب قاضی الشرق و الغرب سیدنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جن کے مدارجِ رفیعہ حدیث کو موافقین و مخالفین مانے ہوئے ہیں۔ امام مزنی تلمیذ جلیل امام شافعی علیہ الرحمۃ نے فرمایا۔ ھو اتبع القوم للحدیث ۔۲؂ ( وہ سب قوم سے بڑھ کر حدیث کے پیروکار ہیں۔ت)

( ۲ ؎ تذکرۃ الحفاظ الطبقۃ السادسۃ ترجمہ ۲۷۳ ۴۲/ ۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۱۴)
(میزان الاعتدال ترجمہ یعقوب بن ابراہیم ۹۷۹۴ دارالمعرفۃ بیروت ۴/ ۴۴۷ )

امام احمد بن حنبل نے فرمایا: منصف فی الحدیث ۔۳؂ ( وہ حدیث میں منصف ہیں۔ت)

( ۳ ؎ تذکرۃ الحفاظ الطبقۃ السادسۃ ترجمہ ۲۷۳ ۴۲ / ۶ دارالکتب العلمیہ ۱/ ۲۱۴ )

امام یحٰیی بن معین نے بآں تشدّد شدید فرمایا: لیس فی اصحاب الرای اکثر حدیثاو لااثبت من ابی یوسف ۔۴؂ اصحاب رائے میں امام ابو یوسف سے بڑھ کر کوئی محدث نہیں اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی مستحکم ہے۔ت)

( ۴ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ یعقوب بن ابراہیم ۹۷۹۴ دارالمعرفتہ بیروت ۴/ ۴۴۷ )
(تذکرۃ الحفاظ الطبقۃ السادسۃ ترجمہ ۲۷۳ ۴۲ /۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۲۱۴)

نیز فرمایا: صاحب حدیث و صاحب سُنّۃ ۱ ؎ وہ صاحبِ حدیث و صاحبِ سُنّت ہیں۔(ت)

( ۱ ؎ تذکرۃ الحفاظ الطبقۃ السادسۃ ترجمہ ۲۷۳ ۴۲ /۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۱۴ )

امام ابن عدی نے کامل میں کہا: لیس فی اصحاب الرّأی اکثر حدیثا منہ ۲؎ اصحاب رائے میں امام ابویوسف سے زیادہ بڑا کوئی محدث نہیں۔(ت)

( ۲ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ یعقوب بن ابراہیم ۹۷۹۴ دارالمعرفۃ بیروت ۴/ ۴۴۷ )

امام عبداللہ ذہبی شافعی نے اس جناب کو حفاظِ حدیث میں شمار اور کتاب تذکرۃ الحفاظ میں بعنوان الامام العلامۃ فقیہ العراقین ۔۳؂ (امام بہت علم وا لا عراقیوں کا فقیہ ت ) ذکر کیا۔

( ۳ ؎ تذکرۃ الحفاظ الطبقۃ السادسۃ ترجمہ ۲۷۳ ۴۲ /۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۱۴ )

یہ امام ابویوسف بایں جلالتِ شان حضور سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت فرماتے ہیں: ماخالفتہ فی شیئ قطّ فتدبرتہ الا رأیت مذھبہ الذی ذھب الیہ انجی فی الاخرۃ وکنت ربما ملت الٰی الحدیث فکان ھو ابصربا الحدیث الصحیح منّی۔۴؂ کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں نے کسی مسئلہ میں امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خلاف کرکے غور کیا ہو، مگر یہ کہ انہیں کے مذہب کو آخرت میں زیادہ وجہ نجات پایا، اور بارہا ہوتا کہ میں حدیث کی طرف جھکتا پھر تحقیق کرتا تو امام مجھ سے زیادہ حدیث صحیح کی نگاہ رکھتے تھے۔

( ۴ ؎ الخیرات الحسان الفصل الثلاثون ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۴۳ )

نیز فرمایا: امام جب کسی قوم پر جزم فرماتے میں کوفہ کے محدثین پر دورہ کرتا کہ دیکھوں اُن کی تقویت قول میں کوئی حدیث یا اثر پاتا ہوں۔ بارہا دو تین حدیثیں میں امام کے پاس لے کر حاضر ہوتا اُن میں سے کسی کو فرماتے صحیح نہیں کسی کو فرماتے معروف نہیں۔ میں عرض کرتا حضور کو اس کی کیا خبر حالانکہ یہ تو قولِ حضور کے موافق ہیں۔ فرماتے : میں اہل کوفہ کا عالم ہوں۔ ذکر کلّہ الامام ابن الحجرفی الخیرات ۵ ؎ الحسان ( یہ سب کچھ امام ابن حجر نے الخیرات الحسان میں ذکر فرمایا ہے۔ت)

( ۵ ؎ الخیرات الحسان الفصل الثلاثون ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۴۳ )

بالجملہ نابالغان رتبہ اجتہاد نہ اصلاً اس کے اہل ، نہ ہرگز یہاں مراد، نہ کہ آج کل کے مدعیان خامکار جاہلان بے وقار کہ من و تو کا کلام سمجھنے کی لیاقت نہ رکھیں۔ اور اساطین دین الہی کے اجتہاد پر کھیں۔ اسی ردالمحتار کو دیکھا ہوتا کہ انہیں امام ابن الشحنہ و علامہ محمد بن محمد البہنسی استاد علامہ نور الدین علی قادری باقانی وعلماہ عمر بن نجیم مصری صاحبِ نہرالفائق و علامہ محمد بن علی دمشقی حصکفی صاحبِ ردمختار وغیرہم کیسے کیسے اکابر کی نسبت صریح کی کہ مخالفت مذہب درکنار، روایات مذہب میں ایک راحج بتانے کے اہل نہیں۔

کتاب الشہادات باب القبول میں علامہ سائحانی سے ہے: ابن الشحنۃ لم یکن من اھل الاختیار ۱ ؎ ابن شحنہ اہل اختیار میں سے نہیں تھا۔ (ت)

( ۱ ؎ ردالمحتار کتاب الشہادات باب القبول وعدمہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۸۳ )

کتاب الزکوۃ صدقہ فطر میں ہے: البھنسی لیس من اصحاب التصحیح ۲ ؎ البہنسی اصحابِ تصحیح میں سے نہیں(ت)

( ۲؎ ردالمحتار کتاب الزکوۃ باب صدقۃ الفطر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۷۶)

کتاب الطلاق باب الحضانہ میں ہے: صاحب النھرلیس من اھل الترجیح ۳ ؎ صاحبِ نہر الفائق اہل ترجیح میں سے نہیں ْ(ت)

( ۳؎ ردالمحتار کتاب الطلاق باب الحضانۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۶۳۷)

کتاب الرھن میں ایک بحث علامہ شارح کی نسبت ہے: لاحاجۃ الٰی اثباتہ بالبحث والیقاس الذی لسنا اھلا لہ ۴؂ اس کو بحث و قیاس کے ساتھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں جس کے ہم اہل نہیں ہیں۔(ت)

( ۴؎ ردالمحتار کتاب الرھن باب الحضانۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۳۱۳)

ان کی بھی کیا گنتی خود اکابر اراکین مذہب اعاظم اجلّہ رفیع الرتب مثل امام کبیر خصاف وامام اجل ابوجعفر طحاوی و امام ابو الحسن کرخی و امام شمس الائمہ حلوانی و امام شمس الائمہ سرخسی وامام فخر الاسلام بزدوی و امام فقیہ النفس قاضیخاں دامام ابوبکر رازی و امام ابوالحسن قدوری و امام برہان الدین فرغانی صاحبِ ہدایہ وغیرہم اعاظم کرام ادخلھم اﷲ تعالٰی فی دارالسلام۔
( اﷲ تعالٰی ان کو سلامتی والے گھر میں داخل فرمائے۔ (ت) کی نسبت علامہ ابن کمال باشا رحمۃ اللہ تعالٰی سے تصریح نقل کی۔ انھم لایقدرون علٰی شیئ من المخالفۃ لا فی الاصول ولا فی الفروع ۱ ؎ وہ اصلاً مخالفت امام پر قدرت نہیں رکھتے، نہ اصول میں نہ فروغ میں۔

( ۱ ؎ ردالمحتار مقدمۃ الکتاب داراحیاء الثرات العربی بیروت ۱/ ۵۳ )

ﷲ انصاف ۔ اللہ عزوجل کے حضور جانا اور اسے منہ دکھانا ہے ایک ذرا دیر منہ زوری، ہما ہمی ڈھٹائی، ہٹ دھرمی کی نہیں سہی، آدمی اپنے گریبان میں منہ ڈالے اور ان کا برائمہ عظام کے حضور اپنی لیاقت قابلیت کو دیکھے بھالے تو کہیں تحت الثرٰی تک بھی پتا چلتا ہے۔ ایمان نہ نگلے تو ان کے ادنٰی شاگردانِ شاگرد کی شاگردی و کفش برادری کی لیاقت نہ نکلے ۔ خدارا جو شکار ان شیرانِ شرزہ کی جست سے باہر ہو لومڑیاں، گیڈر اس پر ہُمکنا چاہیں۔ ہاں اس کا ذکر نہیں جسے ابلیس مَرید اپنا مرید بنائے۔ اور اپنی تقلید سے تمام ائمہ امت کے مقابل اَنا خَیرمِّنْہُ ( میں اس سے بہتر ہوں(ت) سکھائے۔

جان برادر ۔  دین سنبھلانا ہے یا بات پالنا۔ چند منٹ تک خفگی، جھنجھلاہٹ ، شوخی تلملاہٹ کی نہیں بدی، ذرالیاقتی دعووں کے آثار تو ملاحظہ ہوں۔ تمام غیر مقلدان زمانہ کے سروسرگروہ سب سے اونچی چوٹی کے کوہ پر شکوہ سب سے بڑے محدث متوحد سب میں چھنٹے امام متفرد علامۃ الدہر مجتہد الدہر العصر جناب میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہداہ اﷲ تعالٰی الی الصراط السوی ہیں۔ انہیں کی لیاقت وقابلیت کا اندازہ کیجئے۔ فقیر نے بضرورت سوالِ سائلین جو اسی ماہ رواں میں صرف ایک مسئلہ جمع بین الصلوتین کے متعلق حضرت کی حدیث دانی کھولی۔ ماشاء اﷲ وہ وہ نزاکتیں پائیں کہ بایں گردش و کہن سالی آج تک پیر فلک کو بھی نظر نہ آئیں۔ تفصیل درکار ہو تو فقیر کا رسالہ مذکورہ حاجزالبحرین (عہ) ملاحظہ ہو۔

یہاں اجمالاً معروض :

دہلوی مجتہدکی حدیث دانی اور ایک ہی مسئلہ میں اتنی گُل فشانی

(۱) ضرت کو ضعیف محض متروک میں تمیز نہیں۔
(۲) تشیّع و رِفض میں فرق نہیں۔
(۳) فلان یغرب وفلان غریب الحدیث میں امتیا زنہیں۔
(۴) غریب و منکر میں تفرقہ نہیں۔
(۵) فلان یھم کو وہمی کہنا جانیں۔
(۶) لہ اوھام کا یہی مطلب مانیں
(۷) حدیث مرسل تو مردود و مخذول و عنعنہ مدلس ماخوذ و مقبول
(۸) ستم جہالت کہ وصل متاخر کو تعلیق بتائیں، مثلاً محدث کہے: رواہ مالک عن نافع عن ابن عمر حدثنا بذلک فلان عن فلان عن مالک ۔ اس کو امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ، ہم کو ایسے ہی حدیث بیان کی فلاں نے فلاں سے اور اس نے امام مالک سے۔(ت)

حضرت اسے معلق ٹھہرائیں اور حدّثنا بذٰلک کو ہضم کرجائیں۔

(۹) صحیح حدیثوں کو نری زبان زوریوں سے مردود و منکر و واہیات بتائیں۔
(۱۰) حدیث ضعیف جس کے منکر و معلول ہونے کی امام بخاری وغیرہ اکابرائمہ نے تصریح کی محض بیگانہ تقریرون سے اسے صحیح بنائیں۔
(۱۱) ضعفِ حدیث کو ضعفِ رواۃ پر مقصور جانیں۔ ہنگام ثقہ رواۃ علل قوادح کو لاشیئ مانیں۔
(۱۲) معرفتِ رجال میں وہ جوش تمیز کہ امام اجل سلمٰین اعمش عظیم القدر جلیل الفخر تابعی مشہور ومعروف کو سلیمن بن ارقم ضعیف سمجھیں۔
(۱۳) خالد بن الحارث ثقہ ثبت کو خالد بن مخلد قطوانی کہیں۔
(۱۴) ولید بن مسلم ثقہ مشہور کو ولید بن قاسم بنالیں۔
(۱۵) مسئلہ تقوٰی طرق سے نرے غافل۔
(۱۶) راوی مجروح و مرجوع کے فرق بدیہی سے محض جاہل۔
(۱۷) متابع و مدار میں تمیز دو بھر صاف صاف متابعت ثقات، وہ بھی باقرب وجوہ پیش نظر، مگر بعض طرق میں بزعم شریف وقوع ضعیف سے حدیث سخیف۔
(۱۸) جا بجا طریق جلیلہ موضحۃ المعنی مشہور و متداول کتابوں خود صحیحین و سنن اربعہ میں موجود۔انہیں تک رسائی محال، باقی کتب سے جمع طرق و احاطہ الفاظ اور مبانی و معانی کے محققانہ لحاظ کی کیا مجال۔
(۱۹) تصحیح و تصنیف میں قولِ ائمہ جبھی مقبول کہ خود اُن کی تصانیف میں مذکور و منقول، ورنہ نقل ثقات مردود و مخذول۔
(۲۰) اجلہ رُواۃ بخاری و مسلم بے وجہ وجیہہ و دلیل ملزم کوئی مردود و خبیث کوئی متروک الحدیث مثل امام بشر بن بکر تنیسی و محمد بن فضیل بن غزوان کو فی وخالد بن مخلد ابوالہیثم بجلی، بھلا یہ تو بخاری و مسلم کے خاص خاص رجال بے مساغ و مجال پر فقط منہ آئے۔ اس سے بڑھ کر سنیئے کہ حضرت کی حدیث دانی نے صحاح ستّہ کے ردوابطال کو قواعد سبعہ و ضع فرمائے کہ جس راوی کو تقریب میں صدوق رمی بالتشیع یا صدوق متشیع یا ثقہ یغرب یا صدوق یخطیئ یا صدوق یہم یا صدوق لہ اوہام لکھا ہو وہ سب ضعیف و مردود الروایت و متروک الحدیث ہیں، حالانکہ باقی صحاح درکنار ، خود صحیحیں میں ان اقسام کے راوی دو چار نہیں، دس بیس نہیں سینکڑوں ہیں چھ قاعدے تو یہ ہوئے۔ جس سند میں کوئی راوی غیر منسوب واقع ہو۔ مثلاً حدثنا خالد عن شعبۃ عن سلیمن اسے برعایت قرب طبقہ و روایات مخرج جو ضعیف راوی اُس نام کا ملے رجماً با لغیب جزماً بالترتیب اس پر حمل کرلیجئے۔ اور ضعفِ حدیث و سقوط روایت کا حکم کردیجئے

مسلمانو! حضرت کے یہ قواعد سبعہ پیش نظر رکھ کر بخاری و مسلم سامنے لائیے اور جو جو حدیثیں ان مخترع محدثات پر رد ہوتی جائیں کاٹتے جائیے۔ اگر دونوں کتابیں آدھی تہائی بھی باقی رہ جائیں تو میرا ذمہ خدا نہ کرے کہ مقلدین ائمہ کا کوئی متوسط طالب علم بھی اتنا بوکھلایا ہو۔ معاذ اللہ جب ایک مسئلہ میں یہ کوتک تو تمام کلام کا کمال کہاں تک۔ العظمۃ اﷲ ! جب پرانے پرانے چوٹی کے سیانے جنہیں طائفہ بھر اپنی ناک مانے، اونچے پائے کا مجتہد جانے ، ان کی لیاقت کا یہ اندازہ کہ نری شیخی اور تین کانے، تو نئی امت چھٹ بھیوں کی جماعت کس گنتی شمار میں ہیں۔ کس شمار قطار میں ۔ لافی العیر ولا فی النفیر والعیاذ باللہ من شرالشرّ ( نہ عیر میں اور نہ ہی نفیر میں ( نہ تین میں نہ تیرہ میں) شریر کے شر سے اللہ تعالٰی کی پناہ ت) مرزا صاحب و شاہ صاحب کیا عیاذا باللہ ان جیسے بدعقل وعدیم الشعور تھے کہ اثبات احکام شریعت الہی و فہم احادیث رسالت پناہی صلوات اللہ تعالٰی و سلامہ علیہ کی باگ ایسے بے مہاروں بےخرد نابکاروں کے ہاتھ میں دیتے ۔ ان کا مطلب بھی وہی ہے کہ جو اس کا اہل ہو اسے عمل کی اجازت بلکہ ضرورت نہ کہ کو دن نااہل بکھاری ترمجی مسکوۃ کے ترجمے میں ہلدی کی گرہ پائیں اور پنساری بن جائیں یا بنگالی بھوپالی کسی مذہب کو اپنے زعم میں خلاف حدیث بتائیں تو اللہ عزوجل تقلید ائمہ حرام کرکے فرض فرمادے کہ بھوپالی بنگالی پر ایمان لے آئیں۔جانِ برادر یہ بودی تقلید تواب بھی رہی۔ ابوحنیفہ و محمد کی تو نہ ہوئی۔ بھوپالی بنگالی کی سہی۔ وائے بے انصافی کہ شاہ صاحب و مرزا صاحب کے کلام کے یہ معنی مانیں اور انہیں معاذا للہ دائرہ عقل سے خارج جانیں،
حالانکہ ان دونوں صاحبوں کے ہادی بالامرشد اعلٰی دونوں صاحبوں کے آقائے نعمت مولائے بیعت دونوں صاحبوں کے امام ربانی جناب شیخ مجدد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات جلد اول مکتوب ۳۱۲ میں فرماتے ہیں: مخدوما ! احادیث نبوی علی مصدرہا الصلوۃ والسلام دربابِ جواز اشارت سبابہ بسیار وارد شدہ اندو بعضے از روایات فقہیہ حنفیہ نیز دریں باب آمدہ وغیر ظاہر مذہب است، وآنچہ امام محمد شیبانی گفتہ کان رسول اللہ تعالٰی علیہ وسلم یشیرو نصنع کما یصنع النبی علیہ وعلٰی الہ الصلوۃ والسلام ثم قال ھذا قولی وقول ابی حنفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہماازروایات نوادر است نہ روایات اصول ، ہرگاہ در روایات معتبرہ حرمت اشارہ واقع شد باشد، وبرکراہت اشارتِ فتوٰی دادہ باشند، مامقلدان رانمی رسد کہ بمقضائے احادیث عمل نمودہ جرات دراشارت نمائیم مرتکبِ ایں امراز حنیفہ یا علمائے مجتہدین راعلم احادیث معروفہ جواز اشارت اثبات نمی آیدیا انگارد کہ اینہا بمقضاء آراء خود برخلافِ احادیث حکم کردہ اند، ہر دو شق فاسد است تجویز نہ کندآنرا مگر سفیہ یا معاند حسن ظن مابہ ایں اکابر آنست کہ تادلیل برایشاں ظاہر نشدہ است حکم بحرمت یا کراہت نہ کردہ اند، غایت ما فی الباب مارا علم بآں دلیل نیست، وایں معنے مستلزم قدح اکابر نیست اگر کسے گوید کہ ماعلم بخلاف آں دلیل داریم، گوئیم کہ علم مقلد دراثبات حل و حرمت معتبر نیست ، دریں باب ظن بہ مجتہد معتبراست احادیث را ایں اکابر بواسطہ قربِ عہد ووفور علم وحصول ورع و تقوی ازمادور افتادگاں بہتر مے دانستند، وصحت وسقم ونسخ وعدم نسخ آنہارا، بیشتر از مامی شناختند، البتہ وجہ موجہ داشتہ باشند درترک عمل بمقضائے احادیث علی صاحبہا الصلوۃ والسلام و آنچہ از امام اعظم منقول است کہ اگر حدیثے مخالف قول من بیابند برحدیث عمل نمائید مراد از اں حدیثے است کہ بحضرت امام نرسیدہ است و بنا برعدم علم ایں حدیث حکم بخلافِ آں فرمودہ است و احادیث اشارت ازاں قبیل نیست، اگر گویند کہ علمائے حنفیہ برجواز اشارت نیز فتوے دادہ اند بمقتضائے فتاوائے معارضہ بہر طرف عمل مجوز باشند گوئیم اگر تعارض درجواز وعدم جواز واقع شود ترجیح عدمِ جواز رااست ۔۱؂ ملتقطاً اے مخدومِ گرامی ! احادیثِ نبوی ( ان کے مصدر پر درود و سلام ہو) تشہد میں اشارہ سبابہ کے جواز کے باب میں بہت وارد ہوئی ہیں اور اس باب میں فقہ حنفی کی بھی بعض روایات آئی ہیں جو کہ ظاہر مذہب کے غیر ہیں۔ اور وہ جو امام محمد شیبانی نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انگلی شہادت سے اشارہ کرتے تھے اور ہم بھی اسی طرح اشارہ کرتے ہیں جس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کرتے تھے۔ پھر امام محمد نے فرمایا یہی میرا قول اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا قول ہے روایات نوادر میں سے ہے نہ روایات اصول میں سے، جب کہ معتبر روایات میں اشارے کی حرمت واقع ہوچکی ہے اور اشا رےکے مکروہ ہونےپر فتوی دیا گیاہے۔ ہم مقلدوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ حدیث کے متقضا کے مطابق عمل کرکے اشارہ کرنے کی جرات کریں ۔حنفیہ میں سے اشارہ سبابہ کا ارتکاب کرنے والا دو حال سے خالی نہیں، یا تو ان علمائے مجتہدین کے لیے جوازِ اشارہ میں معروف احادیث کا علم تسلیم نہیں کرتا یا ا ن کو ان احادیث کا عالم جانتا ہے۔ لیکن ان بزرگوں کے لیے ان احادیث کے مطابق عمل جائز تسلیم نہیں کرتا۔ اور خیال یہ کرتا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے خیالات کے مطابق احادیث کے خلاف حرمت اور کراہت کا حکم صادر فرمایا ہے یہ دونوں شقیں فاسد ہیں انہیں وہی جائز قرار دے گا جو بے وقوف ہو یا ضدی، ان اکابر کے ساتھ ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ اس باب میں جب تک ان پر حرمت یا کراہت کی دلیل ظاہر نہیں ہوئی حرمت یا کراہت کا انہوں نے حکم نہیں لگایا۔ زیادہ سے زیادہ اس باب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس دلیل کا علم نہیں ہے اور یہ معنی اکابر میں کسی عیب کو مستلزم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ہم اس دلیل کے خلاف علم رکھتے ہیں تو کہیں گےکہ حلت وحرمت کے اثبات میں مقلد کا علم معتبر نہیں ہے بلکہ اس باب میں مجتہد کے ظن کا اعتبار ہے ،یہ اکابر حدیث کو قرب زمانہ نبوی ،زیادتی علم ،اور ورع وتقوی سے آراستہ ہونے کی وجہ سے ہم دور افتادوں سے بہتر جانتے تھے ،اور احادیث کی صحت وسقم اور ان کے نسخ وعدم نسخ کو ہم سے زیادہ پہچانتے تھے انھیں ضرور کوئی معتبر دلیل ملی ہوگی تب ہی انھوں احادیث علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے مقتضی کے مطابق عمل نہیں کیا ،اوروہ جو امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی حدیث میرے قول کے مخالف پاؤ تو میرے قول کو چھوڑ دو اور حدیث پر عمل کرو تو اس حدیث سے مراد وہ حدیث ہے جو حضرت امام کو نہ پہنچی ہو۔ اور اس حدیث کو نہ جاننے کی بنا پر اس کے خلاف حکم فرمایا ہے اور اشارے کی حدیث اس قبیلہ سے نہیں۔ اگر کہیں کہ علمائے حنفیہ نے جوازِ اشارہ کا فتوٰی دیا ہے۔ لہذا متعارض فتاوٰی کے مطابق جس بات پر بھی عمل کرلیا جائے جائز ہے۔ ہم کہتےہیں کہ اگر جواز و عدم جواز اور حلت و حرمت میں تعارض واقع ہو تو تعارض کی صورت میں ترجیح عدم جواز اور جانب حرمت کی ہوتی ہے اھ التقاط (ت)

( ۱ ؎ مکتوبات امام ربّانی مکتوب ۳۱۲ نولکشور ۱/ ۴۴۸ تا ۴۵۱ )

نیز جناب موصوف کے رسالہ مبد و معاد سے منقول ہے: مدّتے آرزوئے آں داشت کہ وجہے پیدا شود در مذہب حنفی تادرخلفِ امام قراءتِ فاتحہ نمودہ آید، امابواسطہ رعایت مذہب بے اختیار ترک قراء ت مے کرد  وایں ترک را از قبیل ریاضت مے شمرد، آخر الامر اللہ تعالی ببرکت رعایت مذہب کہ نقل از مذہب الحادست، حقیقت مذہب حنفی در ترکِ قراء ت ماموم ظاہر ساخت و قراء ت حکمی از قراء تِ حقیقی در نظرِ بصیرت زیبا تر نمود ۔۲؂ مجھے ایک عرصہ تک آرزو رہی کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی مذہب حنفی میں کوئی وجہ ظاہر ہوجائے، مگر بواسطہ رعایت مذہب بے اختیار ترک قراء ت کرتا رہا اور اس ترک کو ریاضت کے قبیلے سے شمار کرتا رہا۔ آخر اللہ تعالٰی نے رعایت مذہب کی برکت سے ( کیونکہ مذہب کی مخالفت الحاد ہے) مقتدی کی ترک قراء ت کے بارے میں مذہب حنفی کی حقانیت ظاہر فرمائی اور قراء ت حکمی کو نظر بصیرت میں قراء ت حقیقی سے خوب تر دکھایا(ت)
 
 (۲؂مبدا ومعاد )
 
ہاں صاحب! ان بزرگوں کے اقوال کی خبریں کہیے۔ ان بزرگوں کے بزرگ، بڑوں کے بڑے اماموں کے امام کیا کچھ فرمارہے ہیں، ادعائے باطل عمل بالحدیث پر کیا کیا بجلیاں توڑتے گھنگھور بادل گرمارہے ہیں۔
 
اوّلاً تصریحاً تسلیم فرمایا کہ التحیات میں انگلی اٹھانا سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بہت حدیثوں میں وارد ۔
ثانیاً وہ حدیثیں معروف و مشہور ہیں۔
ثالثاً  مذہب حنفی میں بھی اختلاف ہے۔ روایت نوادر میں خود امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اشارہ فرماتے تھے ہم بھی کریں گے۔
رابعاً  صاف یہ بھی فرمادیا کہ یہی قول امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے۔
خامساً  نہ فقط روایت بلکہ علمائے حنفیہ کا فتوٰی بھی دونوں طرف ہے۔ بااینہہ صرف اسی وجہ سے کہ روایاتِ اشارہ ظاہر الروایۃ نہیں، صاف صاف فرماتے ہیں کہ ہم مقلدوں کو جائز نہیں کہ حدیثوں پر عمل کرکے اشارے کی جرات کریں۔ جب ایسی سہل و نرم حالت میں حضرت امام ربانی صاحب کا یہ قاہر ارشاد ہے تو جہاں فتوائے حنفیہ مختلف نہ ہو۔ جہاں سرے سے اختلافِ روایت ہی نہ ہو وہاں خلافِ مذہب امام حدیث پر عمل کرنے کو کیا کچھ نہ فرمائیں گے۔
 
کیوں صاحبو! کیا انہیں کو شاہ ولی صاحب نے کہا تھا کہ کھلا احمق ہے، یا چھپا منافق، استغفرا للہ ، استغفر اﷲ ذرا تو شرماؤ، ذرا تو ڈرو، شاہ صاحب کی بزرگی سے حیا تو کرو۔ ان کی تو کیا مجال تھی کہ معاذ اللہ وہ جناب مجددیت مآب کی نسبت ایسا گمان مردود و نامحمود رکھتے وہ تو انہیں قطب الارشاد وہادی و مرشدو دافع بدعات جانتے ہیں اور ان کی تعظیم کو خدا کی تعظیم، ان کے شکر کو اللہ کا شکر مانتے ہیں کہ اپنے مکتوب ہفتم میں لکھتے ہیں: شیخ قطب ارشادایں دورہ است و بردست وے بسیارے از گمراہاں بادیہ صبیعت وبدعت خلاص شدہ اند، تعظیم شیخ تعظیم حضرت مدور ادوار ومکون کائنات است ، و شکر نعمت مفیض اوست۔۱؂ اعظم اﷲ تعالٰی لہ الاجور ۔ شیخ اس دور کے قطبِ ارشاد ہیں، ان کے ہاتھ پر تکبر و بدعت کی گمراہی میں مبتلا بہت سے افراد نے ہدایت پائی، شیخ کی تعظیم خالق کائنات کی تعظیم ہے اور شیخ کی نعمت کا شکر اس نعمت کو عطا کرنے والے اللہ کا شکر ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں عظیم اجر عطا فرمائے۔(ت)
 
 ( ۱ ؎ کلماتِ طیبات فصل چہارم درمکتوبات شاہ ولی اللہ دہلوی  مطبع مجتبائی دہلی  ص ۱۶۳ )
 
ہاں شاید میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کی چوٹ حضرت مجدد صاحب ہی پر ہے کہ معیار الحق میں لکھتے ہیں:
 آج کل کے بعض لوگ اسی تقلید معین کے التزام سے مشرک ہورہے ہیں کہ مقابل میں روایت کیدانی کے اگر حدیث صحیح پیش کرو تو نہیں مانتے۔ ۲ ؎
 
 (۲ ؎   معیار الحق   بحث تلفیق   مکتبہ نذیریہ چناب بلاک اقبال ٹاؤن لاہور  ص ۱۸۳ )
 
اسی مسئلہ اشارہ میں روایت کیدانی پیش کی جاتی ہے۔ جناب مجدد صاحب نے فتاوٰی غرائب و جامع الرموز وخزانۃ الروایات وغیرہا پیش کیں۔ وہ بات ایک ہی ہے۔ یعنی فقہی روایت کے مقابل حدیث نہ ماننا۔ اب دیکھ لیجئے حضرت مجدد کا روایت فقہی لانا اوراُن کے سبب صحیح حدیثوں پر عمل نہ فرمانا۔ اور میاں جی صاحب دہلوی کا بے دھڑک شرک کی جڑ جاننا۔ خدا ایسے شرک پسندوں کے سائے سے بچائے۔ خیر یہ تو میاں جی جانیں اور ان کا کام ،
 
کلامِ جناب مجدد صاحب کے فوائد سنیے: 
اوّل : بڑا بھاری فائدہ تو یہ ہوا۔
دوم : حضرت موصوف نے یہ بھی فرمادیا کہ اقوال امام کے مقابل ایسی معروف حدیثیں جیسی رفع یدین و قراء ت مقتدی وغیرہما میں آئیں کہ کسی طرح احادیث اشارہ سے اشتہار میں کم نہیں وہی پیش کرے گا جو نرا گاؤوی کودن بے عقل ہویا معاند مکابرہٹ دھرم کہ نہ وہ حدیثیں امام سے چھپ رہنے کی تھیں۔ نہ معاذ اللہ امام اپنی رائے سے حدیث کا خلاف کرنے والے، تو ضرور کسی دلیل قوی شرعی سے ان سے عمل نہ فرمایا۔
سوم : یہ بھی فرمادیا کہ ہمیں جواب احادیث معلوم ہوجانا کچھ ضرور نہیں۔ اس قدر اجمالاً جان لینا بس ہے کہ ہمارے عالموں کے پاس وجہ موجود ہوگی۔
چہارم : یہ بھی فرمادیا کہ ہمارے علم میں کسی مسئلہ مذہب پر دلیل نہ ہونا درکناراگر صراحۃً اس کے خلاف پر ہمیں دلیل معلوم ہو جب بھی ہمارا علم کچھ معتبر نہیں اُسی مسئلہ مذہب پر عمل رہے گا۔
پنجم :  یہ بھی فرمادیا کہ ہمارے علمائے سلف رضی اللہ تعالٰی عنہم کو جیسا علمِ حدیث تھا جیسا وہ صحیح و ضعیف و منسوخ و ناسخ پہچانتے تھے بعد کے لوگ ان کی برابری نہیں کرسکتے کہ نہ انہیں ویسا علم نہ یہ اس قدر زمانہ رسالت سے قریب، جب حضرت مجدد اپنے زمانہ کو ایسا فرمائیں۔تو اب تو اس پر بھی تین سو برس گزر گئے۔ آج کل کے الٹے سیدھے چند حرف پڑھنے والے کیا برابری ائمہ کی لیاقت رکھتے ہیں۔
ششم : اس شرط کی بھی تصریح فرمادی کہ امام کے وہ اقوال منقولہ سوال خاص اُسی حدیث کے باب میں ہیں جو امام کو نہ پہنچی، اور اس سے مخالف بربنائے عدمِ اطلاع ہوئی نہ یہ کہ اصول مذہب پر وہ بوجوہ مذکورہ کسی وجہ سے مرجوع یا مؤول یا متروک العمل تھی کہ یوں تو بحالِ اطلاع بھی مخالفت ہوتی۔ کمالایخفٰی  (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت)
 
ہفتم : جناب مجدد صاحب کی شان علم سے تو ان حضرات کو بھی انکار نہ ہوگا۔ یہی مرزا جانجاناں صاحب جنہیں بزرگ مان کر ان کے کلام سے استناد کیا گیا۔جناب موضوع کوقابل اجتہاد خیال کرتے اور اپنے ملفوظ میں لکھتے ہیں: عرض کردم یارسول اللہ حضرت درحق مجدد الف ثانی چہ فرمایند؟ فرمودند مثل ایشاں در امتِ من دیگر کیست  ۱ ؎ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آپ حضور حضرت مجدد الف ثانی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میری امت میں اس کی مثل دوسرا کون ہے۔(ت)
 
 ( ۱ ؎ کلمات طیبات ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں   مطبع مجتبائی دہلی ص ۷۷ )
 
جب ایسے بزرگان بزرگ فرمائیں کہ ہم مقلدوں کو قولِ امام کے خلاف حدیثوں پر عمل جائز ، جو اس کا مرتکب ہو وہ احمق بے ہوش یا ناحق باطلل کوش ہے۔ تو پھر آج کے جھوٹے مدعی کسی گنتی میں رہے۔
 
یہ سات فائدے عبارت مکتوبات میں تھے۔
 
ہشتم : اگرچہ قول امام کی حقانیت اپنے خیال میں نہ آئے مگر عمل اسی پر کرنا لازم یہی اللہ عزوجل کو پسند موجب برکات ہے۔ دیکھو ایک مدت تک مسئلہ قراء ت مقتدی میں حقانیت مذہب حنفی جناب مجدد صاحب پر ظاہر نہ تھی ، قراء ت کرنے کو دل چاہا مگر بپاس مذہب نہ کرسکے، یہی ڈھونڈتے رہے کہ خود حنفی مذہب میں کوئی راہ جواز کی ملے۔
نہم: اس سوال کا بھی صاف صاف جواب دے دیا کہ ایک مسئلہ بھی اگر خلاف امام کیا اگرچہ اسی بنا پر کہ اس میں حقانیت مذہب ظاہرنہ ہوئی تاہم مذہب سے خارج ہوجائے گا۔اسے نقل ازمذہب فرماتے ہیں۔
دہم : یہ سخت اشد وقاہر حکم دیکھئے جو ایسا کرے وہ ملحد ہے۔ آپ حضرات اپنے ایمان میں جو مناسب جانیں مانیں، چاہے حضرت مجدد صاحب کے نزدیک معاذ اللہ تعالی شاہ صاحب و مرزا صاحب کو سفید و معاند و ملحد قرار دیں، چاہے ان دونوں صاحب کے طور پر حضرت مجدد کو مدعی باطل و مخالف امام اور عیاذاً  باللہ کھلا حق یا چھپا منافق ٹھہرائیں
 
ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
 
 ( گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق نہیں مگر بلندی و عظمت والے معبود کی توفیق سے ۔(ت) لاجرم یہ دونوں صاحب اسی صحتِ عملی میں کلام کررہے ہیں جس پر اطلاع فقہائے اہل نظر و اجتہاد فی المذہب کا کام، اب نہ یہ کلام باہم متخالف ، نہ ان میں کوئی حرف ہمارے مخالف   ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق ۔  (یوں ہی تحقیق ہونی چاہیے اور اللہ تعالٰی ہی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔(ت) یہ محبث بہت طویل الاذیال تھی جس میں بسطِ کلام کو دفتر ضخیم لکھا جاتا ۔ مگر ماقل وکفٰی خیر مما کثر و الہی ( جو مختصر اور جامع ہو وہ اس سے بہتر ہے جو کثیر اور لغو ہو) حضرات ناظرین خاص مبحث مسئول عنہ پر نظررکھیں۔ خروج عن المبحث سے کہ صنیع شنیع جہلہ وعاجزین ہے حذر رکھیں۔
 
ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین۔۱؂ ، وصلی اللہ تعالٰی علی سید المرسلین محمد والہ وصحبہ اجمعین۔
 
اے ہمارے رب ! ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر، اور تیر افیصلہ سب سے بہتر ہے، اور درود نازل فرما اللہ تعالٰی رسول کے سردار محمد مصطفے پر اور آپ کی تمام آل و اصحاب پر (ت)
 
 ( ۱ ؎  القرآن الکریم ۷/ ۸۹ )
 
مناسب کہ ان مختصر سطور کو بلحاظ مضامین   الفضل الموھبی فی معنی اذا صح الحدیث فھو مذہبی  (اللہ تعالٰی کا عطا کردہ فضل اس قول – (امام اعظم) کے معنی میں کہ جب کوئی حدیث صحت کو پہنچے تو وہی میرا مذہب ہے۔ت) سے مسمّٰی کیجئے۔ اور بنظر تاریخ اعزالنکات بجواب سوال ارکات  ( مضبوط ترین نکات، علاقہ ارکاٹ سے بھیجے ہوئے سوال کے جواب میں ت۔) لقب دیجئے۔
 
ربنا تقبل منّا اِنک انت السمیع العلیم۔ ۲؎   آمین ۔ والحمدﷲ رب العلمین واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم اے ہمارے رب ! ہم سے قبول فرما، بے شک تو سُننے والا جاننے والا ہے، آمین اور سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے وہ پاک اور بلند ہے۔ اس کی بزرگی جلیل اور اس کا علم تام مستحکم ہے۔(ت)
 
 ( ۲ ؎  القرآن الکریم ۲/ ۱۲۷ )
 
کتب عبدہ المذنب  احمد رضا البریلوی
عفی عنہ بمحمدن المصطفی النبی الامی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
محمدی سنی حنفی قادری
عبدالمصطفی احمد رضا خان