عقائد متعلقہ نبوت

کیامحبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ہر کام وحی الہی ہے؟

سوال:-
التماس ایں کہ حدیث قرطاس کے بارے میں آپ کے فتویٰ کا مطالعہ کیا بجز عبارت ذیل کے آپ نے بہت خوب تحریر فرمایا ہے وہ عبارت یہ ہے کہ ، محبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ہر کام وحی الہی نہیں ہے تو یہ نص صريح وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحی یوحی کے خلاف معلوم ہوتا ہے ۔ لہذا اس کے بارے میں اطمینان بخش مدلل جواب تحریر فرمائیں ۔ فقط
جواب :-
اسلام علیکم محبوب خدا صلے اللہ تعالی علیہ وسلم کا ہر کلام وحی الہی نہیں ہے یہ بات نص صریح کے خلاف نہیں۔ اس لئے کہ آیت کریمہ ۔وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی ۔

میں ھو کا مرجع قرآن عظیم ہے جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے کہ ۔ان ضمیر معلوم وهو القرآن ان كان يقول ما القرآن الاوحی ۔یعنی آیت کریمہ ۔ان هو الا وحی یوحی میں ھو کا مرجع قرآن ہے۔ گویا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے که قرآن صرف وحی ہے۔

 اور تفسیر روح البیان میں ہے ان ھو ای ما الذى ينطق به من القرآن الأوحى من الله تعالى يوحى اليه بواسطة جبرئيل عليه السّلام – اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحی الہی ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے حضور صلے اللہ علیہ وسلم کی جانب وحی کیا جاتا ہے ۔ 

اور مدارک میں آیت مذکورہ کی تفسیرمیں ہے یعنی جو قرآن کہ رسول تمھارے پاس لائے ہیں وہ ایسا کلام نہیں ہے جو ان کی خواہش اور رائے سے ہو۔ وہ صرف وحی الہی ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے ۔ 

اور تفسیر ابو السعود میں ہے اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جسے رسول قرآن بتاتے ہیں وہ صرف وحی الہی ہے اور تفسیر خازن میں ہے کہ چونکہ کفار و مشرکین کہتے تھے کہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم قرآن اپنی طرف سے کہتے ہیں اس لئے آیت کریمہ کا یہ معنی ہوا کہ وہ باطل کلام نہیں فرماتے ہیں۔ قرآن اور بعض لوگوں نے کہا کہ ان کا ہر وہ کلام جو دین کے بارے میں ہو صرف وحی الہی ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے ۔

اور معالم التنزیل میں وما ینطق عن الھویٰ کی تفسیر خازن لکھنے کے بعد تحریر فرمایا  ان  هو  ما  نطقه  في  الدين  و قيل  القرآن۔ یعنی دین کے بارے میں رسول کا کلام اور بعض لوگوں نے کہا کہ قرآن صرف وحی خداوندی ہے جو رسول کی طرف وحی کیا جاتا ہے ۔

ان معتبر تفسیروں سے واضح ہو گیا کہ آیت کریمہ ۔ان ھو الا وحی یوحی میں ھو کا مر جع قرآن عظیم ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن وحی الہی ہے نہ کہ ہر کلام ۔

اور تفسیر معالم التنزیل میں جو ھو کا مرجع نطقی في الدين بتایا تو اس سے بھی ہر کلام کا وحی الہی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف دینی کلام کا وحی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

البتہ تفسیر جمل اور صاوی میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام اقوال وافعال اور سب احوال وحی الہی ہیں جیسا کہ ہمارے مقررین عام طور پر بیان کرتے ہیں۔ مگر اس کے بارے میں ۔

علامہ رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ وہ ظاہر کے خلاف ہے اس پر کوئی دلیل نہیں ! بلکہ اس آیت کریمہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ہر قول و فعل کا وحی ثابت کرنا ایک وہم ہے اس لئے کہ ھو کا مرجع اگر قرآن کو تسلیم کیا جائے تو اس معنی کا خلاف ہونا ظاہر ہے اور اگر ھو سے مراد حضور کا قول ہو تو ان کے قول سے وہی قول مراد ہے کہ جسے کفار و مشرکین شاعر کا قول کہتے تھے تو خدائے تعالی نے ردکرتے ہوئے فرمایا ۔ولا بقول شاعر اور وہ قول قرآن کریم ہی ہے۔ علامہ امام رازی کی اصل عبارت جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ہر قول کو وحی الہی مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حضور نے کبھی اپنے اجتہاد سے کچھ نہیں فرمایا۔

 اور یہ بھی ظاہر کے خلاف ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے لڑائیوں میں اجتہاد فرمایا ہے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یا شہد کو حضور نے اپنے لئے حرام فرمالیا تو آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اے نبی تم نے کیوں حرام فرمالیا معلوم ہوا کہ اگر خود پرکسی چیز کاحرام فرمانا وحی الہی ہوتا تو لم تحرم نہ فرمایا جاتا۔

اسی طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب کچھ لوگوں کو غزوة تبوک میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دیدی تو آیت کریمہ عفا الله عنك لم اذنت له نازل ہوئی یعنی اللہ تمہیں معاف کرے تم نے انھیں کیوں اذن دیدیا ثابت ہوا کہ حضور کا ہر کلام وحی الہی نہیں، ورنہ حضور کے اجازت دینے پر لم اذنت لھم نہ فرمایا جاتا ۔
علاوہ ان کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہر قول وفعل وحی الہی نہیں ہے ۔ 

مثلا بخاری شریف جلد دوم صفحہ 674 میں ہے کہ سر کاراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصلحت سے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائی تو یہ آیت کریمیہ نازل ہوئی ۔

لا تصل على احد منهم مات أبدا ولا تقم علی قبرہ اور کھجوروں کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ قول مشہور ہے۔ انتم اعلم با مور دنیا کم ۔

اور سید عالم صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھارہ دن تک طائف کا محاصرہ جاری رکھا اور وہ فتح نہیں ہوا حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورے پر حضور نے محاصرہ اٹھا لیا معلوم ہوا کہ طائف کا محاصرہ وحی الہی سے نہیں تھا ورنہ صحابی کے کہنے پر حضور محاصرہ ہر گز  نہ اٹھاتے ۔
ان تمام شواہد سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ حضورصلی اللہ تعالی کا ہر قول و فعل وحی الہی نہیں ہے۔ لہذا جن لوگوں نے کہا کہ ان کا ہر قول وفعل وحی الہی ہے تو ان کا مطلب یا تو یہ ہے کہ کہ دینی امور میں حضور کا ہر قول و فعل وحی الہی ہے جیسا کہ معالم التنزیل میں فرمایا اور یا تو ان لوگوں کا قول عام مخصوص منہ البعض ہے۔
بحوالہ:- فتاویٰ فیض الرسول
ص–120