باب الصلوۃ, بیماری کا بیان

کرسی پر نماز ادا کرنے کا حکم

الاستفتاء .کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کرسی پر نماز کا کیا حکم ہے. اور اگر امام اہلسنت کی کوئی تحریر اس بارے میں ہو تو وہ بھی عطا فر ما دیں کیونکہ ہمارے یہاں لوگ مسجدوں میں کرسیوں پر نماز پڑھتے ہیں چند دن پہلے مجھے ایک پرچہ ملا جس پر لکھا تھا کہ کرسی پر نماز نا جائز ہےکیا واقعی ہی ایسا ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون المَلِكِ الوَهَابَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَاب
جی ہاں!کرسی پر نماز پڑھنے کی صورت میں قیام اور رکوع و سجود کا ترک کرنا لازم آتا ہے لہذا بلا عذر شرعی کرسی پر نماز پڑھنے سے نماز نہ ہوگی کیونکہ فرائض و واجبات اور سنت فجر کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے۔ اگر ان کو بلا عذر شرعی بیٹھ کر پڑھیں گے تو ادا نہ ہوں گی اور اگر خود کھڑا ہونا ممکن نہیں مگر کسی لاٹھی یا کسی دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن ہو تو جتنی دیر اس طرح کھڑا ہو سکتا ہو اتنی دیر کھڑا ہونا ضروری ہے۔کیونکہ نماز میں قیام بنص قرآنی فرض ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے ؛
پارہ 2 سیقول۔سورة البقره آیت نمبر 238۔

حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(238)
ترجمۂ کنز الایمان
نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے۔

اور ایک جگہ فرمایا ۔
پارہ 5 والمحصنت۔سورة النساء سورہ نمبر 4۔آیت نمبر 103۔اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(103)
بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔
آیت مبارکہ میں پانچ فرض نمازوں کو ان کے اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ پابندی کے ساتھ کھڑے ہو کر ادا کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس سے نماز کے اندر قیام کا فرض ہونا ثابت ہوا۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نماز میں قیام کی اہمیت کو بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ آج کل بہت جہال | جاہل لوگ ] ذرا سی بے طاقتی مرض یا کبرسن  میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولاً ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمت کریں تو پورے فرض کھڑے ہو کر ادا کر سکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت  ہو نہ دوران سر وغیرہ کوئی سخت الم شدید ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو نمازیں کھوتے{ضائع کرتے} ہیں ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہی لوگ جو بوجہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے ہیں اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہتے  کہ اتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کر لیتے ایسی حالت میں ہرگز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پورے فرض قیام سے ادا کریں۔ آگے فرماتے ہیں کہ اگر وہ تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقینا طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اتنا ادا کرتے یہاں تک کہ اگر صرف اللہ اکبر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتناہی قیام میں ادا کرتے جب وہ غلبہ ظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ان کی نماز کا مفسد ہوا ۔ثالثاً ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار یا تکیہ لگا کر کل یا بعض قیام پر قادر ہے تواس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کر سکے بجا لائے ، کل تو کل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔
📚 [ فتاوی رضویہ ج6ص160 ]کرسی  پر نماز پڑھنے کے جواز کی دو صورتیں ہیں وہ درج ذیل ہیں
1..ایک شخص نماز میں بالکل کھڑا نہیں ہو سکتا یا صرف تھوڑی دیر کھڑا ہو سکتا ہے پھر طاقت نہیں رہتی مگر نماز کے رکوع و سجود صحیح ادا کر سکتا ہے۔ایسے شخص کے لیے حکم شرعی یہ ہے کہ جتنی دیر کھڑا ہو سکتا ہے اتنی دیر کھڑا ہوکر نماز پڑھے اگرچہ کھڑے ہو کر صرف تکبیر ہی کہے باقی نماز بیٹھ کر پڑھ لے اور چونکہ یہ رکوع اور سجدے کرنے پر قادر ہے تو اسے صحیح طریقے رکوع اور زمین پر یا ایسی چیز پر جو زمین سے زیادہ سے زیادہ بارہ انگل ایک فٹ اونچی ہو سجدہ کرنا ضروری ہو گا یعنی اسے سجدہ زمین پر ہی کرنا ہوگا اگر چہ کرسی پر بیٹھا ہو کیونکہ اس سے عذر کی وجہ قیام ساقط ہوا ہے نہ کہ سجدہ کہ سجدہ کرنے پر تو قادر ہے ۔لہذا اسے سجدہ کرنے کے لیے کرسی سے اترنا پڑے گا اگر نہ اترے گا اور کرسی پر اشارے سے سجدہ کرے گا یا کرسی پر بنی ہوئی سلیٹ پر سجدہ کرے گا تو وہ سجدہ نہ ہو گا جس سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ لہذا اسے چاہئے کہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے نہ کہ کرسی پر تاکہ اسے بار بار اترنا چڑھنا نہ پڑے جو کئی طرح سے موجب کراہت اعمال کا سبب ہو سکتا ہے۔
در مختار میں ہے کہ ؛
و ان قدر على بعد القيام ولو متکئاً علی عصا او حائط قام لزوما بقدر ما يقدر ولو قدر اية او تكبيره على المذهب لان البعض معتبر بالكل.
“اگر وہ کچھ قیام پر بھی قادر ہے اگر چہ کسی لاٹھی یا دیوار سے ٹیک لگا کر قیام ممکن ہو سکے تو ضرور کرے جس قدر کر سکتا ہو اگر چہ ایک آیت کی مقدار یا تکبیر کہنے کی کہ مقدار ہی کرے کیونکہ بعض کا حکم کل کی طرح ہے۔[ “الدر المختار ” و “رد المحتار”كتاب الصلاة باب الصلاة المریض،ج 2، ص 684]
2۔اگر وہ نماز کے رکوع اور سجدے دونوں ادا نہ کر سکتا ہو یا صرف سجدہ پر قدرت نہ ہو اگر چہ کھڑا ہونے پر قادر ہو۔ ایسے شخص سے کھڑا ہونا ساقط ہو جاتا ہے۔لہذا یہ مریض کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ مگر بلاوجہ پیچھے
ٹیک لگانے سے بچے اور ادب و تعظیم سے اعمال نماز بجالائے۔
در مختار میں ہے کہ
وان تعذرا ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف لا القيام اومأ بالهمز قاعدا فهو افضل من الايماء قائما لقربه من الارض.
” اگر وہ رکوع و سجود سے معذور ہو یعنی ان سے عاجز ہو۔ دونوں سے عاجز ہونا شرط نہیں بلکہ صرف سجدہ ہی عاجز ہوتو وہ بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے۔ بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہو کر اشارہ سے نماز پڑھنے سے بہتر ہے کیونکہ بیٹھنے کی صورت میں زمین کے زیادہ قریب ہے۔
[الدر المختار، و “رد المحتار”كتاب الصلاة، باب صلاة المريض، ج 2، ص 684 ]
اور بہار شریعت میں ہے کہ [ اگر کوئی کھڑا ہو سکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں کر سکتا مثلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارہ سے پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی بہتر ہے۔
[ بہار شریعت ج 1حصه 4 ص 721]
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم