ہیپناسس

پوسٹ ہیپناٹک سجیشن

(ہدایت دوران تنویم)

پوسٹ ہینا تک سجیشن کا تعلق لا شعور سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم ہپناٹزم کے ذریعے مطلب براری کے لئے پوسٹ ہپناٹک سجییشن دیتے ہیں اس لئے اس کو واضح کر دیناضروری ہے۔پوسٹ ہپناٹک سجیشن کا مطلب معمول کو دوران ہپنا ٹزم ایسی ہدایت دیتا ہے جس پر معمول سے بعد میں عمل کروانا مقصود ہو جو ہدایت دوران ہیپناٹزم معمول کو دی جائے گی وہ بعد میں اس پر لازمی طور پر عمل پیرا ہو گا۔ اگر معمول سے کہا جائے کہ کل تم ٹھیک بارہ بجے فلاں جگہ جاؤ گے اور پھر جگا دیا جائے تو دوسرے دن مریض کا لاشعور اسے مجبور کرے گا کہ وہ ٹھیک بارہ بجے اس مخصوص جگہ پر جائے جس کی ہدایت اسے دی گئی تھی۔اسی طرح ہم امراض اور بری عادتوں کے علاج کے لئے پوسٹ ہینا تک سجیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ آخر انسان کا لاشعور ہیپناٹزم کا اثر ختم ہو جانے کے بعد عامل کی ہدایت پر عمل کرنے پر کیوں مجبور ہے۔اس رد عمل کو سمجھانے کے لئے کافی تفصیل کی ضرورت ہے اور بہت ساری ٹیکنیکل باتیں آجائیں گی تاہم آسان زبان میں مختصری تشریح پیش کی جارہی ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ شعور اور لاشعور کے درمیان ایک محتسب کھڑا رہتا ہے۔ یہ محتسب لا شعور تک کوئی ہدایت پہنچنے سے پہلے اس کا احتساب کرتا ہے۔اگر وہ ہدایت محتسب نے لاشعور کو پہنچاری تو پھر انسانی جسم میں اس کا ردعمل ہوتا ہے یا لاشعور انسانی جسم کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس ہدایت پر عمل کرے۔ مثلا کوئی شخص آپ کے پاس آتا ہے، اسے واپس لوٹنے کی جلدی ہے مگر آپ اس سے کہتے ہیں کہ وہ بیٹھ جائے۔ شعوری طور پر وہ جانا چاہتا ہے۔ بیٹھ جانے کی” یہ ہدایت لاشعور تک پہنچ جاتی ہے مگر اس ہدایت پر جسم عمل اس لئے نہیں کرتا کہ محتسب شعور کی ہدایت پر اس کی قوت عمل پر احتساب قائم کر دیتا ہے۔ آپ اگر مسلسل اصرار کرتے ہیں تو شعور مجبور ہو جاتا ہے یعنی وہ آدمی باوجود جلدی واپس لوٹنے کے ارادے کے آپ کے مسلسل اصرار کی بدولت ہتھیار ڈال دیتا ہے۔جیسے ہی شعوری ارادہ بدلا، محتسب لاشعور کی اس ہدایت کی گرفت ڈھیلی کر دیتا ہے اور لاشعور آپ کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جسم پر لاشعوری طور پرخواہشات کا ردعمل صرف اس وقت ہوتا ہے۔ جب محتسب اپنی گرفت ڈھیلی کر دیتا ہے۔ جب تک محتسب شعور کی ہدایت پر عمل کرتا ہوا درمیان میں کھڑا رہے گا۔ لاشعور اپنی خواہشات کی تکمیل کرانے میں دشواری محسوس کرے گا۔تاوقتیکہ وہ خواہشات اتنی شدت اختیار نہ کر جائیں کہ وہ محتسب پر حاوی ہو جائیں۔آپ کی زندگی میں کئی بار ایسا ہوا ہو گا کہ آپ نے کسی دوست کو خط لکھا۔ لفافہ بند کیا اور ڈاک کے سپرد کرنے کے لئے جیب میں رکھ لیا لیکن کچھ دنوں کے بعد آپ نے دیکھا کہ لفافہ آپ کی جیب ہی میں پڑا ہوا ہے۔آپ اسے معمولی سی بھول تصور کرتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں اور لفافہ ڈاک کے سپرد کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کی تحلیل نفسی کی جائے تو یہ راز ظاہر ہو گا کہ وہ بھول محض بھول نہ تھی بلکہ آپ کے لاشعور کی یہ خواہش تھی کہ آپ اپنے اس دوست سے رابطہ قائم نہ کریں۔ کیونکہ آپ کے لاشعور میں اس دوست کے خلاف کسی قسم کی نفرت موجود تھی جو شعوری طور پر آپ بھول چکے ہیں مگر آپ کا لاشعور نہیں بھولا تھا۔آپ کے شعور کی یہ خواہش تھی کہ آپ اسے خط لکھیں مگر آپ کا لاشعور اس تاک میں تھا کہ آپ خط نہ لکھ پائیں۔مگر راہ میں محتسب بھی تھا وہ لاشعور کی اس خواہش کی تکمیل کرنے میں جسم کو عمل نہ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔لاشعور اس تاک میں تھا کہ ایسا موقع ملے کہ وہ محتسب کے احتساب سے بچ کر آپ کے جسم کو اپنی خواہش کے لئے مجبور کردے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ نے لفافہ جیب میں ڈالا۔ لاشعور نے چوردروازے سے داخل ہو کر آپ کے شعور سے اس خط کو پوسٹ کرنے کی خواہش کو بھلا دیا۔جب کسی مخصوص فعل پر فوراََ عمل کرنے کے بجائے اگر آپ اس کو معرض التوا میں ڈال دیں تو پھر وہ التوا لاشعور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے تا آنکہ وہ دوبارہ شعور کو اس بات پر آمادہ نہ کرلے کہ آپ اس فعل پر عمل کریں۔یہاں آکر محتسب بھی بے بس ہو جاتا ہے۔محتسب کی وجہ سے لاشعور صرف شدید حالتوں میں ہی شعور اور جسم سے براہ راست حرکتیں کرواتا ہے۔ ورنہ عام طور پر وہ INDIRECT بالواسطہ حملہ کرتا ہے جیسا کہ اس نے خط کے سلسلے میں کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ سرے سے خط لکھنے ہی نہ دیتا۔ مگر یہاں شعوری خواہش اور اخلاقی تقاضے کا گٹھ جوڑ لاشعور کی راہ میں حائل تھا اس لئے لاشعور مجبور تھا کہ شکار کی تاک لگا کر بیٹھ جائے اور موقع ملتے ہی اپنی کارروائی کر ڈالے۔ اسی طرح ہم دن بھر میں سیکڑوں ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن کے متعلق ہمیں بعد میں سوچنا پڑتا ہے کہ ہم نے وہ کام کیوں کیے اور عام طور پر ہم اس کی وجہ تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ کام قطعی طور پر لاشعور کی خواہش پر ہوئے ہوتے ہیں اور جب تک لا شعور کی یہ خواہش شعور میں نہ آجائے اس وقت تک ہم اس کی وجہ معلوم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کئی دفعہ ہم کو لاشعور کی تکمیل خواہش پر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور ہم اپنے آپ سے کہہ اٹھتے ہیں “ہائے یہ میں نے کیا کیا ” یا ” یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ غیر ارادی حرکتیں ہمارے لاشعور کی خواہش کی تکمیل ہوتی ہیں۔اب ہم ہپناٹزم کے تحت دی جانے والی ہدایت کو لیتے ہیں۔ عام طور پر انسان جب گہری نیند سو جاتا ہے تو اس کا لاشعور قطعی طور پر نیند کے زیر اثر بے ہوش ہوتا ہے اور محتسب پوری طرح سے چوکنا رہتا ہے۔وہ شعور کا دروازہ بند کر لیتا ہے تاکہ باہر کی کوئی آواز شعور تک نہ پہنچے لیکن قدرتی نیند میں جب انسان کا تمام جسم مردے کی طرح پڑا ہوتا ہے تو محتسب یہ جانتا ہے کہ اب لا شعور اپنی کسی خواہش کی تکمیل جسم سے نہ کروا سکے گا چنانچہ وہ لاشعور کی خواہشات کا باہر نکلنے کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر مطمئن بیٹھ جاتا ہے اور اس طرح نیند کی حالت میں ان لاشعوری خواہشات کی تکمیل خوابوں کے ذریعے ہونے دیتا ہے۔ وہ خواہشات جو عام طور پر غیر آسودہ رہتی ہیں، نیند میں خوابوں کی شکل میں تکمیل پا جاتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی محتسب کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر لا شعور بغیر شعور کو چھیڑے ہوئے جسم سے اپنی ہدایت کے مطابق عمل کروانا بھی شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح انسان نیند میں چلتا ہے۔ وہ ادھر ادھر گھومتا ہے۔ باغ میں جاتا ہے ، سڑکوں پر گھومتا ہے اور بستر پر آکر لیٹ جاتا ہے مگر شعوری طور پر وہ سوتا ہی رہتا ہے۔ جاگنے پر اس کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ وہ کہاں کہاں گیا تھا۔ ہپناٹزم میں ہم شعور کو مصنوعی نیند سلا دیتے ہیں ہم قطعی طور پر اسے نیند نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ صحیح لفظ TRANS ہے۔ دوسری طرف تنویمی نیند میں انسان کا لاشعور اور محتسب بھی کافی

حد تک عالم غنودگی میں چلا جاتا ہے۔اس طرح تنویمی نیند میں انسان کا لاشعور براہ راست سنتا اور عمل کرتا ہے۔اگر عامل اس سے کہے گا کہ بیٹھ جاؤ تو وہ فورا بیٹھ جائے گا کیونکہ راستے میں تو نہ شعور ہے نہ محتسب مزاحمت کرتا ہے۔خیال رہے کہ محتسب بالکل بے ہوش نہیں ہوتا بلکہ محض معمولی غنودگی میں ہوتا ہے چنانچہ جب آپ معمول سے ہپناٹزم کے دوران کہتے ہیں کہ کل تم ٹھیک دو بجے فلاں ہوٹل میں آؤ گے تو لا شعور اس ہدایت کو بلااحتساب براہ راست مکمل طور پر سنتا ہے اور اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔چونکہ ہدایت اسے براہ راست ملی تھی اس لئے وہ اس سے گہرے طور پر متاثر ہوتا ہے۔اسی بنا پر ہپناٹزم کے دوران انسان کے احساسات بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر ہم دوران ہپنا ٹزم معمول کا ہاتھ آگ پر رکھ دیں تو اسے آگ کی گرمی یا جلن کا قطعی احساس نہ ہو گا حالانکہ آگ کا کام جلاتا ہے مگر معمول حالت تقویم میں اس جلن کو قطعی محسوس نہ کرے گا۔ آگ سے جلنے کا جسمانی ردعمل تو ضرور ہو گا۔ یعنی وہاں آبلہ پڑ سکتا ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ آپ نے اکثر آگ پر ننگے پاؤں چلنے والوں کے بارے میں سنا ہو گا جو کوئی درد یا تکلیف محسوس کیے بغیر آگ پر سے گزر جاتے ہیں اور عموما آبلے بھی نہیں پڑتے۔ درحقیقت وہ عارضی طور پر ہپناٹائز ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب تو ہپناٹزم کے دوران میں ہوتا ہے یعنی حالت تنویم میں۔ مگر جب معمول جاگ اٹھتا ہے اور دوسرے دن کے لئے ہدایت حاصل کر لیتا ہے تو پھر کیا

وجہ ہے کہ اس کا محتسب اور شعور دونوں جاگنے کے بعد اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ حالانکہ محتسب کو چاہئے کہ اسے دوسرے دن کے لئے دی ہوئی ہدایت پر عمل نہ کرنے دے۔ در اصل جو ہدایت لاشعور کو براہ راست ملتی ہے وہ بہت ہی متاثر کن ہوتی ہے۔ اس کا اثر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی شخص کسی خاص فعل کا پختہ ارادہ کرلے تو پھر وہ اس ارادے پر ہر صورت میں عمل کرتا ہے۔در حقیقت ہم کسی کو دوران ہپناٹزم کوئی ہدایت دیتے ہیں تو وہ اس کے لئے ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ اس نے اس کام کا پکا ارادہ کر لیا ہو کیونکہ اس کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ ہدایت کسی دوسرے نے دی تھی۔یعنی وہ اس کام پر عمل کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ وہ کسی اور کی ہدایت پر عمل کر رہا ہے بلکہ اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا اپنا ارادہ ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے معمول سے کہیں کہ کل تم ٹھیک 2 بجے فلاں مکان میں جا کر چوری کرو گے تو اول تو چوری کی ہدایت سنتے ہی وہ محتسب جو حالت غنودگی میں تھا چونک اٹھے گا اور اس طرح اس ہدایت کے براہ راست لا شعور تک پہنچنے میں حائل ہو جائے گا اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی دوسرے دن وہ شخص اس مکان تک تو ضرور چلا جائے گا مگر چوری کا ارادہ مکمل نہ کر سکے گا کیونکہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، آپ معمول سے کوئی ایسا کام نہیں کروا سکتے جو اس کے اخلاقی نقطہ نظر کے خلاف ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے معمول سے یہ کہیں کہ تم سگریٹ نہیں پیو گے کیونکہ سگریٹ سے تمہیں ربر کی بو آئے گی تو جاگنے پر اگر وہ سگریٹ سلگائے گا تو اسے ربر کے جلنے کی بو آئے گی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ ہیپائزم پر عمل کرنے سے پہلے معمول کے امیجی نیشن (تصویر) کو ابھارتے ہیں، یہ اس کا امیجی نیشن ہی ہوتا ہے۔ یعنی امیجی نیشن سے پہلے تو آپ خود معمول کو امیجن کرنے کے لئے کہتے ہیں مگر ہپناٹزم کے بعد معمول از خود ہی تصور کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس سے حالت تنویم میں کہا گیا تھا۔اس طرح وہ سگریٹ پینے کی عادت سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔لیکن اگر وہ عامل سے اس بات پر بضد ہو کہ وہ ہرگز

سگریٹ نہیں چھوڑے گا تو ہپناٹسٹ کی سجیشن کا اثر عارضی ہو گا اور معمول اس عادت سے چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ پوسٹ ہپناٹک سجیشن کا استعمال بہت ہی احتیاط سے کرنا چاہئے کیونکہ اگر آپ نے قدرے بے پروائی سے اس کا استعمال کیا تو مضر نتائج کا اندیشہ ہے۔ مثلا ایک شخص آپ کے پاس پیٹ کے درد کی شکایت لے کر آتا ہے۔ آپ اس کو ہپنا ٹائز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہیں درد محسوس نہ ہو گا اب تم اچھے ہو گئے ہو اب تم درد محسوس نہیں کرو گے۔جاگنے پر مریض درد محسوس نہ کرے گا۔ لیکن اگر اس کے پیٹ کا درد اپنڈیکس کی وجہ سے ہو اور اپنڈکس میں سوجن پیدا ہو جائے اور غذا سڑانڈ پیدا کر دے

تو زہر پھیل سکتا ہے۔یہ درد قدرت کی جانب سے تنبیہہ ہے کہ وہ اس کا علاج کرے۔ ایسے مریض کے لئے بسا اوقات آپریشن لازمی ہے۔ ہپنا ٹزم سے اس کے درد کی شکایت تو دور ہو جائے گی مگر اپنڈیکس میں پھنسی ہوئی غذا ویسے ہی رہے گی۔اس طرح زہر پھیلنے اور مریض کے جاں بحق ہونے کا اندیشہ باقی رہے گا۔ یہی وجہ ہے امراض کے علاج کے لئے ڈاکٹری مطالعہ بے حد ضروری ہو جاتا ہے تاکہ عامل کو اس بات کا احساس رہے کہ وہ کسی ایسے مرض کا علاج تو نہیں کر رہا ہے جس کے لئے فوری طور پر عمل جراحی ضروری ہے۔اس لئے پوسٹ ہیتاتک سجیشن سے پہلے مریض کے علالت کے مکمل حالات معلوم کرنا ضروری ہیں۔

عمل نمبرا:

آپ نے اگر سیاہ دھبے کا تجربہ حاصل کر لیا ہے تو عام طور پر یہ طریقہ بڑا کار گر ثابت ہوتا ہے۔ اس تجربے کی رو سے آپ معمول پر اپنی آنکھوں سے اثر ڈالیں لیکن یا درکھیے کہ آپ خود کبھی معمول کی آنکھوں میں نہ جھانکیں بلکہ اس کی ناک کے اوپری حصے پر یا ہے پر دونوں بھووں کے درمیان نظریں گاڑیں کیونکہ اگر آپ نے زیادہ دیر تک اس کی آنکھوں میں جھانکا اور اگر اتفاق سے معمول کی آنکھیں زیادہ دیر تک نہ جھپکنے کی عادی ہو ئیں اور اس اثنا میں آپ کی آنکھ جھپک گئی تو پھر خاطر خواہ اثر نہ ہو گا۔ معمول سے کہئے کہ وہ آپ کی آنکھوں میں جھانکتا رہے۔ اس صورت میں معمول آپ کی آنکھوں سے اثر قبول کرے گا۔ مگر آپ چونکہ اس کی آنکھوں میں نہیں جھانک رہے ہیں اس لئے آپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔آپ معمول کو آرام دہ کرسی پر بٹھا دیں اور خود اس کے قریب اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ اس سے کہیں کہ وہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دے آپ اس کی ناک کے اوپری حصے پر آنکھیں گاڑ دیں اور چند منٹ تک خاموش رہیں اور پھر بیشن دیناشروع کریں۔تمہاری آنکھوں میں تھکن پیدا ہو گئی ہےتمہاری آنکھوں میں نیند کے آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ اب تم زیادہ دیر تک میری آنکھوں میں نہیں جھانک سکتے (کچھ دیر بعد معمول

کی پلکیں جھپکنے لگیں گی اب آپ اس سے کہیں کہ تم آنکھیں بند کر لو۔ یہ کہہ کر آہستہ سے اس کی آنکھوں کو ہاتھ کے انگوٹھے سے بند کردیں۔ اس کے بعد پھر سجیشن دیں تمہارا جسم ڈھیلا پڑ رہا ہے، بالکل ڈھیلا،تمہارے اعضا ء ھیلے پڑرہے ہیں، وہ بھاری ہو رہے ہیں، تمہارے بازو شل ہو گئے ہیں، بالکل بے جان ہو گئے ہیں ، تم ان کو ہلا نہیں سکتے بالکل ہلا نہیں سکتے۔ کوشش کرو مگرو تم ان کو ہلا نہیں سکو گے۔” معمول کوشش کرے گا مگر اس کے بازو نہیں ہلیں گے۔ اب آپ کہیں اب کوشش چھوڑو۔سو جاؤ ۔ گہری اور میٹھی نیند. تم سو رہے ہو تم سوائے میرے کسی کی آواز نہیں سنو گے۔ تم صرف اس وقت جاگو گے جب میں جگاؤں گا۔جب میں حکم دوں گا تم نورا جاگ اٹھو گے۔ جب تم جا گو گے تو تمہاری طبیعت بہت خوش باش ہوگی اب تم سور ہے ہو ۔ تم سو گئے ہو اس کے بعد معمول کا بازو تھوڑا اوپر اٹھا کر چھوڑ دیں۔ اگر وہ بالکل بے جان ہو کر گر پڑے تو سمجھ لیں کہ معمول ہپناٹائز ہو چکا ہے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ اس کا بازو اس طرح نہیں گرا جس طرح کرنا چاہئے تھا تو اس کا مطلب ہے کہ معمول ابھی مکمل طور پر نہیں سویا ۔ اس کو پھر سجیشن دیں, تم گہری نیند سو رہے ہو تم سوائے میری آواز کے کسی کی آواز نہیں سنو گے۔ تم سوئے ہوئے ہو گرمی اور میٹھی نیند۔ نیند نیند۔ گرمی اور میٹھی نیند۔تم اس وقت تک نہیں جاگو گے جب تک کہ میں نہ جگاؤں۔ تمہارا جسم ڈھیلا ہو چکا ہے تم بالکل سو چکے ہو۔ اس کے بعد معمول کا بازو پھر اٹھا کر دیکھیں

اب وہ بالکل بے جان ہو گا۔

عمل نمبر ۲:

معمول کو ایک کوچ پر لٹا دیں۔ کوچ بستر کی طرح نہ ہو بلکہ دیوان کی طرح نیم استادہ ہو اس سے کہیں کہ وہ آرام سے لیٹ جائے۔ آپ اس کے سر کی طرف پیچھے کھڑے ہو جائیں اور اپنے ہاتھ میں کوئی چمکدار چیز پکڑ کر معمول کے سامنے کریں وہ چیز اس طرح پکڑیں کہ معمول کو ذرا آنکھیں اٹھا کر اوپر دیکھنا پڑے۔ اس کے بعد سجیشن شروع کریں۔ تم اس کو دیکھتے رہو۔ غور سے دیکھتے رہو۔ تمہاری آنکھوں میں تھکن پیدا ہو رہی ہے۔ تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، بھاری اور تھکی ہوئی۔ تم آنکھیں بند کرنا چاہتے ہوا اچھا آنکھیں بند کرلو۔ اگر معمول خود آنکھیں بند نہ کرے یا نہ کر سکے تو آہستہ سے آپ خود اس کی آنکھیں بند کر دیں۔ تمہارا جسم ڈھیلا ہو رہا ہے بالکل ڈھیلا۔ اس کے بعد آپ معمول کا ایک بازو اوپر اٹھا کر اپنے ہاتھ میں تھام لیں۔ تمہارا بازو سخت ہو رہا ہے، پتھر کیطرح سخت بہت سخت تم اس کو نیچے نہیں کر سکتے یہ ہمیں رکا رہے گا۔ تم اس کو ہلا بھی نہیں سکو گے۔ یہ ہمیں رکا رہے گا جب تک میں نہ کہوں۔ یہ بالکل اکثر گیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ سے اس کا بازو چھوڑ دیں۔ یہو وہیں رکا رہے گا۔ اگر وہ وہیں رکا ر ہے تو آپ اس سے کہہ سکتے ہیں اب تم اس کو نیچے کر سکتے ہو۔ اس کے بعد پکڑ کر خود نیچے کردیں اور سجیشن دیں۔ تم سو رہے ہو گہری اور میٹھی نیند ۔ تم سوائے میرے کسی کی آواز نہیں سنو گے۔ تم صرف اس وقت جاگ سکتے ہو جب میں جگاؤں گا اور جب تم جا گو گے تمہاری طبیعت بہت خوش باش ہو گی ۔ تم سو رہے ہو گہری اور میٹھی نیند معمول سو چکا ہوگا۔

عمل نمبر 3:

یہ طریقہ گنتی کا ہے اور عموما اس وقت کارگر ہوتا ہے جب معمول پر دوسرے طریقے کارگر نہ ہوئے ہوں۔ اس طریقے سے عام طور پر گہری غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ معمول کو آرام دہ کرسی پر بٹھا دیں۔ اس سے کہیں کہ وہ آپ کی نظروں سے نظریں ملائے بیٹھا رہے اور آپ اس کی ناک کے اوپری حصے پر نظریں گاڑ دیں۔ اس کے بعد اس سے کہیں کہ میں گنتی گنوں گا اور تم ہر نمبر پر اپنی آنکھیں جھپکو گے اس کے بعد آپ آہستہ آہستہ گفتی گئیں۔ عموما دس تک گنتی گننے کے بعد آپ کا معمول تھکن محسوس کرے گا اور اس کو آنکھیں کھولنے اور بند کرنے میں دشواری محسوس ہوگی۔ آپ پانچ اور گئیں اور اس سے کہیں کہ جب آپ میں تک گنتی پوری کر لیں گے تو وہ آنکھیں نہ کھول سکے گا۔ تمہاری آنکھیں بھاری ہو جائیں گی۔ تم ان کو کھول نہ سکو گے۔ وہ بند محسوس ہوں گی اس کے بعد آپ میں تک گنتی پوری کرلیں۔ اول تو معمول خود ہی آنکھیں بند کرلے گا۔ اگر وہ زبردستی کھول بھی لے تو آپ اپنے ہاتھ سے بند کر دیں اور کہیں۔ اب تمہاری آنکھیں تھک چکی ہیں اب تم آنکھیں نہیں کھول سکتے۔ کھولنا بھی چاہو تو نہ کھول سکو گے کوشش کر کے دیکھو۔ مگر تم نہ کھول سکو گے۔ ” معمول آنکھیں کھولنے کی ناکام کوش کرے گا۔ اچھا اب کوشش ترک کردو اور سوجاؤ۔ گہری اور میٹھی نیند ۔ تم پر بڑی فرحت بخش غنودگی طاری ہو رہی ہے۔ تم سو رہے ہو، تم سوائے میرے کسی کی آواز نہیں سنو گے تم اس وقت تک نہ جاگو گے جب تک میں تم کو نہ جگاؤں تم سورہے ہو، قطعی سو رہے ہو ۔ اس کے بعد مریض کا بازو پکڑ کر اٹھائیں تمہارا بازو سخت ہو گیا ہے بالکل اکٹر گیا ہے۔ تم اس کو ہلا نہیں سکتے۔تم کوشش کر دیکھو مگر تم بازو نہ ہلا سکو گے”اس کے بعد بازو چھوڑ دیں۔ بازو اکڑا رہے گا۔کچھ وقفے بعد اس سے کہیں “اب میں بازو ٹھیک کر رہا ہوں۔تم اس کو پھر اسی طرح ہلا سکو گے۔جیسے ہی میں بازو چھوڑوں گا،یہ اپنی اصلی حالت پر آجائے گا “پھر سجیشن دیں۔اب تم بہت گہری نیند سو رہے ہو اب تم کو کوئی نہ جگا سکے گا سوائے میرے۔تم صرف میرے کہنے پر عمل کرو گے۔میں اب تم کو جگاتا ہوں۔تم جاگ کر بہت فرحت محسوس کرو گے اچھا اب جاگ جاؤ۔”