نماز کے وقتوں کا بیان
مسئلہ:
زید کا کہنا ہے کہ نماز عشاء تہائی رات کے بعد تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے مگر بعض اکابر حضرات علماء کرام ومشائخ عظام کو شروع وقت میں ادا کرتے دیکھا گیا استفسار پر معلوم ہوا کہ عوام خاص طور پر سردیوں میں لحاف میں گھس جانے کے بعد لحاف چھوڑ کر وضو کرنے اور مسجد جانے کی مشقت مشکل سے اٹھا پائیں گے اس طرح بعض کی جماعت جائیگی اور بعض کی تو نمازیں ہی جاتی رہیں گی اس اندیشہ کے پیش نظر بغرض حفاظت جماعت و فرض
تسهيلاً للمسلمين ويسروا ولا تعسروا
کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع وقت ہی میں جبکہ عشاء کا وقت ہو جائے تو جماعت قائم کرنا نماز عشاء ادا کرنافی الجملہ مستحب کہا جا سکتا ہے اور
حدیث ما رواه المسلمون حسنا فهو عند اللہ حسن
کے تحت حسن بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ علماء و مشائخ کا
نظراً الى تكاسل العوام
مسجدوں میں سنن و نوافل کا ادا فرمانا۔ بکر کہتا ہے کوئی بھی ہو کچھ بھی کہے سب بے کار و بکواس ہے مستحب جو ہے وہی ہے اس کے خلاف کو مستحب کہنا اور سمجھنا سراسر جہالت اور انتہائی بیوقوفی کی باتیں ہیں ۔ ایسی صورت میں زید بکر کے بارے میں کیا حکم ہے اور کون حق پر ہے۔
الجواب:- نماز عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کو فقہائے کرام نے ضرور مستحب فرمایا ہے اسلئےکہ
بخاری ومسلم کی حدیث ہے يستحب ان يؤخر العشاء.یعنی سرکار اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عشاء کی نماز میں تاخیر کو پسند فرماتے اور ایک روایت میں ہے
لا يبالي بتاخير العشاء الى ثلث الليل.یعنی . حضور صلی الله تعالی علیہ وسلم
عشاء کی نماز کو تہائی رات تک پڑھنے میں کوئی تامل نہ فرماتے تھے۔ اور
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرورعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک دن عشاء کی نماز پڑھنے کے لئے اس وقت تشریف لائے جب کہ تہائی رات گذر چکی تھی اور صحابہ کرام بہت پہلے سے بیٹھے ہوئے انتظار کر رہے تھے تو حضور نے فرمایا۔
لولا ان يثقل على امتي لصليت بهم هذه الساعة.یعنی
اگر میری امت پر گراں نہ گذرتا تو میں ان کو عشاء کی نماز تہائی رات ہی میں پڑھاتا ۔ او
ر احمد ، ترمذی، ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا۔لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان يؤخر العشاء الى ثلث الليل او نصفه
.یعنی ، اگر اپنی امت پر مجھے شاق گزرنے کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک پڑھا کریں۔
(مشکوۃ شریف ) امام ترمذی نے فرمایا ،حديث ابي هريره حديث حسن صحيح وهو الذي اختاره اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنه کی یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی کو
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کے صحابہ و تابعین کے اکثر علماء نے اختیار فرمایا ہے ترمذی شریف جلد اول ) اور
حضرت سید احمد طحطاوی رحمه الله تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں ، ورد فى التاخير اخبار كثيرة صحاح وهو مذهب اكثر اهل العلم من الصحابة والتابعین،
یعنی عشاء کی نماز کے موخر کرنے کے بارے میں بہت سی صحیح حدیثیں مروی ہیں اور یہی صحابہ و تابعین کے اکثر علماء کا مذہب ہے ظاہر ہوا کہ
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے علمائے کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین
نے عشاء کی نماز کو تہائی رات ہی میں پڑھنے کو پسند فرمایا کہ عبادات الہی میں مشقت زیادتی ثواب کا باعث ہے،
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمة اللہ تعالی علیہ
تحریر فرماتے ہیں ، تاخیر نماز عشاء مستحب ست بجہت حصول تعب و مشقت در عبادت حق۔ فارسی۔
یعنی خدائے تعالیٰ کی عبادت میں کلفت و مشقت حاصل ہونے کے لئے عشاء ۔
اشعةاللمعات جلد اول صفحہ300
کی نماز میں تاخیر مستحب ہے اسی لئے نماز عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کو مستحب فرمایا گیا
تسهیلا للمسلمین و یسروا ولا تعسروا
کے پیش نظر اسے واجب نہیں قرار دیا گیا اور
نبی کریم علیه الصلاۃ والتسلیم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور فقہائے اسلام
نے تہائی رات میں عشاء کی نماز کو پسند فرماتے ہوئے اسے مستحب قرار دیا
ما راه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن
کے تحت اُن {بزرگ}حضرات کی پسند پر آج کے مسلمانوں کی پسند کو ترجیح دے کر ہر حالت میں اول وقت میں پڑھنے کو حسن نہیں قرار دیا جا سکتا جس مسئلہ میں کوئی روایت منقول نہ ہو صرف اسی میں مسلمانوں کی پسند کو حسن قرار دیا جائیگا۔ پھر بین فقہائے کرام تہائی رات تک موخر کرنے کو مطلق رکھا۔ یعنی سردی اور گرمی کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول مصری میں ہے
يستحب تأخير العشاء الى ثلث الليل ام تلخيصا
مگر بعض حدیثوں میں چونکہ سردی اور گرمی کے موسم کا حکم الگ الگ ہے اس لئے بہت سے فقہائے کرام نے صرف سردی میں تہائی رات تک موخر کرنے کو مستحب فرمایا اور گرمیوں میں تعجیل ہی کو مستحب فرمایا جیسا کہ
فقیہ انفس حضرت قاضی خاں رحمہ الله
۔اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں۔
يعجل العشاء في الصيف يؤخر في الشتاء الى ثلث الليل لقوله عليه السلام معاذ رضي الله عنه اخر العشاء في الشتاء فان الليل فيه طويل وعجل في الصيف فان الليل فيه قصير هذا اذا كانت السماء مصحيه فان كانت متغيمه يعجل انتهیء ملخصا.
گرمیوں میں عشاء کی نماز جلدی پڑھی جائے اور جاڑوں میں تہائی رات تک مؤخر کیا جائے اس لئے کو
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ سردی میں عشاء کی نماز مؤخر کرو اس لئے کہ رات اس موسم میں بڑی ہوتی ہے اور گرمیوں میں عشاء کی نماز کے لئے جلدی کرو کہ اس موسم میں رات چھوٹی ہوتی ہے اور یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ آسمان صاف ہو اور اگر ابر آلود ہو تو ہر موسم میں عشاء کی نماز کے لئے جلدی کی جائے۔ اور
حضرت سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ
تحریر فرماتے ہیں
۔يستحب تاخير صلاه العشاء الى ثلث الليل قيده في الخانيه والتحفه والمحيط رضوي والبدائع بالشتاء اما بالصيف فيستحب التعجيل نهر لئلا تقل الجماعة لقصر الليل فيه انتهى.
یعنی عشاء کی نماز کو تہانی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے اس حکم کو خانیہ، تحفہ، محیط رضوی اور بدائع میں صرف جاڑے کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے اور گرمیوں میں جلد پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے تاکہ جماعت کم نہ ہو اسلئے کہ اس موسم میں رات چھوٹی ہوتی ہے
(طحطاوی علی مراقی )
حدیث شریف اور فقہائے کرام کی مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سردی کے سبب عشاء کی نماز میں تعجیل کو مستحب نہیں قرار دیا جائے گا گرمیوں میں دن بڑھنے اور رات کے چھوٹا ہونے کے سبب یا بارش کی وجہ سے البتہ تعجیل مستحب ہے پھر زمانہ سابق میں سردی سے بچنے کے لئے لوگوں کے پاس سامان کم تھے اس کے باوجود حضور نے سردی میں تاخیر کو پسند فرمایا تو آج جب کہ لوگوں کے پاس سردی سے بچاؤ کے سامان زیادہ ہیں سردی میں تعجیل کو کیوں کر مستحب قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ آج کل عام شہروں ، قصبوں یہانتک کہ بعض دیہاتوں میں بھی روشنی کی سہولتوں اور ہوٹلوں وغیرہ کے سبب تہائی رات کے بعد بھی کافی چہل پہل اور لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے لہذا کچھ کاہلوں کے سبب ہر موسم میں تعجیل کو مستحب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سردی میں رات بڑی ہونے کے سبب بعد نماز لوگ دنیاوی باتوں میں مصروف ہونگے جس کی حدیث شریف میں ممانعت ہے ہاں اگر کسی گاؤں کے لوگ عام طور پر اول وقت کھا پی کر سونے کے عادی ہوں اور تہائی رات تک عشاء کے موخر کرنے میں اکثر لوگوں کی جماعت ترک ہو جاتی ہو تو خاص کر اس صورت میں تعجیل کو مستحب ضرور قرار دیا جائے گا ۔
بحوالہ:- فتاوی فیض الرسول
ص:- 189