ایمان و کفر کا بیان

مرتد کے ساتھ تعلقات توڑنے کے حوالے سے فتوی

سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کافر کے ساتھ میل جول اور دوستی رکھنے کا حکم کیا ہے میرا بھائی کا فر ہو گیا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نہیں ہے معاذ اللہ اور حرام کھاتا اور حرام ہی پیتا ہے میں نے بہت کوشش کی ہے مگر وہ مسلمان نہیں ہوتا۔ اور میں نے سنا ہے کہ اسلام ہمیں معاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے تو کیا میں اسے معاف کر دوں اور اس کے ساتھ فیملی تعلقات جاری رکھوں یا اس سے سارے تعلقات توڑ دوں۔؟

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم الجواب بعون المَلِكِ الوَهَابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَابُ شریعت اسلامیہ میں کفار کو دوست بنانا اور ان سے محبت کے یارانے گانٹھنا مطلقا ہر کافر ، ہر مشرک سے حرام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے و قد سمع الله ۔28۔سورة نمبر 58۔المجادلہ۔آیت نمبر۔22۔ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(22)  ترجمہ کنزالایمان تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے اُن کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں اُن میں ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔ ان سے ترک موالات کا خود قرآن عظیم نے حکم فرمایا ، صرف ایک دو ، دس جگہ تاکید نہ فرمائی بلکہ بکثرت جگہ جگہ اس کی تعلیم فرمائی اور باری تعالی فرماتا ہے: ” پارہ لن تنالوا البر۔4۔سورة نمبر 3 اٰل عمران آیت نمبر 118.
یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ  لَا  یَاْلُوْنَكُمْ  خَبَالًاؕ-وَدُّوْا  مَا  عَنِتُّمْۚ-قَدْ  بَدَتِ  الْبَغْضَآءُ  مِنْ  اَفْوَاهِهِمْ وَ  مَا  تُخْفِیْ  صُدُوْرُهُمْ  اَكْبَرُؕ-قَدْ  بَیَّنَّا  لَكُمُ  الْاٰیٰتِ  اِنْ  كُنْتُمْ  تَعْقِلُوْنَ(118)
ترجمه کنزالایمان اے ایمان والو غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری برائی میں گئی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو۔۔اس کے تحت صدر الافاضل فرماتے ہیں کہ بعض مسلمان یہود سے قرابت اور دوستی اور پڑوس وغیرہ تعلقات کی بنا پر میل جول رکھتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کفار سے دوستی و محبت کرنا اور انہیں اپنا راز دار بنانا نا جائز وتفسیر خزائن العرفان ) ممنوع ہے۔اور جو مسلمان اللہ عز وجل کے وجود کا انکار کرے وہ تو صرف کافر ہیں بلکہ پکا مرتد ہے اور مرتد کا معاملہ کافر سے بھی زیادہ سخت ہے۔۔
قال الله تعالى فى القرأن .پارہ سیقول ۔سورة نمبر 2 البقرہ آیت نمبر 217۔وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(217)اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔.
اور معاملت مجردہ [ خرید و فروخت اور ان کو نوکر رکھنا اور ان کے ہاں نوکری کرنا وغیرہ ) سوائے مرتدین ہر کافر سے جائز ہے( فتاوی رضویان ۱۴ ص ۴۳۱) پتا چلا کہ مرتد کے ساتھ ظاہری معاملات یعنی خرید و فروخت وغیرہ کرنا بھی جائز نہیں ہے اور کافر کا کافرہ سےنکاح جائز ہے مگر مرتد کا نکاح دنیا میں کسی عورت سے نہیں ہو سکتا ہے حتی کے مرتدہ سے بھی نہیں ۔ معلوم ہوا کہ مرتد کا حکم عام کافروں سے زیادہ سخت ہے۔لہذا فوراسے پہلے اس خبیث و مرتد بھائی سے ہر قسم کے تعلقات توڑنا فرض ہے۔ کہ مرتد سے دوستانہ دین کے لیے زہر قاتل۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : إِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ انھیں اپنے سے دور کرو اور ان سے دور بھاگو وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں۔ (صحيح مسلم مقدمه، باب النهي عن الرواية عن الضعفاء ….. الخ ، الحديث ، ص9)
حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں حلف سے کہتا ہوں جو جس قوم سے دوستی رکھتا ہے اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔ (مستدرک علی الصحیحین، کتاب الهجرة ذكر اسماء أهل الصفة الحديث ۴۳۵۰، ج ۳، ص ۵۵۲) ۔ “
اور بہار شریعت میں ہے۔ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں ، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ، ان کے ساتھ کھانا پینا ، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا ، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں گویا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں۔ بهار شریعت ج 2 حصه 9 ص 457 مطبوعه مكتبة المدينه)
وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم فتاوی یورپ برطانیہ (صفحہ نمبر87)