مسئلہ ۲۷: مسئولہ محمد اسمعیل صاحب محمود آبادی امام مسجد چھاؤنی بریلی ۷ ربیع الثانی ۱۳۳۴ھ
کیا یہ بات معتبر حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کو نسبت مرد کے نو حصہ شہوت زیادہ دی گئی ہے؟
اگر ہے تو شریعت مطہرہ میں چار عورتوں تک نکاح جائز ہے ماسوائے اس کے لونڈیاں الگ۔تو ایک خاوند باوجود ہونے کے ایک حصہ شہوت کے کیونکر چار عورتوں اور لونڈیوں کی خواہش پوری کرسکے گا؟ یہی اس میں کیا حکمت ہے؟ براہ کرم بتفصیل جواب عنایت ہو تاکہ دشمنانِ اسلام کو اس شہوت کے بارے میں جواب دے سکیں۔ مکرر آنکہ چار عورتوں تک کے حکم میں بہت سی حکمتیں ہیں مگر اس سوال میں فقط شہوت کی نسبت جواب طلب ہے۔
الجواب : عورتوں کی شہوت فقط نو حصے نہیں بلکہ سو حصے زائد ہے۔ ولٰکن اﷲ القی علیھن الحیاء۔ ۱ ؎ لیکن اللہ تعالٰی نے ان پر حیاء ڈال دی ہے۔
( ۱ ؎ المقاصد الحسنہ کتاب النکاح وا بواب من متعلقاتہ حدیث ۶۰۵ دارالکتاب العربی بیروت ص ۳۰۴ )
آدمی جب اپنے سے کسی ذرا زائد عقل والے کا کام دیکھتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا تو کہتا ہے کہ اس کی عقل زائد ہے اس نے کچھ سمجھ کر کیا ہے۔ پھر رب العزت حکیم و خبیر جل جلالہ کے افعال میں کیوں خدشات پیدا کرتا ہے کہ اس میں ایک سہل سی حکمت یہ ہے کہ فعلِ جماع میں مرد کا تعلق صرف لذت کا ہے اور عورت کو صد ہا مصائب کا سامنا ہے، نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے کہ چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوتا ہے۔ پھر پیدا ہوتے وقت تو ہر جھٹکے پر موت کا پورا سامنا ہوتا ہے پھر اقسام اقسام کے درد میں نفاس والی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اسی لیے فرماتا ہے:
حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا وحملہ وفصالہ ثلٰثون شھرا ۔۲ اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا اس کو تکلیف سے، اور اس کو اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے۔(ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۶/ ۱۵ )
تو ہر بچہ کی پیدائش میں عورت کو کم از کم تین برس بامشقت جیل خانہ ہے تو اگر اس قدر کثیر و غالب نہ رکھی جاتی ایک بار کے بعد پھر کبھی پاس نہ آتی۔ انتظام دنیا تباہ ہوجاتا ہے۔ مرد کے پیٹ سے اگر ایک دفعہ بھی چوہے کا بچہ پیدا ہوتا تو عمر بھر کو کان پکڑ لیتا، یہ حکمت ہے جس کے سبب وہ ان تمام مصائب کو بھول جاتی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔