حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے ہر کمالات اور معجزات سے نوازا، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے بہترین رہنما کے ساتھ ساتھ بہترین معالج بھی تھے۔ آپ نے اپنی حیات میں نا قابل علاج مریضوں کا علاج کیا اور ایسے طریقے بتائے آج سے ۱۴۰۰ سو سال پہلے جن تک جدید سائنس اب پہنچی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے لمس اور چھونے کے ذریعے کئی امراض کا علاج کیا اس سلسلے میں ہم چند روایات پیش کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک عورت اپنے لڑ کے کو لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس لڑکے کو جنون کا مرض ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اس کے سینے پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ کچھ دیر بعد لڑکے کو سیاہ رنگ کی قے ہوئے اور اسے جنون کے مرض سے نجات مل گئی۔
یزید بن قنافہ کا تعلق حاتم طائی کے خاندان سے تھا۔ وہ گنجے تھے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر دست مبارک پھیرا۔ اس سے ان کا گنج دور ہو گیا اور ان کے سر پر اس کثرت سے بال اگ آئے کہ ان کا لقب ”بلب“ یعنی بہت زیادہ بالوں والا ہو گیا۔
حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جسم میں درد کی شکایت کی ۔ حضور علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا: اپنا ہاتھ اس جگہ پر رکھ جہاں درد ہے اور پھر بسم اللہ پڑھ اور سات بار کہہ: أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ اللہ نے میری تکلیف دور فرمادی۔
حضرت ابیض رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر داغ تھا جس سے چہرہ بدنما لگتا تھا۔سید نا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک روز انہیں اپنے قریب بلایا اور سامنے بٹھا کر ان کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ داغ کے نشانات چہرے پر سے ختم ہو گئے اور چہرہ صاف و شفاف ہو گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوڑھیوں، نابیناؤں، اور لاعلاج مریضوں پر دست مسیحائی رکھتے تو وہ صحت سے ہمکنار ہو جاتے۔ آپ علیہ السلام کے دست مسیحائی کی اتنی شہرت تھی کہ بیمار اور بے کس لوگ آپ کے گرد پروانہ وار جمع رہتے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے اس دست مسیحائی کو رائل ٹچ کا نام دیا گیا
صوفیائے اسلام سے بھی اسے واقعات کثیر تعداد میں ملتے ہیں جن میں انہوں نے مریض کو چھو کر اس کا مرض رفع کر دیا۔ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ بھی ایک ایسے روحانی بزرگ تھے جن کے دست شفقت سے بہت سے مریض صحت یاب ہوئے ۔ بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ جس دور میں پاگل خانے میں جلوہ افروز تھے اور قرب و جوار میں آپ کی شہرت پھیل رہی تھی۔ سردار خاں صاحب کا ایک ہاتھ مفلوج ہو گیا اور اس میں خون کی روانی درست نہ رہی ۔ متاثرہ ہاتھ میں بڑی جلن اور در درہتا۔ اس اثناء میں سردار خاں کو ان کے سر اپنے ساتھ پاگل خانے لے گئے ۔ بابا تاج الدین نے سردار خاں کے متاثرہ ہاتھ کی ایک انگلی پکڑی اور کہنے لگے۔ بڑی جلن رہے، بڑا در درے“ (یعنی بہت جلن اور درد ہے ) بابا تاج الدین یہ الفاظ ادا کرتے جارہے تھے اور سردار خان کو اپنے ہاتھ میں توانائی بحال ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ کئی بار یہ جملے ادا کرنے کے بعد بابا صاحب نے جھٹکے سے انگلیاں چھوڑ دیں۔ سردار خاں نے محسوس کیا کہ ان کا ہاتھ پوری طرح کام کر رہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ:
جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمار ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ اس کے جسم پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے ۔
اذهب الناس رب الناس واشف انت الشافي لا شفاء الاشفائك شفاء لا يغادر سقما.
اے سب انسانوں کے پروردگار اس بندے کی تکلیف دور فرما اور شفا عطا فرما تو ہی شفا دینے والا ہے بس تیری ہی شفا شفا – ہے ایسی کامل شفا جو بیماری بالکل نہ چھوڑے۔“
کسی شخص کو نیک نیتی اور عقیدت سے چھونا یا اپنے سر اور جسم پر کسی بزرگ، نیک اور صاحب دل انسان کا ہاتھ پھر وانا ، دونوں ہی سچ پوچھئے تو عقیدے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا لمس دیکھتے ہی دیکھتے کا یا پلٹ دیتا ہے۔ اللہ کے بے شمار بندے جن کی نیتیں صاف اور ایمان پختہ ہوتا ہے، چوں کہ قربت الہی کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں اس لیے ان کے لمس سے امراض ، تکالیف اور دکھ درد دور ہو جاتے ہیں ۔
آئیے لمس اور چھونے کے ذریعہ علاج پر جدید سائنس کیا کہہ رہی ہے ملاحظہ فرمائیں:
سائنسی حلقے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں کہ لمس کے ذریعے کسی کی بیماری کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ توانائی کے چینلز اور کائناتی توانائی بھی مادیت پسند سائنسی حلقوں کے زیر تنقید بنتے ہیں مگر ایسے کتنے ہی سائنسی شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ لمس کا جذبات، احساسات یہاں تک کہ نشو و نما پر بھی اثر ہوتا ہے۔
مونٹریال کی میگ گل یونی ورسٹی میں ڈگلاز ہسپتال ریسرچ سینٹر سے وابستہ مائیکل مینی نے ایک انکشاف کیا ہے کہ جب چوہوں کے بچوں کو پیدا ہونے کے بعد پہلے ہفتے سے تیسرے ہفتے تک محبت سے ہاتھ پھیرا جائے تو ان میں ایک مادہ فروغ پاتا ہے جو گلوکوکورٹی سائڈ کی پیداوار کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہ کیمیائی اجزاء پٹھوں کو سکیڑتے ، انسولین کی حس کو ختم کرتے ، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو بڑھاتے یا جسم کی بڑھوتری کو روکتے اور دماغ کے خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
گلوکوکورٹی سائڈ کو قابو کرنے والا مادہ چوہوں کے بچوں میں لمس سے پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر ساری عمر باقی رہتا ہے۔ گلوکوکورٹی سائڈ کے سلسلے میں یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان بھی کیمیائی اجزاء کا وہی مادہ پیدا کرتے ہیں جو چوہے پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر انسان کے بچوں کو بھی ابتدائی عمر میں لمس کی حرارت ملتی رہے تو وہ بھی چوہوں کی طرح گلوکوکورٹی سائڈ پر قابو پاسکیں گے۔
نیو یارک یونی ورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ لمس کے اثر سے لبلبہ کے غدود سے ڈسپین (Dispin) نامی انزائیم کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ انزائیم پروٹین پر عمل کرتا ہے۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لمس کے ذریعے جسم میں کیمیائی رد عمل ہوتا ہے اور انزائیم اور ہارمون پر اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کریز رنامی خاتون نے میڈیکل ریسرچ سینٹر میسا چوسٹس میں ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے انیس افراد کا انتخاب کیا جن میں سے دس بیمار تھے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ جسم کے اندرونی نظام اخراج خصوصاً خون کے سرخ خلیات پر لمس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔
یہ دنیا ایسی مثالوں، واقعات اور شواہد سے معمور ہے جنہیں کسی بھی طرح جھٹلایا ہے کی ؟ نہیں جا سکتا۔ روس کے ایک دور دراز قصبہ بائی اور میں رہنے والی تیرہ سالہ لڑکی انگا کی دور رہتے ہتھیلیوں میں قدرتی طور پر ایسی کشش پوشیدہ ہے جس سے وہ کچھ دور رکھی ہوئی اشیاء کو آسانی سے کھینچ کر اٹھالیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی پھیلی زیادہ سے زیادہ چار کا کی کلو وزنی کسی بھی چیز کو اٹھانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس کے والد کا بیان ہے کہ جب انگا چھوٹی تھی تو اکثر دور کھڑی ہو کر اپنی ہتھیلیوں کو کھول کر کھڑی ہو جاتی ۔ چند منٹوں کے بعد اس کے ہاتھوں کی گرمی میرے گالوں پر محسوس ہونے لگتی
۱۵ جنوری ۱۸۴۶ ء کا واقعہ ہے کہ فرانس کی رہنے والی چودہ سالہ انجلک کوٹین پر فرانس کی اکیڈمی آف سائنس نے ایک تحقیقی ٹیم مقرر کی۔ ٹیم کے فزیالوجسٹ فرانکوئس نے فروری ۱۸۴۶ء میں جرنل ڈلیس ڈیبیٹ میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے لکھا کہ:
انجلک کو ایک دورہ پڑتا تھا تو نبض کی رفتار ۱۲۰ سے تجاوز کر جاتی تھی۔ اس دوران اگر اس کے قریب قطب نما رکھ دیا جاتا تو اس کی سوئیاں سمت کا تعین بھول جاتیں اور چاروں طرف بے ترتیبی سے حرکت کرنے لگتیں۔“
۱۸۹۰ء میں میسوری میں رہنے والی ایک عورت جینی مارگن ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنی رہی۔ پرندے اور جانور اس سے دور بھاگتے تھے۔ اس دوران اگر کوئی اس سے مصافحہ کرتا تو بے ہوش ہو جاتا۔
کیمیائی رد عمل ہوتا ہے اور انزائیم اور ہارمون پر اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر کریز رنامی خاتون نے میڈیکل ریسرچ سینٹر میسا چوسٹس میں ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے انیس افراد کا انتخاب کیا جن میں سے دس بیمار تھے۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ جسم کے اندرونی نظام اخراج خصوصاً خون کے سرخ خلیات پر لمس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ یہ دنیا ایسی مثالوں، واقعات اور شواہد سے معمور – معمور ہے جنہیں کسی بھی طرح جھٹلایا کی ؟ نہیں جا سکتا۔ روس کے ایک دور دراز قصبہ بائی اور میں رہنے والی تیرہ سالہ لڑکی انگا کی دور رہتے ہتھیلیوں میں قدرتی طور پر ایسی شش پوشیدہ ہے جس سے وہ کچھ دور رکھی ہوئی اشیاء کو آسانی سے کھینچ کر اٹھا لیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی ہتھیلی زیادہ سے زیادہ چار کا کی کلو وزنی کسی بھی چیز کو اٹھانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس کے والد کا بیان ہے کہ جب انگا چھوٹی تھی تو اکثر دور کھڑی ہو کر اپنی ہتھیلیوں کو کھول کر کھڑی ہو جاتی ۔ چند منٹوں کے بعد اس کے ہاتھوں کی گرمی میرے گالوں پر محسوس ہونے لگتی ۔ ۱۵ ار جنوری ۱۸۴۶ ء کا واقعہ ہے کہ فرانس کی رہنے والی چودہ سالہ انجلک کو ٹین پر فرانس کی اکیڈمی آف سائنس نے ایک تحقیقی ٹیم مقرر کی۔ ٹیم کے فزیالوجسٹ فرانکوئس نے فروری ۱۸۴۶ء میں جرنل ڈلیس ڈیبیٹ میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے لکھا کہ: انجلک کو ایک دورہ پڑتا تھا تو نبض کی رفتار ۱۲۰ سے تجاوز کر جاتی تھی۔ اس دوران اگر اس کے قریب قطب نما رکھ دیا جاتا تو اس کی سوئیاں سمت کا تعین بھول جاتیں اور چاروں طرف بے ترتیبی سے حرکت کرنے لگتیں۔“ ۱۸۹۰ء میں میسوری میں رہنے والی ایک عورت جینی مارگن ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنی رہی۔ پرندے اور جانور اس سے دور بھاگتے تھے۔ اس دوران اگر کوئی اس سے مصافحہ کرتا تو بے ہوش ہو جاتا۔
انسائیکلو پیڈیا آف سائیلک سائنس میں سینٹ اربن (فرانس) کے ایک نومولود لڑکے کا ذکر ہے۔ جو کوئی بھی اسے ہاتھ لگا تا بجلی کا جھٹکا محسوس کرتا ۔ یہ بچہ چند ماہ زندہ رہا پھر فوت ہو گیا۔ پر دے اٹھتے جارہے ہیں اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آدمی کے اندر برقی مقناطیسی قوت موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت کمزور پڑ جائے تو بیماری آگھیرتی ہے۔ بچ تو ھراپی کا عالی اپن جس کی طاقور برقی نایسی قوت سے مریض کو فہ کرتا ہے تو اس کے جسم میں بھی یہ قوت معمول پر آجاتی ہے۔
ساؤتھمپٹن (انگلستان) کے جنرل ہسپتال کے معالجین نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے فنگر پرنٹس کے ماہرین کی مدد سے کھوج لگایا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کے انگلیوں کے نشان چکر دار ہوتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ جن افراد کی بالخصوص سیدھی تھیلی زیادہ طویل ہوتی ہے، ان میں اس مرض میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں انکا شائر میں ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۳ء کے عرصے میں پیدا ہونے والے ۱۳۹ / مرد اور خواتین کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ چکر دار نشانات انگشت رکھنے والوں کا بلڈ پریشر سادہ محراب نما نشانات والوں کے مقابلے میں ۸ ملی میٹر زیادہ تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ نشانات اور چھوٹی ہتھیلی اس بات کا بھی کھلا ثبوت ہوتے ہیں کہ دوران حمل جنین کو صحیح نشو و نما کا موقع نہیں ملا۔
ٹچ تھراپی کے جدید معالجین بتاتے ہیں کہ لمس یا چھونے کے ذریعے علاج کا طریقہ انبیائے کرام، روحانی بزرگوں اور ماورائی قوتوں کے مالک مخصوص حضرات تک محدود نہیں ہے بلکہ کوئی بھی ایسا شخص جو اپنی باطنی قوت سے واقف ہو جائے یا اس قوت کے اجتماع اور اسے دوسرے لوگوں میں منتقل کرنے کے فن سے واقفیت حاصل کر لے تو وہ لوگوں کا علاج کر سکتا ہے۔
اس کی ایک مثال ہیری ایڈورڈ کی ہے جو بچ تھراپی کے ذریعے ۱۹۴۴ء تک لوگوں کا علاج کرتا رہا حالانکہ وہ کوئی روحانی اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک نہیں تھا۔ اسی طرح ۱۹۷۱ء تک نیو یارک میں ایک خاتون معالج ڈاکٹر ڈولر ز کریز رکا بڑا شہرہ تھا۔ ایک ایسے ہی معالج ڈاکٹر البرٹ ابراہام جو برطانیہ سے ترک وطن کر کے سان فرانسکو (امریکہ) میں آباد ہو گئے تھے۔ انہوں نے اعصابی بیماریوں میں اسپیشلائزیشن کی تھی اور اپنے دور کے نامور نیورالوجسٹ تسلیم کیے جاتے تھے۔ انہوں نے بیچ تھراپی کے پس پردہ قوت کو تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ۔ ڈاکٹر ابراہام کا خیال تھا کہ جسم کے ہر عضو سے ریڈی ایشن ہوتی ہے لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کا پتہ کس طرح لگایا جائے ۔ وہ لکھتے ہیں : چونکہ ہر مادی جسم سے مسلسل برقی مقناطیسی لہروں کا اخراج ہوتا رہتا ہے اس سے انسانی رگ وریشہ سے بھی اس نوعیت کی ریڈی ایشن ہونی چاہیے جو کہ مادی اجسام کا خاصہ ہے۔ بیماری کی حالت میں رگ وریشہ میں تبدیلیاں پیدا ہو کر ریڈی ایشن میں جو تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اس کا علم ہونا چاہیے۔“ انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ ایک ایسا آلہ بنانے اور اس کی تلاش اور تجربات میں خرچ کر دیا جو کہ ریڈی ایشن کا پتہ چلا سکتا ہو لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ ایک روز وہ ایک کینسر کے مریض کا معائنہ کر رہے تھے۔ معائنہ کے دوران انہوں نے مشاہدہ کیا کہ جب وہ مریض کے بیماری سے متاثرہ حصہ پر اپنا ہاتھ لگاتے ہیں تو ان کے جسم میں بجلی کی لہر کی طرح کا رد عمل ہوتا ہے۔
اس رد عمل کا نام ڈاکٹر ابراہام کے نام پر Electronic Reaction of Abrahams Era رکھا گیا ہے
ڈاکٹر ابراہام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ مریض کو کوچ پر لٹا کر اس کے جسم کا اچھی طرح معائنہ کرتے ۔ اس دوران وہ اپنی دو انگلیوں سے مریض کے اعضاء کو ٹھونکتے اور عضو کی سختی یا نرمی کو محسوس کرنیکی کوشش کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ ایک زیر معائنہ مریض کے اعضاء کو انگلیوں سے بجا کر آواز سننے کی کوشش کر رہے تھے۔
اچانک ایک عضو کے معائنہ کے دوران انہیں اپنے جسم میں عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی ۔ دو تین بار اس عمل کو دہرانے پر وہی بےچینی محسوس کی ۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے مزید دو تین مریضوں پر یہ تجربہ کیا اور ایسا ہی محسوس کیا
ڈاکٹر ابراہام مریض کی بیماری کو اپنی انگلیوں سے ڈھونڈتے ہیں، جس میں وہ مریض کی تکلیف کے مقام پر انگلیاں رکھتے ۔ اگر ان کے جسم میں ایک ناگوار لہر آکر گزر جاتی یا اپنے جسم میں بھی اسی مقام پر بے چینی پھیل جاتی تو وہ سمجھ جاتے کہ بیماری اس جگہ ہے۔ ریفلیکسولوجی کے ماہرین بھی بیماری کی تشخیص کم و بیش اسی طرح کرتے ہیں ۔ یہ معالج کی ایک کلاسیکل کوالٹی ہے۔
ا۔ انگلیوں سے دباؤ:
دباؤ کے ذریعے علاج کے لیے انگلیوں کو درج ذیل طریقوں سے استعمال کر سکتے ہیں۔
۱- درمیانی انگلی کا دباؤ ہتھیلی کی ہڈیوں اور انگلیوں کے درمیان کے جوڑ (Metrcarpophalangal) پر انگلیوں کو موڑیں اور شہادت کی انگلی کو درمیانی انگلی کے نچلے پور سے ملائیں اور باقی دونوں انگلیاں (چھوٹی اور انگوٹھے والی ) سختی سے بند کر لیں۔ درمیانی انگلی سے دباؤ کا یہ طریقہ تیز دباؤ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۲-درمیانی اور شہادت کی انگلیوں کو آپس میں ملا کر تھوڑا سا موڑ لیں، اور پھر انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کے نچلے پور سے ملا ئیں ۔ باقی دونوں انگلیاں ( چھوٹی اور انگوٹھے والی ) کو سختی سے درمیانی انگلی سے ملائیں ۔ یہ طریقہ عام طور پر ہلکے یا درمیانے درجے کے دباؤ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۳- تمام انگلیوں کے کناروں کو آپس میں ملالیں اور ہلکا سا موڑ میں علاج کے دوران معالج باند و کی طاقت کے ذریعے انگلیوں کو طاقت فراہم کرتا ہے اور ویے سے پھر انگلیوں کی پچک اور طاقت سے جسم پر ۲۰ سے ۹۰ درجے کے زاوے دباؤ پڑنے چاہئیں۔ ایکو پنکچر پوائنٹس یا تحریکی لیکہ لکیروں کے ں پر دباؤ کے لیے انگلیوں کی ٹپس (Tips) استعمال کی جاتی ہیں اس دوران معالج کی کلائی مکمل لچکدار ہونی چاہئیں ۔ دبا ؤ عام طور پر ایک سیکنڈ میں دو یا تین بار دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی چار سے چھ بار بھی ضروری ہو سکتا ہے ۔ انگلیوں کو خاطر خواہ طاقت کے ذریعے استعمال کرنا چاہیے۔ تا کہ جسم کی گہرائی تک دباؤ جا سکے ۔ اگر صرف طاقت ہو لیکن لچک نہ ہو تو جسم پر چوٹ جیسا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور اگر صرف لچک ہو قوت نہ ہو تو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے ۔
الف ہلکی قوت:
ہلکی قوت سے دباؤ کے لیے کلائی کی قوت کافی ہے، جب کہ کہنی اور کندھے اس قوت میں مددگار ہوتے ہیں۔ کلائی پر لچک زیادہ ہونی چاہیے جب کہ طاقت کم استعمال کی جائے ۔ ملکی قوت کا استعمال بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لیے موزوں ہے۔
ب -درمیانی قوت
کہنی کے جوڑ کی حرکت اور نچلے بازو کی طاقت سے درمیانے درجے کا دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ کہنی پر بازو کوذ را موڑ کر رکھیں ، کندھے کی حرکت اس قوت میں مددگار ہوتی ہے۔ درمیانے درجے کی قوت سے قوت حیات خصوصاً دفاعی توانائی اور ین یانگ کے توازن کو برقرار یا بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں اور عضلات کی گہرائی تک علاج کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جسم میں قوت حیات کی کمی ہو یا زیادتی دونوں صورتوں میں درمیانے درجے کی قوت سے علاج مؤثر ہے۔
ج- جاندار قوت:
اس کے لیے کندھے کے جوڑ پر حرکت سے بالائی بازو کی قوت درکار ہوتی ہے۔ کلائی کو موڑ کر رکھیں جب کہ کہنی کی حرکت مددگار ہوتی ہے۔ اس قوت کا استعمال نو جوانوں، مضبوط جسمانی بناوٹ اور توانائی کی زیادتی کے لیے موزوں ہے۔
۲۔ انگوٹھے سے دباؤ:
انگوٹھے سے دباؤ کے ذریعے علاج میں انگوٹھا دو طرح استعمال ہوتا ہے۔
۱- انگوٹھے کو مکمل طور پر سیدھا (Full Extended) رکھیں اور پوائنٹ کو تقریبا ۴۵ سے ۹۰ درجے کے زاویے سے دبائیں ۔ انگلیوں کو دباؤ کے مقام کے مخالف رکھیں ۔
۲- انگلیوں کو موڑ کر مٹھی بنالیں جب کہ انگوٹھا بالکل سیدھار ہے۔ اس انگوٹھے کو جوز کی لکیر سے شہادت کی انگلی سے مار لیں ۔
انگوٹھے کے دباؤ سے علاج بہت عام طریقہ ہے جسے عام امراض، پوائنٹس اور تحریکی لکیر پر استعمال کیا جاتا ہے، انگوٹھے سے دبا کر دائیں بائیں یا اوپر نیچے حرکت دے سکتے ہیں۔ اسے پریشنگ اسٹرینگ میتھڈ Pressing Stirring) (Method کہتے ہیں ۔ دباؤ کے دوران انگو ٹھے کو گھمایا جا سکتا ہے۔ اس پر یشنگ ٹاؤیسٹنگ میتھڈ دونوں طریقوں میں انگوٹھا جلد سے ملا رہے تا کہ جلد پر رگڑ نہ لگے ۔ دباؤ جاندار ہونا چاہیے۔
انگوٹھے سے دباؤ کے ذریعے قوت حیات کی زیادتی کا علاج کیا جاتا ہے اس سے دوران خون بحال ہوتا ہے، درد دور ہوتا ہے اور عضلات کے کھنچاؤ میں کمی لائی جاتی ہے۔
۳۔ ناخن سے دباؤ:
معالج اپنے ناخن کے ذریعے مریض کی انگلیوں کے ناخن کے سروں کو تیزی سے دبا کر علاج کرتا ہے۔ ہاتھ اور پیر دونوں کی انگلیاں علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں ، ناخن کی جڑ کے کنارے کا گوشت دبایا جاتا ہے۔ تمام ایک پینچر چینلز ناخن کے سروں سے شروع ہوتے ہیں یا ان پر ختم ہوتے ہیں ان پوائنٹس کو جنگ ویل پوائنٹ کہتے ہیں اور ایمر جنسی علاج میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بیرونی موسمیاتی عوامل کے سبب ہونے والے امراض میں بے حد موثر ہیں۔ مثلا تیز بخار ، شدید درد، سر درد، فالج ، شدید الٹیاں، بے ہوشی غشی وغیرہ۔ علاج کے دوران معالج ، مریض کا ہاتھ کلائی سے پکڑلے اور اپنے ہاتھ کے انگوٹھے یا شہادت کی انگلی کے ناخن سے دبائے ، اسی طرح پیر کی انگلیوں کے ناخن کی جڑوں کو دبانے کے لیے پیر کو ٹخنے سے پکڑ کر رکھیں ۔
۴-تھپکنا :
معالج اپنے ہاتھ کی تمام انگلیوں اور انگوٹھے کو آپس میں ملا کر تھوڑا سا موڑ لیتا ہے اور پھر علاج کے مقام کو اس طرح تھپکتا ہے کہ انگلیوں کے سرے اور تھیلی کے ابھار جسم کو لگیں۔ یہ درمیانی درجے کی تحریک ہے جو جسم کے کسی بھی حصے پر کی جاسکتی ہے۔ معالج اپنی کلائی کی حرکت استعمال کرتا ہے۔ تھپکنے سے قوت حیات اور خون کا دوران بہتر ہو جاتا ہے، چینل میں موجود رکاوٹ دور ہوتی ہے اور معدہ، تلی اور گردے کے افعال بحال ہوتے ہیں۔ اسے توانائی کی کمی یا زیادتی دونوں امراض میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے دبلے پن کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔
۵-ٹھونکنا :
ہاتھ کی تمام انگلیوں کے سروں کو انگوٹھے کے سرے کے ساتھ آپس میں ملا کر موڑ لیں اور علاج کے مقام پر پھونکنے کے انداز میں بار بار ماریں ۔
۶ ۔ دبانا اور جنبش دینا:
علاج کے مقام کو پانچوں انگلیوں کے سروں سے دبا کر انہیں اوپر نیچے، دائیں بائیں حرکت دیں، بیک وقت دونوں ہاتھوں سے علاج کیا جاتا ہے۔
۷۔ دبانا اور کھینچنا:
اس طریقے میں ہاتھ یا پیر کی انگلیوں کے جوڑوں کو دبا کر کھینچا جاتا ہے۔ یہ با طریقہ جوڑوں کی سوجن دور کرنے اور انگلیوں کے افعال کو بحال کرنے کے لیے مفید ہے۔ –
۸-عضلے کو پکڑنا اور چھوڑنا:
معالج متاثرہ عصلے اور ٹشوز کو اپنی انگلیوں اور انگوٹھے سے پکڑ کر اپنی گرفت میں جکڑتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے عام طور پر ایسے حصے جہاں عضلہ اور ٹینڈن واضح ہو اور اس میں سے نروگزر رہی ہو اس پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مثلا بازو کے ہائی سپس عصلے کو پکڑنا ہو تو ایک جانب چاروں انگلیاں اور دوسری جانب انگوٹھا استعمال کریں۔ پیٹ کے مسل ریکٹس ایبڈومینس کے لیے مریض گہرا سانس لے۔ اس دوران دائیں مسل کے بیرونی کنارے کے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں اور بائیں مسل کے بیرونی کناروں کو باقی انگلیوں سے پکڑ کر او پر ھینچیں اور پھر اسے تیزی سے چھوڑ دیں۔ دوسرا گہرا سانس لینے پر دوبارہ ایسا کریں۔ اس طرح دویا تین بار کریں۔ پہلی مرتبہ اس مسل کے اوپری حصے پر یہ طریقہ استعمال کریں اس کے ے دور بعد اس سے نیچے اور آخر میں سب سے نچلے حصے پر یہ طریقہ چینل کی رکاوٹ دور کرنے اور قوت حیات اور خون کے دوران کو بحال کرنے میں مؤثر ہے۔
۹ – ضرب لگانا ( گھونسا مارنا ):
ہاتھ کو گھونسا بنا کر ہتھیلی کی چھوٹی انگلی والا حصہ جسم پر ماریں۔ اس کے اثرات گہرائی تک ہوتے ہیں اور جلد پر سرخی ، ورم اور دکھن ہو سکتی ہے۔ عام طور پر عضلات کے امراض میں فائدہ مند ہے۔۱۰۔ جوڑ اور ہڈی بٹھانا :
ا۔ گھٹنے کے لیے:
مریض کو کمر کے بل لٹا کر معالج اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر رکھ کر ان سے مریض کے گھٹنے کو نیچے کی طرف دبائے ۔ اس طریقے کو عام طور پر پولیو، فالج ، یا دماغی معذوری کے سبب گھٹنے پر کھنچاؤ ، سکڑاؤ یا ٹیڑھے پن میں استعمال کیا جاتا ہے۔
۲۔ پیر کے لیے:
پیر کے علاج کے لیے درج ذیل طریقے استعمال ہوتے ہیں۔
۱-مریض کمر کے بل لیٹ جائے اور متاثرہ ٹانگ کے گھٹنے اور ٹخنے کو موڑ لے معالج اپنے ایک ہاتھ سے نخنے کو سامنے سے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے گھٹنے پر دباؤ ڈالے۔ اس دباؤ میں معالج اپنے سینے سے بھی گھٹنے پر دباؤ ڈالے۔
۲-مریض کمر کے بل لیٹ کر ذرہ گھٹنے کوموڑ لے اور معالج ایک ہاتھ سے پیر کے تلوے اور پنجے کو پکڑ کر اوپر کی طرف دباؤ ڈالے جب کہ دوسرے ہاتھ سے اوپر کے گھٹنے کو نیچے کی طرف دبائے۔ یہ طریقہ پولیو، فالج ، دماغی معذوری، پیدائشی طور پر ٹخنے پر ڈھیلا پن یا پیر کے اندر کی جانب مڑا ہوا ہونے میں استعمال ہوتا ہے۔
۳-مریض پیٹ کے بل الٹا لیٹ جائے اور اپنی متاثرہ ٹانگ کے گھٹنے کو ۹۰ درجے کے زاویے پر موڑ لے، معالج مریض کے پیر کی طرف کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سے تلوے کے اگلے حصے کو مضبوطی سے پکڑلے اور دوسرے ہاتھ سے ٹخنے سے اوپر کے حصے کو پکڑ کر تلوے پر مضبوطی سے دباؤ ڈالے۔
۴-مریض بیٹھ جائے یا کمر کے بل لیٹ کر اپنے پیر کے تلوے کو فرش یا بستر پر لگا کر رکھے۔ معالج اپنے ہاتھ سے تلوے کے اگلے حصے کو اس طرح پکڑے کہ انگلیاں تلوے پر ہوں اور انگوٹھا پیر کے اوپر ، معالج اپنے دوسرے ہاتھ سے سخنے کے جوڑ کے قریب رکھ کر اس سے دباؤ ڈالے یہ طریقہ ٹخنے کے امراض میں استعمال ہوتا ہے۔ گھٹنے اور ٹخنے کے علاج میں پلاسٹر آف پیرس کا پلاستر بھی چڑھا سکتے ہیں۔
۳-۔ کولہے کے لیے:
۱- مریض پیٹ کے بل لیٹ جائے اور معالج مریض کی دونوں ٹانگوں کو ٹخنے کے قریب اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ لے جب کہ دوسرا ہاتھ کولہوں پر رکھ کر انہیں نیچے دبائے ۔
۲- مریض کمر کے بل لیٹ جائے اس طرح کہ ٹانگیں گھٹنوں اور کولہوں پر باہر کی طرف مڑی ہوئی ہوں۔ معالج مریض کے پیروں کی جانب کھڑے ہو کر دونوں گھٹنوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اس سے دباؤ ڈالے، دبا ؤ او پر اور باہر کی جانب ہو ۔ یہ طریقہ پولیو اور دماغی معذوری کے ان مریضوں میں استعمال ہوتا ہے جن کے کولہوں اور ان کے گوشت میں اندر کی جانب کھنچاؤ یا سکڑاؤ پیدا ہو چکا ہوتا ہے