تراویح 20 رکعت

نماز تراویح کی کتنی رکعت؟

سوال

مومن پورہ بمبئی سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام “حقیقة الفقہ” ہے
اس میں ہماری معتبر کتابوں کے حوالے سے تراویح کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں لکھی ہوئی ہیں۔1) تراویح میں رکعت کی حدیث ضعیف ہے(در مختار-ہدایہ شرح وقایہ)
2)تراویح آٹھ رکعت کی حدیث صحیح ہے(شرح وقایہ)3)تراویح صحیح حدیث سے مع وتر کے گیارہ رکعت ثابت ہیں (ہدایہ شرح وقایہ) ) مع وتر کے تراویح 11 رکعت سنت رسول اللہ ہے اور 20 رکعت خلفائے راشدین ہے۔4) حضرت عمر نے جو نعم البدعة فرمایا اس سے مراد معنی لغوی ہے نہ کے شرعی.5) تراویح آٹھ رکعت سنت ہے اور 20 مستحب.(شرح وقایہ)مذکورہ بالا باتوں کا حقیقت سے کچھ تعلق ہے یا نہیں؟
واضح فرما کر عندالله مأجور ہوں ۔

جواب

لعنة الله على الكذبين۔ جھوٹوں پر الله کی لعنت ہو۔ مذکورہ بالا باتوں کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
صاحب ہدایہ حضرت شیخ برہان الدین ابو الحسن علی مرغینانی رحمة اللہ تعالی علیه تحریر فرماتے ہیں۔ يستحب ان يجتمع الناس في شهر رمضان بعد العشاء فيصلى بهم امامهم خمس ترویحات. یعنی صاحب قدوری نے فرمایا مستحب ہے کہ لوگ ماہ رمضان میں عشاء کے بعد جمع ہوں تو ان کا امام ان کو پانچ ترویحہ یعنی بیس رکعت تراویح پڑھائے (ہدایہ جلد اول ص130 )
قدوری کی اس عبارت کے تحت صاحب ہدایہ تحریر فرماتے ہیں.
ذکر لفظ الاستحباب والإصح انها سنة كذا روى الحسن عن ابی حنیفه لانه واظب عليها الخلفاء الراشدون. یعنی صاحب قدوری نے مستحب کا لفظ تحریر فرمایا ہے ترجیح یہ ہے کہ تراویح سنت ہے۔ ایسے ہی حضرت حسن نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے اس لئے کہ تراویح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی اجمعین نے ہمیشہ ادا فرمائی ہے .
(ہدایہ جلد اول (131). صاحب شرح و قايہ حضرت صدر الشریعہ عبید اللہ بن مسعود رحمة الله تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں سن التراويح عشرون ركعة بعد العشاء ۔یعنی عشاء کے بعد بیس رکعت تراویح سنت ہے . شرح وقایہ جلد اول ص(175) اور صاحب در مختار حضرت شیخ علاء الدین محمد بن علی حصکفی رحمة اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں وہی عشرون ركعة حكمته مساواة المكمل للمكمل. يعنی تراویح بیس رکعت ہے اور بیس رکعت میں حکمت یہ ہےکہ مکمل مکمل کے برابر ہو یعنی رات اور دن کے فرض و واجب جو کل بیس رکعت ہیں تراویح ان کے برابر ہو. اور در مختار مع شامی جلد اول ص 495. معلوم ہوا کہ ہدایہ ، شرح وقایہ اور در مختار کے نزدیک بیس ہی رکعت والی حدیث صحیح ہے۔ اسی لئے كہ ان کتابوں میں بیس رکعت تراویح کو سنت لکھا ہے۔ اور حقیقہ الفقہ میں جتنی باتیں ان کتابوں کے حوالے سے لکھی گئی ہیں یعنی بیس رکعت تراویح والی حدیث کا ضعیف ہونا اور آٹھ رکعت والی حدیث کا صحیح ہونا وغیرہ سب جھوٹ ہیں ۔ان کتابوں میں اس طرح کی باتیں ہر گز نہیں لکھی ہیں ۔یہ غیر مقلدوں کا کھلا ہوا فریب ہے اور ان کے مصنفین پر واضح بہتان ہے۔جھوٹوں نے اپنے جھوٹے مذہب کو پھیلانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔خدائے تعالی ان کو سچے مذہب کے قبول کرنے کی ہدایت نصیب فرمائے ۔ آمین
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:381۔382۔