مراقبہ Meditation
انسان نے اب تک رنگ کی تقریباً ساٹھ قسمیں معلوم کی ہیں ان میں بہت تیز نگاہ والے ہی امتیاز کر سکتے ہیں ، جس چیز کو اس کی نگاہ محسوس کرتی ہے اس کو رنگ روشنی ، جواہرات اور آخر میں کم و بیش پانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آسمانی رنگ کیا ہے ؟ کس طرح بنا ہے ؟ آیا وہ صرف خیالی ہے یا کوئی حقیقت ہے۔ بہر کیف انسان کی نگاہ اسے محسوس کرتی ہے اور اسے جو نام دیتی ہے وہ آسمانی ہے۔
جب فضا گرد و غبار سے بالکل پاک ہوتی ہے تو آسمانی رنگ کی شعاعیں اپنے مقام کے اعتبار سے رنگ بدلتی ہیں۔ مقام سے مراد وہ فضا ہے جس کو انسان بلندی، پستی وسعت اور زمین سے قربت یا دوری کا نام دیتا ہے یہی حالات آسمانی رنگ کو ہلکا گہرا اور زیادہ گہر ا زیادہ ہلکا یہاں تک کہ مختلف رنگوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
حد نگاہ سے زمین کی طرف آئے تو آپ کو نیلے رنگ کی لاتعداد رنگین شعاعیں ملیں گی ، یہاں اس لفظ رنگ کو قسم “ کہا جا سکتا ہے۔ دراصل قسم ہی وہ چیز ہے جو ہماری نگاہوں میں رنگ کہلاتی ہے، یعنی رنگ کی قسمیں ، صرف رنگ نہیں بلکہ رنگ کے ساتھ فضا میں اور بہت سی چیزیں ملی ہوتی ہیں وہ اس میں تبدیلی پیدا کر دیتی ہیں،
اس چیز کو قسم “ کے نام سے بیان کرنا ہمار منشاء ہے۔رنگ کا جو منظر ہمیں نظر آتا ہے اس میں روشنی، آکسیجن گیس، نائیٹروجن گیس اور قدرے دیگر گیسیں (GASES) بھی شامل ہوتی ہیں ان گیسوں کے علاوہ کچھ سائے (SHADES) بھی ہوتے ہیں جو ہلکے ہوتے ہیں یا دبیز کچھ اور بھی اجزاء اسی طرح آسمانی رنگ میں شامل ہو جاتے ہیں ان ہی اجزاء کو ہم مختلف قسمیں کہتے ہیں یا مختلف رنگوں کا نام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ان میں ہلکے اور دبیز سایوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جس فضا سے ہمیں رنگ کا فرق نظر آتا ہے اس فضا میں نگاہ اور حد نگاہ کے درمیان باوجود مطلع صاف ہونے کے بہت کچھ موجود ہوتا ہے۔
اول ہم ان روشنیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو خاص طور پر آسمانی رنگ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ روشنیوں کا سر چشمہ کیا ہے اس کا بالکل صحیح علم انسان کو نہیں ہے قوس قزح کا جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے وہ زمین سے تقریبا نو (۹) کروڑ میل ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو رنگ ہمیں اتنے قریب نظر آتے ہیں وہ نو کروڑ میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل کام ہے کہ سورج کے اور زمین کے درمیان علاوہ کرنوں کے اور کیا کیا چیزیں موجود ہیں جو فضا میں تحلیل ہوتی رہتی ہیں۔
جو کر نیں سورج سے ہم تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا چھوٹے سے چھوٹا جزوفوٹان (PHOTON) کہلاتا ہے اور اس فوٹان کا ایک وصف یہ ہے کہ اس میں اسپیس (SPACE) نہیں ہوتا۔ اسپیس سے مراد ڈائی مینشن ( – DIMEN SION) ابعاد ہیں یعنی اس میں لمبائی چوڑائی موٹائی نہیں ہے اس لئے جب یہ کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو نہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں بالفاظ دیگر یہ جگہ نہیں روکتے ، اُس وقت تک جب تک کہ دوسرے رنگ سے نہ ٹکرائیں۔ یہاں دوسرے رنگ کو پھر سمجھئے۔ فضا میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں سے کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ ا ہی اسے اسپیس دیتا ہے۔ دراصل یہ فضا کیا ہے ؟ رنگوں کی تقسیم ہے۔ رنگوں کی تقسیم جس طرح ہوتی ہے وہ اکیلے فوٹان کی رو سے نہیں ہوتی بلکہ ان حلقوں سے ہوتی ہے جو فوٹانوں سے بنتے ہیں۔ جب فوٹانوں کا ان حلقوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو اسپیس یا رنگ وغیرہ کئی چیزیں بن جاتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنوں میں یہ حلقے کیسے پڑے ؟ ہمیں یہ تو علم ہے کہ ہمارے کہکشانی نظام میں بہت سے اسٹار یعنی سورج ہیں، وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں ان کا درمیانی فاصلہ کم سے کم پانچ نوری سال بتایا جاتا ہے جہاں انکی روشنیاں آپس میں ٹکراتی ہیں، وہ روشنیاں چونکہ قسموں پر مشتمل ہیں اس لئے حلقے بنا دیتی ہیں جھے ہماری زمین یا اور سیارے اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج سے یا کسی اور اسٹار سے جن کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں دو کھرب بتائی جاتی ہے، ان کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں اور جہاں ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہیں ایک حلقہ بن جاتا ہے جسے سیارہ کہتے ہیں۔
اب فوٹان میں اسپیس پیدا ہو جاتا ہے اور اسپیس کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو الیکٹران کہتے ہیں جہاں فوٹان اور الیکٹران دونوں ٹکراتے ہیں وہیں سے نگاہ رنگ دیکھنا شروع کر دیتی ہے رنگ کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ نگاہ کیا ہے؟ کیوں ہے نگاہ کی تیزی کیا ہے اور کیوں ہے اس سے ہمیں بحث نہیں۔
ایک جانور پیروں سے چلنے والا ہے اور دوسرا دو پیروں سے چلنے والا ہے۔ اُڑنے والا جانور اور تیر نے والا جانور بھی چار پیروں سے چلنے والے جانوروں میں شامل ہے اس لئے کہ وہ پر بھی استعمال کرتا ہے اور پیر بھی۔ نیز اس کے اُڑنے کی صورت بھی وہی ہوتی ہے جو چار پیروں سے چلنے والے جانور کی ہوتی ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا جانور آدمی ہے۔
چار پیروں سے چلنے والا جانور ، اُڑنے والا جانور ، تیر نے والا جانور آسمانی رنگ کو تمام جسم میں یکساں قبول کرتے ہیں اسی وجہ سے عام طور پر ان میں جبلت کام کرتی ہے، فکر کام نہیں کرتی یا زیادہ سے زیادہ انہیں سکھایا جاتا ہے لیکن وہ بھی فکر کے دائرے میں نہیں آتا۔ جن چیزوں کی انہیں اپنی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے صرف ان چیزوں کو قبول کرتے ہیں، ان میں زیادہ غیر ضروری چیزوں سے یہ واسطہ نہیں رکھتے، جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہوتی ہے ان کا تعلق زیادہ تر آسمانی رنگ کی لہروں سے ہوتا ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا جانور یعنی آدمی سب سے پہلے آسمانی رنگ کا مخلوط یعنی بہت سے ملے ہوئے رنگوں کو اپنے بالوں اور سر میں قبول کرتا ہے اور اس رنگ کا مخلوط پیوست ہو تا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جتنے خیالات کیفیات اور محسوسات وغیرہ اس رنگ کے مخلوط سے اس کے دماغ کو متاثر کرتے ہیں وہ اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔ دماغ میں کھر بوں خانے ہوتے ہیں اور ان میں سے برقی رو گزرتی رہتی ہے،برقی رو کے ذریعے خیالات ، شعور اور تحت الشعور سے گذرتے رہتے ہیں اور اس میں زیادہ لاشعور ہیں ۔
دماغ کا ایک خانہ وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہے اور تقسیم کرتی رہتی ہے یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا بہت ہی زیادہ چمکدار ۔ ایک دوسرا خانہ ہے جس میں کچھ اہم باتیں رہتی ہیں لیکن وہ اتنی اہم نہیں ہو تیں کہ سالہا سال گذرنے کے بعد بھی یاد آجائیں ایک تیسرا خانہ اس سے زیادہ اہم باتوں کو جذب کر لیتا ہے، وہ بشرط موقع کبھی کبھی یاد آ جاتی ہیں۔ ایک چوتھا خانہ معمولات (ROUTINE CHORES) کا جس کے ذریعہ آدمی عمل کرتا ہے لیکن اس میں ارادہ شامل نہیں ہو تا پانچواں خانہ وہ ہے جس میں گذری ہوئی باتیں اچانک یاد آجاتی ہیں جن کا زندگی کے آپس کے تارو پورسے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ منشاء یہ ہے کہ ایک بات یاد آئی دوسری بات ساتھ ہی ایسی یاد آئی جس سے پہلی بات کا کبھی کوئی تعلق نہیں تھا ایک چھٹا خانہ ایسا ہے جس کی یا تو کوئی بات یاد نہیں آتی اور اگر یاد آتی ہے تو فورا اس کے ساتھ ہی عمل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے۔ کسی پرندے کا خیال آیا خیال آتے ہی عملا وہ پرندہ سامنے ہے، ساتواں خانہ اور ہے جس کو عام اصطلاح میں حافظ (MEMORY) کہتے ہیں۔
دماغ میں مخلوط آسمانی رنگ آنے سے اور پیوست ہونے سے خیالات کیفیات ، محسوسات وغیر ہ برابر بدلتے رہتے ہیں، اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اس رنگ کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح کے اپنا اثر کم و بیش پیدا کرتے ہیں اور فورا اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ دوسرے سائے ان کی جگہ لئے سکیں بہت سے سائے جنہوں نے جگہ چھوڑ دی ہے محسوسات بن جاتے ہیں اس لئے کہ وہ گہرے ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے خیالات کی صورتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ لیتا ہے ان میں سے جن خیالات کو بالکل کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہو جاتے ہیں اور جو جذب کر لیتا ہے وہ عمل بن جاتے ہیں یہ سائے اسی طرح کام کرتے رہتے ہیں انہی سایوں کے ذریعہ انسان رنج وراحت حاصل کرتا ہے۔ کبھی وہ رنجیدہ اور بہت رنجیدہ ہو جاتا ہے ، کبھی وہ خوش اور بہت خوش ہو جاتا ہے۔ یہ سائے جس قدر جسم سے خارج ہو سکتے ہیں ہو جاتے ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر پیوست ہو جاتے ہیں وہ اعصابی نظام بن جاتے ہیں۔ آدمی دو پیر سے چلتا ہے اس لئے سب سے پہلے ان سایوں کا اثر اس کا دماغ قبول کرتا ہے دماغ کی چند حرکات معین ہیں جن سے وہ اعصابی نظام میں کام لیتا ہے۔ سر کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ اور حرام مغز اس اعصابی نظام میں خاص کام کرتا ہے رنج و خوشی دونوں سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے رنج و خوشی در اصل بجلی کی ایک رو ہے جو دماغ سے داخل ہو کر تمام اعصاب میں سما جاتی ہے۔ یہ لہریں دو پیروں سے چلنے والے جانور کے دماغ میں داخل ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا وزن، تجزیہ ، فضا ہر جگہ بالکل یکساں نہیں ہو تا بلکہ جگہ جگہ تقسیم ہوتا ہے اور اس تقسیم کار میں وہ لہروں کے کچھ سائے زیادہ جذب کرتا ہے اور کچھ سائے کم۔ انسان کے دماغ میں لاشمار خلیئے (CELLS) بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لا شمار خلیوں میں سائے کی لہریں جو فصا سے بنتی ہیں وہ اپنے اثرات کو برقرار رکھیں ، کبھی ان کے اثرات بہت کم رہ جاتے ہیں، کبھی ان کے اثرات بالکل نہیں رہتے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام خلیئے دماغ سے تعلق رکھتے ہیں کسی وقت خالی نہیں رہتے ، کبھی ان کا رخ ہوا کی طرف زیادہ ہوتا ہے کبھی پانی کی طرف کبھی غذا کی طرف اور کبھی تنہا روشنی کی طرف اسی روشنی سے رنگ اور رنگوں کی ملاوٹی شکلیں بنتی ہیں اور خرچ ہوتی رہتی ہیں۔
اگر انسان دماغ سے کام لے تو چہرہ پر طرح طرح کے رنگ نظر آتے ہیں۔ ان رنگوں میں سب سے زیادہ نمایاں آنکھوں کا رنگ اور حواس کی رو ہوتی ہے۔ اگرچہ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان چیزوں کا جو باہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر قبول کرتی ہیں بہت سے باہر کے عکس آنکھوں کے ذریعہ اندرونی دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس تازہ ہو جاتے ہیں یا افسردہ ہو جاتے ہیں۔ کمزور ہو جاتے یا طاقت ور ۔ ۔ انہی باتوں پر دماغی کام کا انحصار ہے۔ رفتہ رفتہ یہی دماغ کا کام اعصاب میں سرایت کر جاتا ہے، جو صحیح بھی کام کرتا ہے اور غلط بھی۔ دماغی لہروں سے چہرہ پر اتنے زیادہ اثرات آجاتے ہیں کہ ان سب کا پڑھنا مشکل ہے پھر بھی ایک فلم چہرہ میں چلتی رہتی ہے جو اعصاب میں منتقل ہونے والے تاثرات کا پتہ دیتی ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ رنگوں کی تعداد بہت ہے اور ان کی افادیت بہت زیادہ ہے
آسمانی رنگ فی الحقیقت کوئی رنگ نہیں بلکہ وہ ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو ستاروں سے آتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ کہیں بھی ان ستاروں کا فاصلہ پانچ نوری سالوں سے کم نہیں ہے۔ ایک کرن ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اسی طرح نوری سال کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ ہر ستارہ کی روشنی سفر کرتی ہے اور سفر کرنے کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے ان میں ایک کرن کا کیا نام رکھا جائے یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے نہ انسان کرن کے رنگ کو آنکھوں میں جذب کر سکتا ہے۔ یہ کرنیں مل جل کے جو رنگ بناتی ہیں وہ تاریک ہوتا ہے اور اس تاریکی کو نگاہ آسمانی محسوس کرتی ہے انسان کے سر میں اس کی فصا سرایت کر جاتی ہے نتیجے میں وہ لا تعداد خلئے جو انسان کے سر میں موجود ہیں اس فضا سے معمور ہو جاتے ہیں اور یہاں تک معمور ہوتے ہیں کہ ان خلیوں میں مخصوص کیفیات کے علاوہ کوئی کیفیت سما نہیں سکتی یا تو ہر خلیے کی ایک کیفیت ہوتی ہے یا کئی خلیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے اور ان کی وجہ سے ایک دوسرے کی کیفیات شامل ہو جاتی ہیں لیکن یہ اس طرح کی شمولیت نہیں ہوتی کہ بالکل مدغم ہو جائے بلکہ اپنے اپنے اثرات لے کر خلط ملط ہو جاتی ہے اور اس طرح دماغ کے لا تعداد خلیئے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور یہاں تک پیوست ہوتے ہیں کہ ہم کسی خلیئے کا عمل یا رد عمل ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے بلکہ وہ مل جل کر وہم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان تو ہماتی جانور ہے تو بے جا نہیں ہو گا، خلیوں کی یہ فضا تو ہمات کہلا سکتی ہے یا خیالات یا محسوسات یہ تو ہماتی فضا دماغی ریشوں میں سرایت کر جاتی ہے ریشے جو باریک ترین ہیں۔خون کی گردش رفتاران میں تیز تر ہوتی ہے اسی گردش رفتار کا نام انسان ہے خون کی نوعیت اب تک جو کچھ سمجھی گئی ہے فی الواقع اس سے کافی حد تک مختلف ہے۔ آسمانی فضا سے جو تاثرات دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں، وہ ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور حقیقت میں ان کو تو ہمات یا خیالات کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا جب آسمانی رنگ کی فضا خون کی روبن جاتی ہے تو اس کے اندر وہ حلقے کام کرتے ہیں جو دوسرے ستاروں سے آئے ہیں وہ حلقے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے ہیں، اس قدر چھوٹے کہ دوربین بھی نہیں دیکھ سکتی لیکن ان کے تاثرات عمل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، انسان کے اعصاب میں وہی حرکات بنتے ہیں اور انہی کی زیادتی یا کمی اعصابی نظام میں خلل پیدا کرتی ہے
رنگوں کا فرق بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ ہلکا آسمانی رنگ بہت ہی کمزور قسم کا وہم پیدا کرتا ہے، یہ وہم دماغی فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے اس طرح کہ ایک ایک خلیے میں درجنوں آسمانی رنگ کے پر تو ہوتے ہیں یہ پر تو الگ الگ تاثرات رکھتے ہیں۔ و ہم کی پہلی رو خاص کر بہت ہی کمزور ہوتی ہے جب یہ رو دو یا دو سے زیادہ چھ تک ہو جاتی ہیں ، اس وقت ذہن اپنے اندر وہم کو محسوس کرنے لگتا ہے یہ وہم اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اگر جنبش نہ کرے اور ایک جگہ مرکوز ہو جائے تو آدمی نہایت تندرست رہتا ہے اسے کوئی اعصابی کمزوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے اعصاب صحیح سمت میں کام کرتے ہیں ، اس رو کا انداز بہت ہی شاز ہوتا ہے اگر یہ رو کسی ایک ذرہ پر یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہو جائے اور تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے تو دور دراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان کو اس رو کے ذریعہ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے یہ وہم ان چیزوں کو بھی متاثر کرتا ہے جو ذی روح نہیں سمجھی جاتیں۔
سب سے پہلا اثر اس کا دماغی اعصاب پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ دماغ کے لاکھوں خلیئے اس کی چوٹ سے فنا ہو جاتے ہیں۔ اب دماغی خلیئے جو باقی رہتے ہیں وہ ام الدماغ کے ذریعہ اسپائنل کورڈ (SPINAL CORD) میں اپنا تصرف لے جاتے ہیں یہی وہ تصرف ہے جو باریک ترین ریشوں میں تقسیم ہوتا ہے اس تصرف کےپھیلنے سے حواس بنتے ہیں ان میں سب سے پہلی حس نگاہ کی ہے۔ آنکھ کی پتلی پر جب کوئی عکس پڑتا ہے تو وہ اعصاب کے باریک ترین ریشوں میں ایک سنساہٹ پیدا کر دیتا ہے۔ یہ ایک مستقل برقی رو ہوتی ہے اگر اس کا رخ صحیح ہے تو آدمی بالکل صحت مند ہے اگر اس کا رُخ صحیح نہیں ہے تو دماغ کی فضا کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے اور گہر اہو تا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ دماغ میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اعصاب اس رنگ کے پریشر کو برادشت نہیں کر سکتے۔ آخر میں یہ رنگ اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں ، مثلا آسمانی رنگ سے نیلا رنگ بن جاتا ہے۔ درمیان میں جو مر حلے پڑتے ہیں وہ بے اثر نہیں ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے کے زیر اثر آدمی کچھ وہمی ہو جاتا ہے اس طرح یکے بعد دیگرے مرحلے رونما ہوتے ہیں رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے اور وہم کی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ باریک ترین ریشے بھی اس تصرف کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اب کیفیت مختلف اعصاب میں مختلف شکلیں پیدا کر دیتی ہے بار یک اعصاب میں بہت ہلکی اور معمولی اور تنومند اعصاب میں مضبوط اور طاقتور اسی طرح یہ مرحلے گہرے نیلے رنگ میں تبدیلیاں شروع کر دیتے ہیں
اب ہم ہلکے نیلے اور گہرے نیلے رنگ کے خواص بیان کرتے ہیں سب سے پہلے ہلکے نیلے رنگ کا اثر دماغی خلیوں پر پڑتا ہے۔ اگر چہ دماغی خلیوں کا رنگ ہلکا نیلا الگ الگ ہوتا ہے۔ لیکن ان خلیوں کی دیوار میں ہلکی اور موٹی ہوتی ہیں۔ پھر ان میں رنگوں کے چھاننے کے اثرات بھی موجود ہیں ایک خلیہ اپنے ہلکے نیلے رنگ کو جب چھانتا ہے تو اس رنگ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اس طرح لاکھوں خلیئے مل کر اپنا تصرف کرتے ہیں۔ تصرف کا مطلب یہ ہے کہ ایک فلسفی ان خلیوں کو اور ان خلیوں کے تمام تصرفات کو ایک ہی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔ اُس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام خلیوں کا تصرف یکجا ہو کر ایک تخیل بن جاتا ہے۔ اب تصرف کا اختلاف قسم قسم کے فلسفے تخلیق کرتا ہے اور ان کی تخلیقات یہاں تک ہوتی ہیں کہ وہ اکثر ایک عملی شکل اختیار کر لیتی ہیں پھر اس علم کے اندر اختلافات پیدا ہونے لگتے ہیں جس سے بحث کی باریکیاں نکل آتی ہیں۔ منشاء اس کے بیان کرنے کا یہ ہے کہ یہ اختلاف ایک دوسرے فلسفہ کا مخالف فلسفہ بن جاتا ہے۔ پہلے دلائل میں معمولی اختلافات ہوتے ہیں۔ پھر ہی معمولی اختلافات بڑھ کر غیر معمولی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب اس تصرف کا کرشمہ ہے جو خلیوں کا رنگ بدلنے سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ان خلیوں کا رنگ اتنا تبدیل ہو جاتا ہے کہ نگاہ انہیں بالکل سرخ، سبز، زرد و غیرہ رنگوں میں دیکھنے لگتی ہے۔ اس لئے کہ باہر سے جو روشنیاں جاتی ہیں ان میں اسپیس (SPACE) نہیں ہو تا بلکہ خلیوں کے تصرف سے اسپیس بنتا ہے۔ خلیوں کا تصرف جب اسپیس بناتا ہے تو آنکھوں کے ذریعہ باہر سے جانے والی کرنوں کو اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے نتیجہ میں رنگوں کی تبدیلیاں یہاں واقع ہوتی ہیں کہ وہ ساٹھ سے زیادہ تک گنے جاسکتے ہیں۔
مثلا سرخ رنگ کو لیجئے خلیے ان پر اتنا تصرف کرتے ہیں کہ ذرات مل کر آنکھ کے پردوں پر اپنی تیزی پھینکتے ہیں۔ یہ تیزی ایک دوسرے میں غلط ملط ہونے کے بعد سُرخ رنگ نظر آنے لگتی ہے۔ اسی طرح خلیوں کا اور تصرف ہوتا ہے، مثلا رنگ تبدل ہو کر سبز ہو جاتے ہیں۔ زرد ہو جاتے ہیں، نارنجی ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور کتنے ہی رنگ بدل جاتے ہیں۔ ان رنگوں میں عجیب عجیب تاثرات ہیں۔ یہی رنگ مل کر حواس بناتے ہیں۔ مثلاً سننے کے حواس بہت سارے خلیوں کے عمل سے ترتیب پاتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے قطر بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں جن کو انگریزی میں ویو لینتھ (Wave Length) کہتے ہیں۔
سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار سو قطر سے نیچے کی آواز میں آدمی نہیں سن سکتا۔ ایک ہزار چھ سو قطر سے زیادہ اونچی آواز میں بھی آدمی نہیں سن سکتا۔ چار سو ویو لینتھ (Wave Length) سے نیچے کی آواز میں برقی رو کے ذریعہ سنی جا سکتی ہیں اور ایک ہزار چھ سو و یو لینتھ کی آواز میں بھی بجز برقی رو کے سننا ممکن نہیں۔ یہ ایک قسم کی حس کا عمل ہے جو دماغی خلیئے بناتے ہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب آسمانی رنگ کے تاثر سے ہوتا ہے۔ یہ رنگ خلیوں میں خلیوں کی بساط کے مطابق عمل کرتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ آسمانی رنگ جو فی الواقع ایک برقی رو ہے، دماغی خلیوں میں آنے کے بعد اسپیس بن جاتا ہے۔ یہ اسپیس بے شمار رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ ہی رنگ آنکھ کے پردہ پر مختلف شکلوں میں نظر آتے ہیں۔ آنکھ کے پردوں پر جو عمل ہوتا ہے وہ خلیئے کے اندر بہنے والی رو سے بنتا ہے۔ آنکھ کی حس جس قدر تیز ہوتی ہے۔ اتناہی رو میں امتیاز کر سکتی ہے لیکن پھر بھی خلیوں کی رو کا آپس کا تعلق بر قرار رہتا ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے نگاہ کے پر دے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں ساٹھ سے زیادہ رنگ تک امتیاز ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد برقی رو سے امداد لینا پڑتی ہے بالکل اس طرح جس طرح کان کی ویو لینتھ کو چار سو سے کم یا سولہ سو سے بڑھا کر کی جاتی ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کوئی شخص ساٹھ رنگ سے زیادہ قبول نہ کر ے اس سے کم پر اکتفا کر لے۔ لیکن یہ بات یہاں بتانا اس لئے ضروری ہے کہ دماغی خلیوں سے اور ان کی برقی رو سے تمام اعصاب کا تعلق ہے۔ تمام اعصاب پر اس کا اثر پڑتا ہے جیسا کہ ہم نے تذکرہ کیا ہے کہ کان کی ویو لینتھ برقی رو کے ذریعہ چار سو سے کم یا سولہ سو سے زیادہ کی جاسکتی ہے۔ اس کے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ ہم مستقل برقی رو میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ برقی رو کتنے قسم کی ہے ، کتنی تعداد پر مشتمل ہے۔ اس کا شمار کیا ہے آدمی کسی ذریعہ سے گن نہیں سکتا۔ البتہ یہ برقی رو دماغی خلیوں کے تصرف سے باہر آتی ہے تو طرح طرح کے رنگوں کا جال آنکھوں کے سامنے لاتی ہے؟ علاوہ آنکھوں کے چکھنے کی حس، سونگھنے کی حس سوچنے کی حس بولنے کی حس اور چھونے کی حس وغیرہ اس سے بنتی ہے۔ وغیرہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ حسیں تعداد میں اتنی ہی ہیں بلکہ یقینا اور بہت سی حسیں ہیں جو انسان کے علم میں نہیں ہیں۔
سوال : تصور سے کیا مراد ہے ، تصور کی صحیح تعریف کیا ہے ؟
جواب : روزہ مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز یا اس کے اندر معنویت ہمارے اور ظاہر ہو جاتی ہے۔ کوئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور پر ہم اس کی طرف متوجہ نہیں تو وہ چیز بسا اوقات ہمارے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم گھر سے دفتر جانے کیلئے راستے اختیار کرتے ہیں۔ جب ہم گھر سے روانہ ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن کی مرکزیت صرف دفتر ہوتا ہے یعنی یہ کہ ہمیں مقررہ وقت پر دفتر پہنچنا ہے اور وہاں پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔ اب راستے میں بے شمار مختلف النوع چیز یں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم دیکھتے ہیں لیکن دفتر پہنچنے کے بعد کوئی صاحب اگر ہم سے سوال کریں کہ راستے میں آپ نے کیا کچھ دیکھا تو اس بات کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہو گا کہ ہم نے دھیان نہیں دیا حالانکہ سب چیزیں نظروں کے سامنے سے گزریں لیکن کسی بھی چیز میں ذہنی مرکزیت قائم نہ تھی، اس لئے حافظہ پر اس کا نقش مرتب نہ ہو سکا۔ آپ ایک ایسی کتاب پڑھتے ہیں جس کا مضمون آپ کی دلچسپی کے بر عکس ہے تو پانچ دس منٹ کے بعد ہی طبیعت پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے اور بالآخر کتاب چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مثال سے دوسر ا قانون یہ بنا کہ ذہنی مرکزیت کے ساتھ ساتھ اگر دلچسپی قائم ہو تو کام آسان ہو جاتا ہے۔ جہا ں تک دلچسپی کا تعلق ہے اس کی حدود اگر متعین کی جائیں تو دو رخ پر متعین ہوں جس کو عرفِ عام میں ذوق و شوق کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف کسی چیز کی معنویت کو تلاش کرنے کی جستجو ہے اور دوسری طرف اس جستجو کے نتیجے میں کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ذوق و جستجو کے بعد جب کوئی بندہ کسی راستے کو اختیار کرتا ہے تو وہ راستہ دین کا ہو یاد نیا کا اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ تصور کا منشایہی ہے کہ آدمی ذوق و شوق کے ساتھ ذہنی مرکزیت اور اس کے نتیجے میں باطنی علم حاصل کرے۔تصور کی مشقوں سے بھر پور فوائد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب آنکھیں بند کر کے تصور کرے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہو جانا چاہئیے اتنا بے نیاز کہ اس کے اور بتدریج ٹائم اور اسپیس کی گرفت ٹوٹنے لگے یعنی اس تصور میں اپنا منہمک ہو جائے کہ گزرے ہوئے وقت کا مطلق احساس نہ ہو۔ کتاب کا دلچسپ مضمون پڑھنے کی مثال پیش کی جاچکی ہے۔تصور کے ضمن میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر آپ نور یا روشنی کا تصور کر رہے ہیں تو آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ صرف نور کی طرف دھیان دیں۔ نور جو کچھ بھی ہے اور جس طرح بھی ہے از خود آپ کے سامنے آجائے گا۔ اصل مدعا کسی ایک طرف دھیان کر کے ذہنی سکون حاصل کرنا اور منتشر خیالات سے نجات حاصل کرنا ہے جس کے بعد باطنی علم کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہونے لگتا ہے۔ تصور کا مطلب اس بات سے کافی حد تک پورا ہو جاتا ہے ، جس کو عرف عام میں ” بے خیال “ ہونا کہتے ہیں۔
سوال : علم حضوری کیا ہے اور علم حضوری اور علم حصولی میں کیا فرق ہے ؟
جواب : علم حضوری وہ علم ہے جو ہمیں غیب کی دنیا میں داخل کر کے غیب سے متعارف کراتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی حیثیت براہ راست ایک اطلاع کی ہے یعنی علم حضوری سیکھنے والے بندے کے اندر لاشعوری تحریکات عمل میں آجاتی ہیں۔ لاشعوری تحریکات عمل میں آنے سے مراد یہ ہے کہ حافظہ کے او پر ان باتوں کا جو بیان کی جارہی ہیں ایک نقش ابھرتا ہے مثلا علم حضور سکھانے والا کوئی استاد اگر کبوتر “ کہتا ہے تو حافظے کی سطح پر یا ذہن کی اسکرین پر کبوتر کا ایک خاکہ سابنتا ہے اور جب الفاظ کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو دماغ کے اندر فی الواقع کبوتر اپنے پورے خدوخال کے ساتھ بیٹھا ہو نظر آتا ہے۔ اسی طرح جب ایک استاد کسی سیارے یا ستارے کا تذکرہ کرتا تو حافظ کی اسکرین پر روشن اور دہکتا ہواستارہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی استاد جب جنت کا تذکرہ کرتا ہے تو جنت سے متعلق جو اطلاعات ہمیں مل چکی ہیں ان اطلاعات کی ایک فلم دماغ کے اندر ڈسپلے (Display) ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ذہن کے اندر یہ بات ہمیں نقش نظر آتی ہے کہ جنت ایسا باغ ہے جس میں خوبصورت خوبصورت پھول ہیں، دودھ کی طرح سفید پانی کی نہریں ہیں۔ شہد کی طرح میٹھے پانی کی نہریں ہیں اور وہاں ایسے خوبصورت مناظر ہیں جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔علم حضوری اور علم حصولی میں یہ فرق ہے کہ جب کوئی استاد اپنے کسی شاگرد کو تصویر بنانا سکھاتا ہے تو وہ گراف کے اوپر تصویر بنا دیتا ہے اور وہ یہ بتا دیتا ہے کہ اتنے خانوں کو اس طرح کاٹ دیا جائے تو آنکھ بن جاتی ہے اور اتنی تعداد میں خانوں کے اوپر پنسل پھیر دی جائے تو ناک بن جاتی ہے۔ گراف کے اندر چھوٹے چھوٹے خانوں کو اس طرح ترتیب سے کاٹا جائے تو سر بن جاتا ہے وغیرہ وغیر ہ اور شاگرد جتنے ذوق و شوق سے استاد کی رہنمائی میں ان خانوں کے اندر تصویر کشی کرتا ہے اسی مناسبت سے وہ فنکار بن جاتا ہے۔ یہ علم حصولی ہے۔ اس کے بر عکس علم حضوری میں بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر تصویر بنانے کی صلاحیت موجود ہے اسی طرح ہر انسان کے اندر کر تہ قمیض سینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اُستاد کا کام صرف اتنا ہے کہ اس نے شاگرد کے اندر موجود لوہار درزی ، بڑھئی اور مصور بننے کی صلاحیت کو متحرک کر دیا ہے اور جیسے جیسے شاگرد اس صلاحیت سے استفادہ کرتا ہے اپنے فن میں مہارت حاصل کر لیتا ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ دنیا میں جو کچھ موجود ہے یا آئندہ ہونے والا ہے یا گذر چکا ہے وہ سب خیالات کے اُو پر رواں دواں ہے۔ اگر ہمیں کسی چیز کے بارے میں کوئی اطلاع ہے یا بہ الفاظ دیگر اس چیز کا خیال آتا ہے تو وہ چیز ہمارے لئے موجود ہے اور اگر ہمیں اپنے اندر کسی چیز کے بارے میں خیال نہیں آتا تو وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں ہے۔ جب کوئی آدمی مصور بننا چاہتا ہے تو پہلے اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اسے تصویر بنانی چاہئیے ، جب کوئی آدمی بڑھئی بننا چاہتا ہے تو پہلے اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اُسے بڑھئی کا کام کرنا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ہر علم کی یہی نوعیت ہے۔ پہلے اس علم کے بارے میں ہمارے اندر ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور ہم اس خیال کے آنے کے بعد اس مخصوص فن کو یا مخصوص علم کو سکھنے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور ہمیں ایک استاد کی تلاش ہو جاتی ہے۔ استاد صرف اتنا کام کرتا ہے کہ ہمارے ذوق و شوق کے پیش نظر ہمارے اندر کام کرنے والی صلاحیت کو متحرک کر دیتا ہے۔
سوال : اسم اعظم کیا ہے اور اس کے جاننے سے انسان کے اندر کیا کیا صلاحیتیں بیدارہو جاتی ہیں ؟
جواب : لوح محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کار فرمائی ہے۔ حال ، مستقبل اور ازل سے ابد تک کا درمیانی فاصلہ ”لفظ “ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کا ئنات میں جو کچھ ہے سب کا سب اللہ کا فرمایا ہوا لفظ “ ہے اور یہ لفظ اللہ تعالی کا “اسم” ہے۔ اس اسم کی مختلف طرزوں سے نئی تخلیقات وجود میں آتی رہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا لفظ یا اسم ہی پوری کا ئنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ لفظ کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ہرقسم کے لفظ یا اسم کا ایک سردار ہوتا ہے اور وہی سردار اپنی قسم کے اسماء کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ سردار اسم بھی للہ تعالی کاہوتا ہے اور اسی کو اسم اعظم کہتے ہیں۔ اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرز کی جتنی روشنیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں کا مرکب ہوتا ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزاء ہوتے ہیں مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضے اور پورے حواس کو قائم کرنے یا رکھنے والا اسم ان سب کا سردار ہوتا ہے اور یہی اسم اعظم “ کہلاتا ہے۔ نوع جنات کے لئے الگ اسم اعظم ہے۔ اسی نوع انسان نوع ملائکہ نوع جمادات و نباتات کے لئے بھی علیحدہ علیحدہ اسم اعظم ہیں۔ کسی نوع سے متعلق اسم اعظم کو جاننے والا صاحب علم اس نوع کی کامل طرزوں ، تقاضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔ اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر رکھتا ہے اور تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا نور ہے۔ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ والارض (اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا)یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات و جمادات ، حیوانات انسان جنات اور فرشتوں میں زندگی اور زندگی کی پوری تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہ فیضان ہے کہ کائنات میں ہر فرونور کی ان لہروں کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔انسان کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں ایک دن کے اور دوسرے رات کے ان دونوں حواس کی کیفیات کو جمع کرنے پر ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہوتی ہے ہے۔ اور ان گیارہ ہزار کیفیات پر ایک اسم ہمیشہ غالب رہتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کر رہے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہزار ہےاور ان گیارہ ہزار اسماء کو جو اسم کنٹرول کر رہا ہے وہ اسم اعظم کہلاتا ہے۔ ان گیارہ ہزار میں سے ساڑھے پانچ ہزار دن میں اور ساڑھے پانچ ہزار رات میں کام کر رہے ہیں۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے اس کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے نئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا ہے۔ تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈ منسٹریشن کو چلانے والے حضرات یا صاحب خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔
سوال : دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بھی عامل یا عالم کوئی وظیفہ بتاتا ہے وہ وظیفہ بعد نماز عشاء کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ نہیں سنا کہ کوئی وظیفہ بعد نماز ظہر اور عصر کیاجائے آخر اس کی توجہیہ کیا ہے اور عشاء کا وقت اتنا افضل کیوں ہے ؟
جواب : دراصل عشاء کی نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام ہے کیوں کہ عشا کے وقت آدمی رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیمات اور تربیت کے اسباق اور وظائف عشا کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں اس لئے کہ جب آدمی رات کے حو اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ لاشعوری اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے۔ اس کی دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ عشاء کی نماز اس نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کردہ زندگی عطا فرمادی جو نا فرمانی کے ارتکاب سے پہلے جنت میں حضرت آدم کو حاصل تھی۔ یہی وہ حواس ہیں جن میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعے اس کے اوپر مشکلات مسائل اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے
سوال : اکثر پڑھنے اور سننے میں آیا ہے کہ روزہ روح کی بالیدگی کا ذریعہ ہے روزہ روحانی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے لیکن اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا ہے کہ بھو کار ہنا کس طرح روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے قرب الہی کا باعث بنتا ہے ؟
جواب : قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق کا ئنات میں موجود ہر شے دوزخ پرقائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” اور ہم نے ہر شے کو تخلیق کیا جوڑے دُہرے“۔ چنانچہ انسانی حواس بھی دو رخ پر قائم ہیں۔ ایک رُخ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ خود کو پابند اور مقید محسوس کرتا ہے۔ قید و بند میں ہمارے اندر جو حواس کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسفل کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ دوسرا رخ وہ ہے جہاں انسان قید و بند سے آزاد ہے۔ زندگی نام ہے تقاضوں کا ۔ یہ تقاضے ہی ہمارے اندر حواس بناتے ہیں۔ بھوک، پیاس، جنس، ایک دوسرے سے بات کرنے کی خواہش ، آپس کا میل جول اور ہزاروں قسم کی دل چسپیاں سب کے سب تقاضے ہیں۔ اور ان تقاضوں کا دار و مدار حواس پر ہے۔ حواس اگر تقاضے قبول کر لیتے ہیں تو یہ تقاضے حواس کے اندر جذب ہو کر ہمیں مظاہراتی خدو خال کا علم بخشتے ہیں۔ عام دنوں میں ہماری دل چسپیاں مظاہر کے ساتھ زیادہ رہتی ہیں۔ کھانا پینا سونا جاگنا آرام کرنا، حصولِ معاش میں جد و جہد کرنا دنیا کے مسائل سب کے سب مظاہر ہیں۔ عام دنوں کے بر عکس روزہ ہمیں ایسے نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے مظاہر کی نفی شروع ہوتی ہے مثلا وقت معینہ تک ظاہری حواس سے توجہ ہٹا کر ذہن کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ ظاہری حواس کے علاوہ اور بھی حواس ہمارے اندر موجود ہیں جو ہمیں آزاد دنیا غیب کی دنیا ) سے روشناس کرتے ہیں۔ روزہ زندگی میں کام کرنے والے ظاہر حواس پر ضرب لگا کر ان کو معطل کر دیتا ہے۔ بھوک پیاس پر کنٹرول گفتگو میں احتیاط نیند میں کمی اور چوہیں گھنٹے کسی نہ کسی طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مظاہر کی گرفت سے نکل کر غیب میں سفر کیا جائے۔کا ئنات میں ہر ذی روح کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔وہ حواس جو اللہ سے قریب کرتے ہیں۔وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔اللہ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ سے قریب کرنے والے سب کے سب غیب ہیں۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید و بند ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں قرآن پاک کی زبان میں ان کا نام ”دلیل“ یعنی رات ہے۔ رات کے حواس ہوں یا دن کے حواس دونوں ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی رہتی ہے۔ دن کے حواس میں زمان اور مکان کی پابندی لازمی ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت لازمی نہیں۔ رات کے وہی حواس ہیں جو غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان ہی حواس سے انسان برزخ اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ کے تذکرے میں ایک جگہ رب العزت فرماتے ہیں۔ اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ” سے تیسں رات کا پورا کیا اس کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات “۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ” کو چالیس رات میں تورات (غیبی انکشافات ) عطا فرمائی۔ فرمان خداوندی بہت زیادہ غور و فکر طلب ہے۔ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس دن میں وعدہ پورا کیا۔ صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ظاہر ہے جب حضرت موسیٰ نے چالیس دن اور چالیس رات کوہِ طور پر قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ” پر رات کے حواس غالب رہے۔ سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی معراج کے بارے میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے“۔ رات کے حواس میں یعنی سونے کی حالت میں ہم نہ کھاتے ہیں اور نہ بات کرتے ہیں اور نہ ارادتا ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔ روزہ کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریبا وہ تمام حواس ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔ گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا بات نہ کرنے کا عمل اور زیادہ عبادت ہمیں غیب سے قریب کرتی ہے۔ ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں، ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔ زیادہ وقت بیدار رہ کر رات (غیب) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ” کے واقعے میں کیا ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جائے“۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو پروگرام عطا کئے ہیں۔ ایک حصول اور دوسر اترک حصول معاشیات حصول کا اصول بتاتا ہے لیکن ترک کا پروگرام اس سے بہت بڑا ہے اور وہ ایسے اصول سکھاتا ہے جو مظاہر سے آہستہ آہستہ دور لے جاتے ہیں۔ اگر چہ انسان مظاہر میں پھنسار ہتا ہے لیکن اس کی روح مظاہر سے ہٹ جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ پروگرام آپ کو اللہ کے قریب کر دیتا ہے اور اس قدر قریب کر دیتا ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :میں تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہوں”۔روزے جو حاصل زندگی کی عمومی خواہشات سے ترک ہیں ، حواس کو جلا دیتے ہیں اور حواس کو ایک نقطہ پر مجتمع کرتے ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حواس پانچ ہیں۔ ایسا نہیں ہے حو اس بہت زیادہ ہیں۔ پانچ ظاہری حواس کے علاوہ پردے میں اور بہت سے حواس ہیں جو ”ترک“ سے منکشف ہوتے ہیں۔ ظاہری حواس اور ظاہری اعمال و خواہشات کا ترک انسان کو خود سے قریب کر دیتا ہے۔ جب آپ انتہائی ترک پر ہوتے ہیں یعنی کم بولتے ہیں ، کم سوتے ہیں، کم سوچتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو کم سوچنے سے آپ کی فکر کا مجلی ہونا لازمی ہے۔ ایک روشنی آپ کے دماغ میں دل میں اور سینہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جو ظاہر احواس میں کام کرتی ہے۔ یہ روشنی آپ کی فکر میں رہنمائی کرتی ہے۔ یہی روشنی ہے جس کے ذریعے آپ بہت کی باتیں جو مستقبل میں ہونے والی ہیں دیکھ سن اور سمجھ لیتے ہیں، قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلۃ القدر “ رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور روزے کی جزا میں خود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ”ہم نے نازل کیا اس کو ( قرآن پاک) کو لیلتہ القدر میں لیلۃ القدر محیط ہے ہزار مہینوں کو اس رات میں ملائکہ اور ارواح اترتی ہیں اپنے رب کے حکم سے اور یہ رات امان اور سلامتی کی رات ہے طلوع فجر تک۔ فرمان الہی کے مطابق لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہماری عام رات کے حواس کی مقدار اس رات میں (جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے ) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہینوں میں تمیں ہزار دن اور تیسں ہزار راتیں ہوتی ہیں۔
سوال : نام کا انسانی زندگی سے کیا رشتہ ہے اور نام مستقبل پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں ؟
جواب : نام رکھنے والے انسان ہی ہوتے ہیں وہ قریبی ہوں یا دور کے رشتہ دار جب نام رکھا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر نانا دادا ماں باپ، نانی دادی اور دوسرے گھر والے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ بعض ناموں میں سوچ بچار کو دخل زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے نام جن میں سوچ بچار زیادہ ہوتا ہے عام طور پر اعتدال کی زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوچ بچار میں بہت سارے خیالات کی لہریں مل جل کر ان ناموں کو متاثر کرتی ہیں اور خیالات کی یہ لہر میں تقریبا پورے خاندان کی ذہنی واردات و کیفیات اور عملی زندگی کا عکس ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر پورے خاندان سے ان ناموں کو کچھ نہ کچھ ورثہ ملتا ہے لیکن بعض نام اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ کسی نے سنالڑ کا پیدا ہوا ہے اور اس نے ایک نام تجویز کر دیا۔ یہ نام بغیر کسی ردوبدل کے اس خاص شخص کی طبیعت قبول کر لیتی ہے جس نے نام رکھا اور یہ طبیعت اس شخص کے لئے جس کا نام رکھا گیا ہے ورثہ بن جاتی ہے۔ بعض نام رؤسا اور خواص کے بچوں کے ہوتے ہیں۔ ان ناموں میں کچھ کچھ سقم شامل ہوتا ہے۔ اس لئے وہ نام ایسے لوگوں کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کی کیفیات و واردات ایک دوسرے سے متضاد ہوتی ہیں جن کی بنا پر ان کا مزاج گھڑی گھڑی بدلتا ہے۔ وہ ایک مقام پر جم کر کبھی نہیں ٹھہرتے۔ ان کی طبیعت میں بہت غرور ہوتا ہے اور وہ غرور ان کی زندگی میں قدم قدم آڑے آتا ہے۔ یہ لوگ کانوں کے کچے اور خوشامدی ہوتے ہیں۔ اکثر ان کی جان خطرے میں رہتی ہے۔ بعض بچوں کے نام نہایت بے دلی سے رکھے جاتے ہیں۔ نام کے معنی اور مفہوم پر کوئی غور نہیں کیا جاتا۔ ان چوں میں اکثریت بد اخلاق اور بد تمیز ہوتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو ان کی تربیت ہی نہیں ہوتی یا ان کے والدین تربیت سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ زندگی کے کسی موڑ پر آکر یہ بچے والدین اور معاشرے سے بغاوت کر دیتے ہیں نتیجہ میں بہت سے بچے جرائم پیشہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری قوم کی اکثریت تنگ دستی کی وجہ سے معاشرہ کے تمام بندھنوں سے خود کو آزاد تصور کرتی ہے۔ معاشرہ کی پابندی وہ قوم کر سکتی ہے جس میں اعلیٰ تعلیم ہو۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اس کا اخلاق بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر اس میں صحیح کمانے کے ذرائع شروع ہی سے پرورش پا جاتے ہیں۔ بہت دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم میں یہ تمام باتیں مفقود ہیں۔ اگر ایسے نظام میں غور و فکر کے بعد ایسے نام رکھے جائیں جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں تو اچھے آدمی پیدا ہو سکتے ہیں اور اچھے آدمی بنائے جا سکتے ہیں، اس لئے کہ پورے معاشرے کا اثر پوری قوم کے ہر فرد پر پڑتا ہے اگر فرد باشعور ہو تو اجتماعی شعور کو جانتا ہے اور ساتھ ساتھ اجتماعی شعور رکھتا ہے اور اجتماعی شعور سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سید عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے بچوں کے نام ایسے رکھو جو معانی و مفہوم کے اعتبار سے اچھے ہوں۔
سوال : انسان کی زندگی اطلاعات پر قائم ہے۔ اطلاعات تقاضوں کو جنم دیتی ہیں اور تقاضوں کی تکمیل سے زندگی آگے بڑھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ہی جیسی اطلاعات سب کو ملتی ہیں تو مقدرات اور نظریات میں تضاد کیوں ہوتا ہے اور انسان ایک طرز پر زندگی کیوں نہیں گزارتے ؟ جواب : جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اس روشنی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور ابعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری سطح میں ابعاد ہیں۔ ابعاد کی سطح اس روشنی کی گہرائی میں واقع ہے۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطلاع دیتی ہے خو اس انہیں براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطلاعات کی پوری گرفت نہیں کرتے۔ دراصل جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے موصول ہوتی ہیں یہی اطلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کے باوجود سے اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطلاعات دو قسم کی ہیں۔ (1) وہ اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے۔(۲) وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہو تیں۔ ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر جانب دارانہ ہوتا ہے۔ اطلاعات کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ انسان کے پاس ادراک کے دو زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسر اوہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے لیکن جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب ہم انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی ہے۔ جس زاویے میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیا کے ساتھ اپنا ادراک کرتے ہیں۔ اور اک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ اس کو ہم تجرباتی دنیا کہتے ہیں۔ ایک طرف کا ئنات کو اپنی انفرادی دنیا میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ دوسری طرف اپنی انفرادیت کا ئنات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی کرتے۔ ہیں اور دوسری طرف کا ئنات کی جب یہ دونوں ترجمانیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو غلط ثابت کرنے کے لیے تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے مریضوں سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو اطلاعات کے روحانی علم سے واقع ہو۔ ذاتی اغراض سے آزاد یہ شخص روحانی انسان ہے جو اپنے شاگردوں کو ذاتی اغراض کے جال سے نکال کر حقیقت سے متعارف کرا دیتا ہے۔
مذید عنوانات جو مراقبہ کے متعلق ہیں ان پہ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ جوں جوں مکمل ہوتے جائیں گے یہاں شامل کر دئیے جائیں گے
ان شاء اللہ