اسلامی مہینوں کے اعمال

ربیع الاول

اسلامی تقویم کے اعتبار سے یہ تیسرا مہینہ ہے۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت ربیع کی فصل تھی ۔

 اگر چہ یہ ایک عام سا مہینہ تھا مگر اس کے فضائل اور سعادتوں کو نقطہ عروج دینے کے لئے قادر مطلق نے اس مہینہ میں فخر موجودات کا باعث وجہہ وجود کائنات سید المرسلیں خاتم النبیین سرکار دو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا

جیسا کہ اللہ رب العزت عز وجل کا ارشاد عالیشان کلام اللہ شریف میں ہے کہ اے محبوب اگر ہم نے تمہیں پیدا نہ فرمانا ہوتا تو ہم اس کا ئنات کو پیدا ہی نہ فرماتے ۔ تو اس آیہ شریفہ کی تکمیل یعنی پیدائش محبوب رب العالمین اسی بابرکت اور با سعادت مہینہ میں ہوئی۔ عام طور پر رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت با سعادت 12 ربیع الاول بمطابق اپریل 571ء تسلیم کی جاتی ہے جبکہ تاریخ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ محسن انسانیت مصنف مولانا نعیم صدیقی صفحہ نمبر 603 پر اور رحمۃ اللعالمین مصنف مولانا قاضی محمد سلمان منصور پوری جلد اول کے صفحہ نمبر 21 پر 9 ربیع الاول 1 سنہ عام الفیل ( واقعہ اصحاب فیل سے پچاس روز بعد ) بمطابق 22 اپریل 571 حکیم جیٹھ سمت 628 بکرمی بوقت صبح صادق یعنی طلوع آفتاب سے پہلے پیدا ہوئے۔اس کے علاوہ جناب سید امیر علی صاحب نے 29 اگست 510ء جبکہ یورپ کے ایک مشہور مورخ ہری ویل 20 اگست 570ء لکھتا ہے۔ علامہ شبلی نے اپنی کتاب سیرۃ النبی حصہ اول کے صفحہ نمبر 171 پر مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کی بنا پر تاریخ ولادت 20 اپریل 571ء لکھی ہے۔

ولادت با سعادت سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ہر چہار جانب خوشیاں منائی گئیں ۔ آپ کے خاندان میں بھی حد درجہ خوشیاں منائی گئیں وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ کے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کا انتقال چند ماہ قبل ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب آپ کی ولادت کی خبر اہل خاندان کو ملی تو وہ سبھی لوگ بڑے ہی مسرور ہوئے۔ بڑی مشہور و معروف روایت ہے کہ جب یہ خبر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی چا ابولہب کو ملی تو وہ بھی بے حد مسرور ہوا۔ اگر چہ یہ شخص بعد میں نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کے باعث مردود ہو گیا اور اس کی بیوی بھی۔ ان دونوں کے بارے میں کلام اللہ شریف میں سورۃ ابی لہب بھی نازل ہوئی۔ مگر اس وقت وہ اپنے حقیقی بھتیجے کی ولادت کی خبر سن کر بے خود ہو گیا اور اس کی جس کنیز نے اس کو یہ مبارک خبر سنائی تھی اس کو اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے کہا کہ جا میں نے تجھے آزاد کیا۔ جب ابولہب حالت کفر میں مر گیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور اس کا حال احوال پوچھا۔ اس نے بتلایا کہ کفر کی وجہ سے میں دوزخ کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں ۔ ہاں مگر یہ بات ضروری ہے کہ ہر پیر کی رات میں کچھ تخفیف ہو جایا کرتی ہے اور یہ بھی کہ میں نے اپنی جن انگلیوں سے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا ان انگلیوں سے کبھی کبھار پانی آتا ہے جس کو چوس لیتا ہوں۔ بس عذاب میں اس قدر تخفیف ہو جاتی ہے۔ یقینی بات ہے کہ اگر وہ اپنے ہی حقیقی بھتیجے کی قدر و منزلت سے انکار نہ کرتا تو پھر اس کا ٹھکانہ بھی جنت الفردس کے حسین باغات ہوتے ۔ اگر محض انگلیوں سے اشارہ کرنے سے عذاب میں قدرے تخفیف ہو گئی ہے تو اس کا بھلا کیا مقام ہو گا جو اپنی پوری زندگی میلاد مصطفیٰ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم عقیدت و احترام سے مناتا ہے۔ مگر اس میں کوئی شک و شبہ ہرگز نہیں ہے کہ میلاد کی برکات ہر کسی کو تو نصیب نہیں ہو سکتیں اس کے لئے اپنے اندر عشق مصطفیٰ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ مشکوة شریف صفحہ نمبر 513 پر درج ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی بد باطن شخص نے آپ کے نسب کے بارہ میں گستاخی کی ہے تو نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم منبر شریف پر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں، اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو ان سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ بنائے تو ان میں مجھے بہتر بنایا۔ پھر ان کے قبیلے بنائے تو مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں پیدا فرمایا۔ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے ان میں سب سے بہتر گھرانہ میں پیدا فرمایا۔ میں دنیا میں ذات، قبیلہ اور گھرانہ کے اعتبار سے سب سے بہتر و افضل ہوں ۔ میلاد شریف پر بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے تلاوت کلام اللہ شریف ہوتی ہے پھر ثناء خوان حمد باری تعالی پتے شریف ہوتی ہے اور اس کے بعد نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اب بھلا کوئی بتائے کہ یہ بدعت کس طرح سے قرار دی جا سکتی ہے۔ اگر تمہارا کوئی بزرگ اس دنیا سے گزر جائے تو تم ہر سال اس کی یاد مناتے ہو ہم نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس کا جواز لاؤ۔ ارے بھائی ہم تو رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں جس کو تم بدعت کہہ کر اپنے لئے گناہ کا سامان پیدا کرتے ہو

ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ ربیع الاول کے بابرکت مہینہ میں درود شریف۔ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔

نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کا مہینہ بھی اور وصال پاک کا بھی مہینہ ہونے کی وجہ سے ماہ ربیع الاول کے فضائل و درجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ بزرگوں کا ارشاد ہے کہ یکم ربیع الاول تا 12 ربیع الاول روزانہ ہیں رکعت نوافل ادا کرنے والوں کو زیارت نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوتی ہے اور اس طرح عمل کرنے والوں کو خواب میں جنت کی بشارت مل جاتی ہے۔ ترکیب یوں بیان کی گئی ہے کہ ہر رکعت میں اکیس اکیس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور جب رکعتیں تمام ادا کرلے تو ان کا ثواب حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی روح اقدس کو ہدیہ کرنے کے بعد تمام صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، صلحائے امت اور اولیائے کرام کی ارواح مقدسہ کو بھی ہدیہ کرے۔ اگر میں روز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو بارہ روز میں دو تین مرتبہ ہی پڑھ لیا کرے۔ 

فضائل شہود میں کتاب الاواراد میں رقم ہے کہ ” جب ربیع الاول شریف کا مبارک چاند نظر آئے تو اس رات کو سولہ رکعت نوافل ادا کریں۔ اس کی ترکیب یوں بیان کی گئی ہے کہ دو دو رکعت کر کے ادا کریں اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھیں ۔ جب تمام رکعتوں کو ادا کر لیں تو پھر اس درود شریف کو ایک ہزار مرتبہ پڑھیں۔

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ نِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ

اسی طرح متواتر 12 روز تک عمل کریں یعنی حکم ربیع الاول تا بارہ ربیع الاول ۔ ایسا عمل کرنے والوں کو یقیناً زیات رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو گی ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد اس کو پڑھ کر سو جانا چاہئے۔

زیارت رسول کریم رؤف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے لئے بزرگوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس ماہ مقدس کی تمام تاریخوں میں جو بھی مرد وزن  درود ابراھیمی کو ایک ہزار ایک سو پچیس مرتبہ بعد از نماز عشاء پڑھ کر سو رہے گا اس کو خواب میں ضرور بضرور زیارت ہو گی۔ 

ایک روایت میں اس طرح آتا ہے کہ اگر کوئی بھی مرد و زن اس ایک مہینہ میں درج ذیل درود شریف کو سوا لاکھ مرتبہ پڑھے گا تو یقینا اس کو حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی زیارت مقدسہ نصیب ہو گی۔

الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ

بلا شبہ میلاد مصطفیٰ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حد درجہ فضیلتیں ہیں اور یہ محض نعرہ بازی یا دکھلاوے سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ ان فضیلتوں اور سعادتوں کو حاصل کرنے کے لئے بندے کو اپنے دل میں عشق مصطفیٰ کو اجاگر کرنا پڑتا ہے۔ تمام تر بزرگ اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک دل میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی محبت موجزن نہ ہو سعادت و فضیلت کا حصول ناممکن ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح رزق حرام کھانے والے کی دعا کو بارگاہ ربوبیت میں قبولیت حاصل نہیں ہوتی اسی طرح عبادات کی قبولیت بھی حصول رزق حلال کے ساتھ مشروط ہے۔