اسلام اور سائنس

صلوٰۃ اور اخلاقیات اور سائنس

صلوٰۃ اور اخلاقیات اور سائنس

نماز اور جدید سائنسی تحقیقات

صلوٰۃ اور اخلاقیات اور سائنس :

سورہ مریم میں وجد آفریں آیات مبارکہ بیان ہوئی ہیں جن میں مختلف انبیائے کرام اور ان کے ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے اگلے ناخلف بانشینوں کا ذکر کیا گیاہے۔ ملاحظہ کیجئے :

یہی ہیں آدم کی اولاد میں سے وہ جن پر اللہ نے خاص انعام کیا تھا اور ان لوگوں پر جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا اور ان پر جو ابراہیم علیہ السلام اور اسرائیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور ان لوگوں پر جن کو ہم نے سیدھا رستہ دکھایا اور ان کو برگزیدہ کیا ۔ جب ان کے سامنے رحمن کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے تھے پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے نا خلف آئے کہ جنہوں نے صلوٰۃ کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چل پڑے۔

اس تذکرہ کے آخر میں نا خلف جانشینوں کی جو خرابیاں بتائی گئی ہیں اس میں صلوٰۃ کا تذکرہ کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ مثلا یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ ایسے نا خلف آئے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے چل پڑے اور انبیائے کرام کے رستے کو چھوڑ دیا ۔ صلوٰۃ کا ذکرکرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلوٰۃ اور نفسانی خواہشات یکجا نہیں ہوسکتیں ۔ انبیائے کرام ہمیشہ قائم بالصلوٰۃ رہے۔ اسی طرح ان کے برگزیدہ ساتھی بھی قائم بالصلوٰۃ رہیں اور نفسانی خواہشات سے دورر ہیں ۔ جن لوگوں نے صلوۃ ترک کی نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں میں ملوث ہو گئے ۔ صلوٰۃ میں بندہ کا ربط اللہ تعالٰی سے قائم ہو جاتا ہے چنانچہ ایسا بندہ زندگی کا ہر کام اللہ کے لیے کرتا ۔ ہے اس کی نظر میں پہلے اللہ کی ذات ہوتی ہے، اس کے بعد وہ کسی معاملہ کو دیکھتا ہے۔ یہی پیغمبرانہ طرز فکر ہے لیکن جو بندہ نفس کا ۔ بے دام غلام ہو جائے …. یہ واسطہ ختم ہو جاتا ہے وہ اللہ کے بجائے پہلے اپنے آپ کو دیکھتا ہے ۔ جہاں غرض آجائے وہاں برائیوں کی کثافت اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسفل سافلین میں جا پڑتا ہے اسی قانون کی توثیق اس قرآنی آیت سے بھی ہوتی ہے۔

یقینا صلوٰۃ بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( سورہ عنکبوت ) یہ بھی اس جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا واسطہ درمیان سے نکل جاتا ہے اس لیے وہ بے حیائی اور فحاشی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ایسے لوگ جو ادائے نماز کے باوجود برے کاموں میں مشغول ہوں یا ذہن فحاشی کا شکار ہو ان کی طرز فکر سے چونکہ اللہ تعالیٰ کا واسطہ نکل جاتا ہے اس لیے اسے بھی صلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ دکھاوا ہے یا خود فریبی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں ۔اور وہ (مصلین ) لوگ جو اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی ازواج یااپنے ہاتھ کے مال کے ، سو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (سورۃ المعارج )

اس آیت کی رو سے نمازی کی ایک خوبی یہ بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہیں اور شریک حیات تک ہی محدود رہتے ہیں معاشرے میں فساد اور بے حیائی نہیں پھیلاتے پھرتے ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کا احترام کرتے ہیں ۔ نمازیوں کی دو مزید خوبیاں یہ بتائی گئی ہیں کہ وہ امانت اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں ۔ ان دونوں خوبیوں کا حامل ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسا بندہ سچا اور وعدے کا پابند ہوتا ہے۔ دھوکہ دہی یا مکر و فریب اس کی طبیعت کا حصہ نہیں ہوتا ۔

نماز کے بنیادی اور ظاہری پہلو :

نماز ایک نظام زندگی ہے جس کے بنیادی طور پر دو شعبے ہیں ۔

1- روحانی

2- ظاهری

نماز کے ظاہری پہلو کے بھی کئی ذیلی پہلو ہیں مثلاً

1- اخلاقی پہلو

2- سائنسی یا طبی پہلو

3- معاشرتی پہلو

4- معاشی پہلو

نماز اور جدید سائنسی تحقیقات

لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ ظاہری یا باطنی تمام پہلو بحیثیت مجموعی قیام صلوٰۃ میں شامل ہیں ۔ یہ نماز کی ایسی جامعیت ہے کہ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی ۔ یعنی ایک طرف نماز بندہ کا خالق کائنات سے روحانی تعلق استوار کرتی ہے ، دوسری طرف بندہ کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بناتی ہے اور وہ معاشرے کا پسندیدہ اور ہر دلعزیز شخص بن جاتا ہے۔ صحیح ادائیگی نماز سے جسمانی صحت ٹھیک رہتی ہے جس سے صحت مندہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔یہاں اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیاجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Pinterest