درود پاک کے اعمال

کیا درود ابراہیمی ہی صرف درود پاک ہے؟

سوال

۔علمائے دین اس مسئلہ پر کیا فرماتے ہیں کہ : درود شریف “ صلى الله على النبي الأمي واله اصلى الله عليه وسلم صلوة وسلاماً عليك يا رسول الله ” حدیث کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اور درود ابراہیمی کے علاوہ دیگر درود شریف ثابت ہیں یا نہیں ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

جو لوگ صرف درود ابراہیمی کو درود کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں اس لیے کہ بخاری و مسلم شریف اور حدیث پاک کی بر کتاب میں ہزاروں جگہ محدثین نے ” من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ” لکھا تو کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ صرف درود ابراہیمی میں درود ہے اور ” صلی اللہ علیہ وسلم ” درود نہیں۔ اس لیے بہت سے بزرگان دین اور محدثین نے درود شریف کے مختلف صیغوں کی کتابیں لکھیں ۔ دلائل الخیرات پڑھنا تمام بزرگان دین کا ہمیشہ معمول رہا اس میں مختلف الفاظ کے ساتھ درود لکھتے ہیں۔ خود دیوبندی حضرات کی کتابوں میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی آتا ہے تو ” صلی اللہ علیہ وسلم ” لکھتے ہیں کسی جگہ درود ابراہیمی نہیں لکھتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ درود کے مختلف صیغوں میں سے کوئی صیغہ لکھ دیا جائے تو قرآن مجید کے حکم پر عمل ہو جائے گا۔الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں : ایک طغریٰ مدنی مسجد کمرشل ایریا لیاقت آباد میں لگا ہوا تھا ۔ اس طغری میں درود پاک اور سلام لکھا ہے : صلى الله على النبي الأمي واله واصحابه صلى الله عليه وسلم صلوة و سلاماً عليك يا سیدی یا رسول الله اس کے علاوہ درود و سلام کے نیچے اردو میں یہ عبارت لکھی ہے کہ جو شخص بالخصوص اس درود شریف کو نماز جمعہ کے بعد ۱۰۰ مرتبہ مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے پڑھے گا اسے بے شمار فضائل حاصل ہوں گے ۔ ایک شخص نے اس طغری کو اتار دیا اور کہا یہ درود و سلام صحیح نہیں ہے ۔ حدیث سے ثابت کیا جائے اور اردو کی عبارت میں کہ مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے پڑھنا یہ حدیث میں نہیں ہے ، اس لیے یہ غلط ہے۔ اس طغری کو اتارنے پر لوگوں میں بڑا غصہ پھیلا ہوا ہے ۔ لہذا درود و سلام اور مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے پڑھنے کے متعلق حدیث مبارکہ سے مسئلہ کا حل صادر فرمائیں ۔الجواب:درود شریف پڑھنے کا حکم اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا اور اس میں زمانے ، وقت ، بیت اور الفاظ کی کوئی قید نہیں لگائی اور کوئی صیغہ بھی اس کے لیے متعین نے فرمایا اس لیے مسلمان کو اختیار ہے کہ وہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر ، جس طرف کو منہ کر کے اور جن الفاظ سے چاہے درود پڑھے ۔ جو لوگ صرف درود ابراہیمی کو درود کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ اس لیے کہ بخاری و مسلم اور حدیث کی ہر کتاب میں ہزاروں جگہ محدثین نے ” من النبی صلی اللہ علیہ وسلم ” لکھا تو کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ صرف درود  ابراہیمی ہی درود ہے اور ” صلی اللہ علیہ وسلم ” درود نہیں ۔ اس لیے بہت سے بزرگان دین اور محدثین نے درود شریف کے مختلف صیغوں کی کتابیں لکھیں ۔ دلائل الخیرات پڑھنا تمام بزرگان دین کا ہمیشہ معمول رہا ہے اس میں مختلف الفاظ کے ساتھ درود کے صیغے لکھے ہیں ۔ لہذا سوال میں مذکور درود پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہے اگر ” الصلوة والسلام علیک یا رسول الله ” میں صیغہ خطاب پر اعتراض ہے یا حرف نداء پر تو یہ بھی لغو ہے ۔ مسلم شریف میں واقعہ ہجرت میں روایت ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ میں پنچہے تو مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے اور پکار رہے تھے ” یا محمد یا رسول الله يا محمد يا رسول الله (مسلم شریف ، جلد دوم) اور مشہور محدث حضرت تقی الدین سبکی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ” شفاء السقام في زيارة خير الأنام” میں تحریر فرماتے ہیں : والمقصود من هذه الأحاديث بيان هذا النوع من السلام على النبي صلى الله عليه وسلم بلفظ خطاب والغيبة جميعاً ولا فرق في ذلك بين الغائب عنه والحاضر عنده صلى الله عليه وسلّم ان احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم پر لفظ خطاب اور غیبت دونوں طرح سے سلام جائز ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ سلام بھیجنے والا حضور سے غائب ہو یا وہاں حاضر ہو کر سلام بھیجے۔ لہذا اس درود شریف کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ جمعہ کے دن درود شریف کثرت سے پڑھنے کا حکم حدیث میں ہے۔ ابو داؤد ، ابن ماجہ ، نسائی نے یہ حدیث روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاكثروا على من الصلوة فی یوم الجمعہ۔ ابن ماجه ، فرض الجمعة ، باب في فضل الجمعة) یعنی جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود پڑھاکرو اعلی حضرت امام اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ” الوظيفة الكریم ” میں اس درود شریف کے متعلق اس طرح پڑھنے کو لکھا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے ۔ اس کے چالیس فائدے ہیں جو صحیح اور معتبر حدیثوں سے ثابت ہیں۔ جس شخص نے طغری اتارا ہے اس نے غلط کیا اسے توبہ کرنا چاہیے ۔وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر