سوال
سرکار امام اہل سنت اعلی حضرت کتاب فتاوی رضویہ جلد اول ص 74 پر ایک مسئلہ تحریر فرماتے ہیں کہ مرد نماز میں تھا عورت نے اس کا بوسہ لیا اس سے مرد کو خواہش پیدا ہوئی نماز جاتی رہی ۔
اگرچہ یہ اس کا اپنا فعل نہ تھا۔
اور عورت نماز پڑھتی ہو مرد بوسہ لے اور عورت کو خواہش پیدا ہو تو بھی عورت کی نماز نہ جائے گی۔
عرض یہ ہے کہ مذکورہ بالا مسئلہ صحیح ہے یا نہیں ؟
ایک دیوبندی مولوی کہتا ہے کہ اعلی حضرت نے غلط لکھا ہے اور حوالہ دیتا ہے کہ فقہاء کرام کا متفق فیصلہ ہے کہ نماز باطل ہو جائے گی ۔ لہذ سر کار والا بالتفصیل فتاوی رضویہ کےمسئلہ کوبیان فرمائیں۔
الجواب
مسئلہ مذکور اختلافی ہے۔
در مختار و رد المحتار میں یہی ہے کہ عورت کو مرد نے بوسہ لیا تو عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن فقہ کی کئی معتبر کتابوں میں یہ بھی ہے کہ نہیں فاسد ہو گی مثلاً جوہرہ نیرہ جلد اول ص 64 میں ہے لو كانت هى تصلى فقبلها لا تفسد صلاتھا۔ یعنی اگر عورت نماز پڑھ رہی ہو اور مرد اسے بوسہ لے تو عورت کی نماز نہیں فاسد ہو گی۔
اور بحر الرائق جلد دوم ص 13 پر شرح الزاہدی سے ہے۔
لو قبل المصلية لا تفسد صلاتها
وقال ابو جعفر ان كان بشهوة فسدت۔
یعنی اگر مرد نے نماز پڑھنے والی عورت کو بوسہ لیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اور امام ابو جعفر نے فرمایا کہ اگر شہوت سے ہو تو فاسد ہو جائیگی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اس مسئلہ میں فقہائے کرام کے تین قول ہیں ۔
۔ یہ کہ شہوت ہو یا نہ ہو بہرصورت عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
۔کسی حالت میں اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
۔ بوسہ اگر شہوت سے ہے تو فاسد ہوگی ورنہ نہیں۔
لہذا دیو بندی مولوی کا یہ کہنا غلط ہے کہ اعلیٰ حضرت نے غلط لکھا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ نماز کے بطلان میں پر فقہائے کرام کہ اختلاف کو متفقہ فیصلہ بتانا دیو بندی کی کھلی ہوئی جہالت ہے ۔
وهو تعالى ورسوله الاعلى اعلم بالصواب بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:356