تصوف, حقوق العباد کے مسائل, عقائد اہل سنت, گناہ کبیرہ کا بیان

قطع تعلق کروانے والے پیر کا حکم کیا فرماتے ہیں

سوال

علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں میری بیوی میکے چلی گئی ۔ جب میں بیوی کو لینے کے لیے گیا تو میری زوجہ کو سسرال بھجوانے کے لیے ایک پیر نے کچھ شرائط عائد کہیں ، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے : میں خود اس پیر کا احترام کروں اور اسکی بیعت بھی کروں ، نیز میں اپنی زوجہ کو کلی طور پر پیر کی تحویل میں دے دوں
اور مذکورہ شرائط کو تحریری طور پر قبول کروں ۔ اب آپ سے عرض ہے کہ میرے ساس و سسر اور اس نام نہاد پیر کے لیے کیا حکم ہے ؟ اور پتہ چلا ہے کہ میری زوجہ بھی یہی چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ میں والدین کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ، مجبور ہوں ۔ تو ایسی بیوی کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا نکاح ہونے کے بعد اس کو خاوند کا جائز حکم ماننا چاہیے ؟ یا اپنے والدین اور پیر کا حکم مانا چاہیے ؟

جواب

شادی کے بعد بیوی کو شوہر کا ہر ایسا حکم ماننا ضروری کیا ہے جو کہ شریعت کے خلاف نہ ہو ۔ ایسے درندہ صفت پیر سے ملنے کو منع کرنا ہر شوہر پر ضروری ہے ۔ اگر شوہر منع نہیں کرتا اور اسی طرح ہر وہ شخص جو اپنی بیوی ، بیٹی یا بہن وغیرہ کو ایسے پیر کے پاس جانے کی اجازت دیتا ہے ، اس کو شریعت میں ” دیوث “ کہتے ہیں ، احادیث مبارکہ میں ایسے شخص کی سخت مذمت آئی ہے ۔ تمام لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسے پیروں کے پاس جانے سے روکیں ۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 92