مسئله:زید مڈل اسکول کا ٹیجر ہےصوم وصلوۃ کا پابند بھی ہے۔ نس بندی کے دنوں میں نس بندی کاجو زور تھا اس سے ہر شخص واقف ہے ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے نوٹس آئی جس میں صاف طور سے لکھا ہوا تھا کہ فیملی پلاننگ کے تحت اپنی یا اپنی اہلیہ کی نس بندی کرائیے نوٹس پر زید نے عمل نہیں کیا اسکے معطلی کا کاغذ آیا زید نے کاغذلیا اور تہیہ کرلیا کہ نس بندی نہیں کراؤں گا بھلے مجھے مستعفی ہونا پڑے کچھ ہی دنوں کے بعد تعلیمی محکمے کے بڑے افسر نے بلاک کے جملہ اساتذه کو جمع کر کے خطاب کیا کہ کوئی شخص استعفیٰ دیكر بھی نسبندی سے نہیں بچ سکے گا ہمارے ملک کا قانون ہے ہندوستان میں رہ کر اسکی مخالفت کرنا بغاوت کے مترادف ہوگا تعلیمی افسرنے یہ بھی کہا جو ماسٹر نسبندی نہیں کراتا ہے اسے میسا کے تحت جیل جانا پڑے گا ان حالات کے پیش نظر زید نے مجبور ہو کر نسبندی کرا لی اب نسبندی کرانے کے بعد زید ذلیل نگاہوں سے دیکھا جائے گا کیا اس کی امامت و اذان واقامت وغیرہ جائز ہے؟
الجواب: جب کہ نسبندی کے بارے میں حکام نے دہشت پھیلا رکھی تھی اور ملازمین کو طرح طرح کی دھمکیوں سے ڈرایا جا رہا تھا اس صورت میں اگر زید نے مجبورا نسبندی کرائی تو اسے مجرم نہیں قرار دیا جائے گا لیکن احتیاطاً وہ علانیہ توبہ کرلے اب توبہ کے بعد بھی نسبندی کے سبب زید کی امامت اور اذان و اقامت پر اعتراض کرنے والے اور اسے ذلیل نگاہوں سے دیکھنے والے بلاشبہ گہنگار مستحق عذاب نار ہوں گے
حدیث شریف میں ہے
التائب من الذنب كمن لا ذنب له.
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
وهو تعالى اعلم
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
صفحہ 263 جلد 1