اوقات نماز میں تعین کی اہمیت و حکمت

فجر کی نماز کے طبی اور روحانی فوائد 

” پس اللہ کی تسبیح بیان کرو ، طلوع شمس سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے اور رات ہونے پر اور دن کے کناروں پر۔ (القرآن)

انسانی زندگی کا تعلق مظاہراتی دنیا اور جسمانی اعضاء سے ہے ۔ جسمانی اعضاء کو طاقت پہنچانے کیلیے انسان ایسے کام کرتا ہے، جس سے مظاہراتی دنیا کا آرام و آسائش مہیا ہوتا ہے ۔ اللہ پاک نے دن کو کسب معاش کیلیے بنایا ہے ۔ تا کہ بندہ مقررہ اوقات میں محنت مزدوری کر کے زندگی آرام و آسائش سے گزارے ۔ فجر کی نماز ادا کر کے دار صل اس بات کا اقرار کرتا ہے ۔ کہ اللہ پاک نے ہمیں آدھی موت سے دوبارہ زندگی دی ہے ۔ ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم اپنے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد اور کوشش کریں ۔ فجر کی نماز ادا کرنے میں جہاں اللہ پاک کے شکر کی ادائیگی ہے ، وہاں ذہین کو اس طرف متوجہ کرنا بھی ہے کہ اللہ پاک رازق ہے ۔ اس نے ہی ہمارے لیے وسائل پیدا کئے ہیں اور ہمیں اتنی قوت عطا کی ہے کہ اللہ کی زمین پر اپنا رزق تلاش کریں اور باعزت زندگی گزاریں۔ اس کے علاوہ جسمانی اور روحانی طور پرجو فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ وہ یہ ہیں۔

(1) صحتمند شعاعوں سے ہمارے اندر طاقت اور انرجی پیدا ہو جاتی ہے۔ 

(۲) ان شعاعوں کے اندر وہ تمام حیاتین وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں ۔ جوزندگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں ۔

(۳) نمازی جب گھر کی چار دیواری اور بند کمروں سے نکل کر کھلی ہوا اور صاف روشنی میں آتا ہے تو اس کو سانس لینے کیلیے صاف فضا میسر آتی ہے ۔ فضا اور ہوا صاف ہو تو تندرستی قائم رہتی ہے ۔ خواتین کیلیے گھر کے آنگن اور مردوں کیلیے مسجد میں تازہ ہوا اور روشنی فراہم کرتی ہیں ۔

(۴) زندگی کو قائم رکھنے کے لیے بنیادی چیزوں میں صاف ہوا اور روشنی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر آدمی کچھ عرصہ ہوا اور روشنی سے محروم رہے تو اس کی جان کو طرح طرح کے روگ لگ جاتے ہیں۔ اور تپ دق اور سل جیسی خطرناک بیماریوں میں ھمبتلا ہو جاتا ہے۔

(۵) فجر کی نماز قدرت کا فیضان عام ہے کہ آدمی اس پروگرام پر عمل کر کے بغیر کسی خاص جد و جہد کے تازہ ہوا اور روشنی سے مستفیض ہوتا رہتا ہے اور متعدد بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ صبح سویرے پرندوں کے ترانے چڑیوں کی چوں چوں، چو پاؤں کی خراماں خراماں مستانہ وار زمین پر چلنا اس بات کا اظہار ہے کہ وہ سب خوش رہتے ہیں اور اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں رزق تلاش کرنے کے لیے از سر نو انرجی اور قوت عطا کی ہے۔

فجر کی نماز ادا کرنے والا بندہ دوسری تمام مخلوق کے ساتھ عبادت اور تسبیح میں مشغول ہوتا ہے ۔ تو دنیا کا پورا ما حول پرنور ہو جاتا ہے۔ اور ماحول کی اس پاکیزگی سے انسان کو روحانی اور جسمانی مسرت نصیب ہوتی ہے۔

یورپی تحقیق دان بیچر کی صبح کی نماز پر جدید تحقیقات

 علی الصبح عبادت وہ کلید ہے جو اللہ کی رحمتوں اور فضائل کے خزانوں کو کھولتی ہے ،شام کی عبادت وہ کنجی ہے جو ہمیں اللہ کی پناہ میں لے آتی اور محفوظ کر دیتی ہے۔ ایچ۔ ڈبلیو ۔ بیچر ہم اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ رکعتوں کی تعداد اور اوقات کے بارے میں اتنی سخت جمیعت بندی کی آخر کیا ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کسی ضابطہ کے نفاذ کے موثر ہونے کیلیے یہ ضروری ہے کہ سب سے بڑی مجلس قانون نے اس کی منظوری دی ہو ۔ ٹھیک اسی طرح پروردگار نے اسلام کی ایک ضروری عبادت کے طور پر نماز کا حکم صادر فرمایا ہے۔

ہر مسلمان پر ایک مخصوص عمر کے بعد نماز فرض کی گئی ہے ۔ تلون مزاجی کے تدارک کے لیے پروردگار نے ایک دن کے دوران ادائیگی نماز کے لیے متعین ترتیب تجویز فرمائی ہے اس ترتیب کے بارے میں میرا احساس یہی ہے۔ صبح کی عبادت جیسا کہ بیچر نے بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے ، وہ کلید ہے جو لا متناہی خزانے کھول دیتی ہے ۔ سورج کے طلوع ہونے سے قبل ایک عام انسان کو ایک طویل اور پر سکون یا مختصر اور بیکل نیند کے بعد ایک مختصر اور تیز حرکت کی ضرورت ہے، جو فوری طور پر چاق و چو بند کر دے اور اسے متحرک بنا دے۔ اور اسی لیے صبح کی نماز صرف دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض پر مشتمل ہے ۔ اسے پابندی سے ادا کیجئے اور اس کا نتیجہ خود دیکھ لیجئے مجھے یقین ہے اسکے بعد متحدہ تک فوقیت پہنچے گی ۔

نماز ظہر 

صبح سے دو پہر تک آدمی کسب معاش کے لیے داعی و کوشاں رہتا ہے ۔ اسی دوران گرد و غبار ، دھول اور مٹی سے اس کا واسطہ پڑتا ہے بعض اوقات ایسے زہریلے کیمیکل ہوا کے ذریعے کھلے اعضاء، چہرے اور ہاتھوں پر لگ جاتے ہیں جو اگر زیادہ دیررہیں تو انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ۔ تو ایسی کیفیت میں جب آدمی وضو کرتا ہے تو اس پر سے تمام کثافتیں اور تھکان دور ہو جاتی ہے اور اس پر سرور اور کیف کی ایک دنیا روشن ہوجاتی ہے۔

سورج کی تمازت ختم ہو کر جو زوال سے شروع ہوتی ہے تو زمین کے اندر سے اک گیس خارج ہوتی ہے یہ گیس اس قدر زہریلی ہوتی ہے کہ اگر آدمی کے اوپر اثر انداز ہو جائے تو وہ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ دماغی نظام اس قدر درہم برہم ہو جاتا ہے کہ آدمی پاگل پن کا گمان کرنے لگتا ہے جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے تو اسے نماز کی نورانی لہریں اس خطر ناک گیس سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ اب نورانی لہروں سے یہ زہریلی گیس بے اثر ہو جاتی ہے۔

نماز عصر 

زمین دو طرح سے چل رہی ہے ایک گردش محوری اور دوسری طولانی ، زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش کم ہوتی چلی جاتی ہے اور عصر کے وقت تک یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس پر دباؤ پڑنے لگتا ہے۔ انسان، حیوان ، چرند، پرند سب کے اوپر دن کے حواس کی بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے اور اور شعور مغلوب ہو جاتا ہے۔ ہر ذی شعور انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس کے اوپر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو وہ تکان ، بے چینی اور اضمحلال کا نام دیتا ہے ۔ یہ تکان اور اضمحلال شعوری خواس کی گرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عصر کی نماز شعور کو اس حد تک مضمحل ہونے سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں ۔ وضو اور عصر کی نماز قائم کرنے والے بندے کے شعور میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہو جاتا ہے۔ دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لیےتیار ہو جاتا ہے۔

نماز مغرب اور روحانی لہریں 

آدم بالفعل اس بات کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے رزق عطا فرمایا ہے اورکاروبار سے اسکی اور اسکے بچوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ شکر کے جذبات سے وہ مسرور اور خوش و خرم اور پر کیف جاتا ہے۔ اسکے اندر خالق کائنات کی وہ صفات متحرک ہو جاتی ہیں جن کے ذریعے کائنات کی تخلیق ہوتی ہے ۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پر سکون ذہن کے ساتھ محو گفتگو ہوتا ہے تو اس کے اندر کی روشنیاں (لہریں) بچوں میں براہ راست منتقل ہو جاتی ہیں اور ان روشنیوں سے اولاد کے دل میں ماں باپ کا احترام اور وقار قائم ہوتا ہے۔ بچے غیر ارادی طور پر ماں باپ کی عادات کو تیزی کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور ان کے اندر ماں باپ کی محبت اور عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب کی نماز صحیح طور پر اور پابندی کے ساتھ ادا کرے والے بندے کی اولادسعادت مند اور ماں باپ کی خادم ہوتی ہے ۔ 

عشاء کی نماز 

عشاء کی نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ پاک کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام ہے ۔ کیونکہ عشاء کے وقت آدمی رات کے حواس میں راغل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیم و تربیت کے اسباق اور اورادو وظائفہ، عشاء کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں ۔ اسلیے کہ جب آدمی رات کے حواس میں ہوتا ہے ۔ تو وہ لاشعوری اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں ۔ عشاء کی نماز اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کر وہ زندگی عطا فرمادی ہے جو نافرمانی کے ارکان سے پہلے جنت میں آدم علیہ السلام کو حاصل تھی ۔ یہی وہ حواس ہیں جن میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعے اس کے اوپر مسائل ، مشکلات اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے ۔ خواب تعبیر سے وہ مستقبل میں پیش آنے والی مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سونے والے بندے کی پوری رات لاشعوری طور پر عبادت میں گزرتی ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ ایسے بندے کے خواب سچے اور بشارت پر مبنی ہوتے ہیں۔

نماز عشاء کے طبی فوائد

قدرت نے ہمارے جسم میں ایسی مشینیں اور فیکٹریاں لگا دی ہیں جو اس ڈھانچے کو حرکت دیتی اور کاروباری دوڑ دھوپ کے لیے تیار رہتی ہیں ۔ اطباء کی تحقیق کے مطابق ہمارے جسم میں خون کے آنے جانے سے زندگی حاصل ہوتی ہے۔ جس حصے سے کوئی کام کرانا ہوتا ہے وہاں خون کی گردش بڑھا دی جاتی ہے ۔ جب غذا ہمارے معدے میں داخل ہو جاتی ہے تو اس کو توڑ پھوڑ اور ہضم کرنے کے لیے اس کے ساتھ ترشے ( تیزاب) خمرے اور کماوی ہاضم جوہر ملنے ضروری ہوتے ہیں ۔ ہضم کے اس فعل کو جاری رکھنے کے لیے دل معدہ کی طرف وافر خون بھیج دیتا ہے

 تا کہ وہ غذاؤں کو پینے اور بدن میں جذب ہونے کے قابل بنانے کے لیے معدہ اور بالائی آنتوں کی مدد کرتا رہے۔ ہم محنت و مشقت کرتے ہوئے اسکیمیں اور منصوبہ جات بناتے ہوئے دفتری کام کرتے ہوئے اور گاہکوں سے باتیں کرتے ہوئے کیوں تھک جاتے ہیں ۔؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ حرکت کرنے اور ہلنے جلنے سے ہمارے بدن کے خلیات برابر ٹوٹتے رہتے ہیں۔ جب یہ خلیات ٹوٹ کرناکارہ اور زندگی بخش اثرات کھو بیٹھتے ہیں تو ہمارے اعضاء اور اعصاب پر ایک قسم کا بوجھ اور تنگی پیدا کر دیتے ہیں ۔ اس حالت اور کینیت کو ہم اعصابی تناؤ اور تکان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس بوجھ ، تناؤ اور پست ہمتی کو دور کرنے کے لیے ہمارا دل دماغ کی طرف زیادہ خون روانہ کرتا ہے ۔ دماغ میں زائد خون کی آمد سے اونگھ اور نیند آنے لگتی ہے ۔

دنیا کے سب سے بڑے روحانی اور جسمانی طبیب حضرت محمد ﷺ نے ہمارے لیے عشاء کی نماز میں سترہ رکعتیں نماز پڑھنے کی سنت مبارک جاری فرمائی ۔ دو پہر کے کھانے کے بعد ہلکا قیلولہ کر کے ہم اپنے کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں اس چار پانچ گھنٹے کی محنت و مشقت بدنی حصوں کو حرکت دینے ، سوچنے سمجھنے اور گفتگو کرنے سے ہمارے بدن کے لاکھوں خلیات ٹوٹ پھوٹ کرنا کارہ ہو جاتے ہیں اور ہمارے اندرونی کارخانے کے لیے بوجھ اور سرانڈ بن جاتے ہیں ۔ اس عصبی کمزوری ، کھچاؤ اور تھکن کو دور کرنے کے لیے اس مدنی آقاﷺنے خدا کے حکم سے ہمیں عشاء کی لمبی نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی ۔ رات کے وقت سات آٹھ گھنٹے آرام کر چکنے کے بعد صبح کے وقت ہم سب سے زیادہ تازہ دم ہوتے ہیں ۔ خدائی حکم کے ماتحت چار رکعت نماز پڑھ کر ہم اپنے جسم کو دن بھر دوڑ دھوپ کے لیے تیار کر لیتے ہیں ۔ صبح سے رات تک ہمارے بدن کی کافی ٹوٹ پھوٹ ہو چکتی ہے ۔ بدن کے اعصاب اور خونی رگوں کے ارد گرد ان ٹوٹے پھوٹے خلیات کے جمع ہو جانے سے تعفن ، گھٹن اور حبس کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔ ادھ موا کر دینے والی اس حالت کو دور کرنے کے لیے حضور ﷺ نے سب سے زیادہ لمبی نماز پڑھنے کی سنت مبارکہ جاری فرمائی ۔ یہ نماز ہمیں از سر نو تازہ دم بنانے کا ایک کامیاب اور بے خرچ علاج ہے۔

سترہ مرتبہ ہم اپنے دونوں ہاتھوں کو ہلا کر ناف کے اوپر رکھتے ہیں ۔ اس فعل کو شرعی اصطلاح میں قیام کہتے ہیں۔ طبی نقطہ نگاہ سے ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چھ عدد لمبی اور تین عدد چھوٹی ہڈیوں کو حرکت دے کر قرآت پڑھنے تک ناف کے اوپر جمائے رکھا اس پچیس ، تیس سیکنڈ کی ورزش سے ہماری انگلیوں کے پوروں سے لے کر شانے تک تمام اعضاء ، عضلات اعصاب ، شریانیں ، وریدوں کے دھانے اور آس پاس کےفضلات گردش میں آگئے ۔ پھر ہم نے رکوع کی حالت میں تسبیح پڑھنی شروع کر دی ۔ آپ غور فرمائیں کہ ہم نے اوپر کے اعضاء عضلات ، پٹھوں اور رگوں کو حرکت دے کر گھٹنوں کی ہڈیوں کے اوپر جما دیا۔ پھر اٹھے تو اس ورزش سے جہاں دل کو نور سے بھر لیا ، وہاں ہمارے گھٹنوں کی ورزش بھی ہوگئی ۔ قربان جائیں اس نبی امی(ﷺ)مچھلیاں کمزور ہو جائیں اور ان کی طرف سے دوران خون ناقص یا کمزور ہو جا نے تو انسان کہتا ہے کہ میری ٹانگوں میں حرکت کرنے کی قوت نہیں ہے۔ کوئی اسے کھلیاں پڑناکوئی پنڈلیاں سونا اور کوئی تھڑ کنا کہتا ہے۔عشاء کی نماز میں سب سے زیادہ ورزش ان دونوں پنڈلیوں ہی کی ہوتی ہے۔ درجنوں مریضوں نے مجھ سے بیان کیا کہ عشاء کی نماز پڑھتے وقت ہماری پنڈلیاں کانپتی ہیں ۔ جب چھ سات رکعت پڑھ لیتے ہیں تو ان مچھلیوں سے ریح جھٹکے کے ساتھ نکلنی شروع ہو جاتی ہے ۔ دس گیارہ رکعت پڑھنے کے بعد یہ مچھلیاں کانپنے اور لڑکھڑانے سے رک جاتی ہیں۔ آخری رکعتوں تک یہی پنڈلیاں آسانی کے ساتھ بدنی بوجھ برداشت کرنے لگتی ہیں ۔اس لمبی ورزش سے دل پاؤں کی طرف زیادہ خون روانہ کرنے لگتا ہے ۔ ایک پرانا تجربہ کار حکیم ہونے کی وجہ سے میں لوگوں یہ سبق پڑھاتا ہوں کہ اچھے ہاضمے کے لیے اور گیس تیزابیت سے محفوظ رہنے کے لیے سونے سے تین گھنٹے پہلے رات کا کھانا کھا لیا کرو ۔  سونے کے لیے بستر پر اس وقت جاؤ جب رات کا کھانا معدے سے ہضم ہو کر آنتوں کی طرف چلاجائے۔ہمارے مہربان اور خطائیں معاف کرنے والے خداوند کریم نے ہمیں رات کے کھانے کے دو اڑھائی گھنٹے کے بعد عشاء کی نماز غذا کے ہضم کرنے اور عمدہ صحت کے ساتھ مزے دار نیند کا لطف حاصل کرنے کے لیے تجویز فرمائی ہے۔ ہمیں اس علاج سے اپنی صحت خوب تر بنانی چاہئیے ۔

Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest