نماز اور جدید سائنسی تحقیقات
نماز اور جدید سائنسی تحقیقات
آئیے اب دیکھیں کہ نماز ہمیں کسی قسم کی نجات عطا کرتی ہے؟ ہم اللہ کے حضور میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ ہم اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمام دنیاوی تکلیفیں اور پریشانیاں پیچھے چھوڑ دیں گے ۔ اور اذان کے ساتھ ہی ہم اپنی تمام پریشانیوں اور تفکرات کو کم از کم دس منٹ کیلیے ہی سہی اپنے سے دور کر دیتے ہیں ۔ پھر ہم اللہ کی تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں ۔ یعنی ہم اللہ کی عظمت کی تعریف کرتے ہیں اور سورہ الفاتحہ تک پہنچتے ہیں ۔
الفاتحہ جو ایک حیران کن مرہم ہے جو انسان کی اندرونی دنیا کے تفکرات اور غلطیوں کو محو کر دیتی ہے ۔ اور اس کی جگہ ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے ۔ اسی وجہ سے سورۃ الفاتحہ کو شفا کی سورۃ بھی کہا گیا ہے۔ ایک انسان کی حالت کتنی ہی تشویشناک حد تک مایوس کن کیوں نہ ہو سورۃ الفاتحہ اس کو وہ مدد پہنچانے کے قابل ہے ، جس سے وہ اپنے اندرونی خلفشار سے نجات حاصل کر سکتا ہے اور اسے یہ سورۃ صراط مستقیم پر ڈال سکتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو سچ اور حسن کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ چونکہ سورۃ الفاتحہ ہماری عبادت کی بنیاد کی طرح سے ہے ۔ آیئے ہم اس کی مختصرا تشریح کریں۔
1- ” تعریف اللہ ہی کیلیے ہے جو ساری کائنات کا رب ہے۔“
2- نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔“
3- روز جزا کا مالک ہے۔“
4۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانتے ہیں ۔“ہمیں سیدھا راستہ دکھا
6- ان لوگوں کا راستہ جن پر تم نے انعام فرمایا ۔
7- ” جو مغضوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔
کیا دماغ یا دل کی کوئی بیماری بھی اس شخص میں باقی رہ سکتی ہے جو ایک دن میں چالیس مرتبہ ان آیات کی ، جو ایک حیرت انگیز حد تک خوب صورت نسخہ ہے ، تلاوت کرتاہو ۔ اور ساتھ ہی عبادت میں چالیس دفعہ رکوع و سجود بھی کرتا ہو۔ان آیات کریمہ میں سے ہر ایک آیت میں سورۃ الفاتحہ انسانی نفسیات (PSYCHE) کو ایک معجزاتی حقیقت اور سچ ودیعت کرتی ہے ۔ اور ہمارے وجود سے ہر غلطی کو مٹا دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک مختصر جائزہ ثابت کر دے گا کہ اس دعوے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔
(1) اللہ ہی تعریف کے لیے ہے جو ساری کائنات کا رب ہے۔ اے انسانیت ! اس اللہ کی تعریف اور شکر ادا کرو جس نے کائناتوں میں لامتناہی نظم و ضبط قائم کیا ہے اور جو ان کو ہر لمحہ اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے ( یہ ربوبیت کا مظہر ہے ) کسی چیز سے مت ڈرو اور نہ تذبذب اور پریشانی میں مبتلا ہو کیونکہ اللہ جس کی تم حمد کرتے ہو۔
(2) نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے. یہ کہ نہ صرف اللہ نے تمام مخلوقات کو اپنے رحم اور شفقت سے تخلیق کیا ہے بلکہ اس کے شکر گزار اور وفادار انسان اس سے خاص قسم کا رحم ، شفقت اور عفو و درگزر حاصل کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ تمام دنیا کی بنیاد ہی شفقت اور رحم پر رکھی گئی ہے۔ دراصل سیارے اس کا شکر اپنے محور میں گردش کرنے کے عمل سے ادا کرتے ہیں اور اسی طرح جواہر (ایٹم اور ان کے مرکز بھی جنکا وجود ، جائے خود محبت (کشش ) کا مرہون منت ہے جو کوئی اپنی محبت اور اللہ کی حمد و تعریف سے عاری ہو جاتا ہے وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔ یہ آیت کریمہ اس امر کا اظہار اور اعلان کرتی ہے کہ جب تک منبع یا سر چشمہ سے توانائی اور قوت نہ حاصل کی جائے کوئی زندگی قائم نہیں رہ سکتی ۔ اور یہ سر چشمہ مہربانی اور رحم ہی ہے۔“
(3) اللہ دوبارہ زندہ کئے جانے اور روز جزاء کا مالک ہے۔ یہ کبھی مت بھولو کہ تمہارا حساب کتاب بھی ہوگا
(4)اور اسی وجہ سے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔اب اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت ایک شخص کو ان تمام مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے گی جو اس پر اس دنیاوی زندگی میں آسکتی ہیں ۔ وہ شخص جو روپے، پیسے، طاقت اور نفع اندوزی کا غلام نہیں ہے۔ اس کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور وہ ہر قسم کے غیر متوقع دنیاوی مصائب سے محفوظ رہے گا وہ شخص جو صرف اللہ ہی کی عبادت کرتا ہے اور اس کی مدد کا طلب گار ہے اس کو کوئی غم یا صدمہ نہیں ہوگا اگر کوئی چیز یا عمل اس کیخلاف واقع ہو جائے ۔ وہ چیز اس کے لیے سوہان روح نہیں بن جائے گی ۔ بلکہ مشکلات اور مصائب کے مقابلے میں وہ اپنی پوری قوت سے جد و جہد کرے گا ۔ اور اسکا نتیجہ اللہ پر چھوڑا اور ہر سال دے گا ۔“
جو کوئی بھی سورۃ الفاتحہ کی ان چار آیات کی صدق دل سے تلاوت کرے گا ۔ اسے ذہنی دباؤ اور مایوسی سے نجات حاصل ہو جائے گی ۔ جو کوئی ان آیات کی دن میں چالیس مرتبہ تلاوت کرے گا اس کا تواتر اپنی ساری زندگی جاری رکھے گا یعنی جو خلوص اور باقاعدگی سے صلوۃ جاری رکھے گا وہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائے گا جنہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس لیے جس کسی کو ایسی آزادی مل جاتی ہے وہ ہر قسم کی زیادتیوں اور برائیوں سے بچ جاتا ہے۔
(نمبر 5 سے 7 تک ) ”اے سب سے پیارے اللہ ہم خود اپنے طور پر صحیح اور سیدھا راستہ نہیں ڈھونڈ سکتے اس لیے ہماری مدد فرما ۔ ہم پر اپنا کرم فرم اور ہمیں سچ کاراستہ دکھا ۔ ہمیں مشکلات اور پراگندگی میں نہ چھوڑ جو گمراہ لوگوں کا نصیب ہے ۔ اس طرح دن میں چالیس مرتبہ پانچ مقررہ وقتوں میں ہم ذہنی پریشانیوں اور غم سےپاک ہو سکتے ہیں۔عبادت میں رکوع اور سجود کے دوران خامروں پر جو پوشیدہ (ESOTERICA)کا اثر ہوتا ہے وہ اس وقت ہمارے زیر مطالعہ مضمون سے باہر ہے۔ جب نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ان ڈسپلن کو جاری کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیئے ۔ اس سے اخلاقی غلطیوں سے اور اس قسم کی دیگر برائیوں سے بچنے کی ترغیب بھی ہو سکے گی۔ پھر اس سے ہم وضو کی جسمانی اور روحانی قوت اور برکات کے فیوض سے بھی بہرہ مند ہو سکیں گے۔
اب آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ کسی طرح ہم مستقل مسرت اور نجات کا راستہ اپنی زندگیوں میں ہی ڈھونڈ سکتے ہیں ۔عبادت یا نماز ایک ایسی پاک مہر ہے ۔ جو ایک انسان کے اندر کی زندگی اور انسان کے معانی یعنی روح پر لگتی ہے۔ اور اس کا سب سے پہلا اثر ہمیں ایک انسان کے ذہنی سکون کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ اس مقام پر وہ شخص اندھا ہی تو ہوگا جو نجات و مسرت کا تجربہ نہ کر سکے ۔ اگر ہم کچھ لوگوں میں اس کا اثر نہیں دیکھ پاتے تو دراصل اس کی وجہ ان کی طرف سے ایک نمائشی عمل یا دکھاوا ہے جس میں کوئی خلوص نہیں ہوتا ۔ یہ بات یقینی ہے کہ نماز ایک انسان کے جسمانی نظام کو ایک طرح کا چھٹکارا دلاتی ہے۔ چونکہ یہ ہر طرح کی صورت میں واقع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ ان کو نجات مل گئی۔ یعنی ان لوگوں کے لیے آزادی ہے، تحفظ ہے، اور پھر مسرت و اطمینان ہے جس طرح ایک نمازی کے جسم کے تمام جوڑ صحت مند ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کی ذہنی اور روحانی صحت کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ آج کے دور میں مادہ پرست لوگ بھی اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ جوڑوں سے آرام اور ان کی بہتری کے لیے نمازت سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے لیکن یہ ان کی بدقسمتی یہ کہ وہ ان کے اپنے دل و دماغ پر پڑے ہوئے اس پردے کو نہیں ہٹا سکتے . اور نجات کی اس راہ کونہیں دیکھ سکتے جو ہماری روحانی دنیا کے لیے اللہ نے چودہ صدیاں قبل ہمیں عطا کی تھی۔ اس طرح بدقسمت لوگ ایمان حاصل نہیں کر سکتے ۔ ایمان ایک عظیم تحفہ ہے اللہ کی طرف سے ہدایت ہے۔ اور اس ہدایت کا مرکز دماغ میں نہیں بلکہ دل میں ہوتا ہے۔