مسئلہ: زید کہتا ہے کہ خطبہ کی اذان خارج مسجد ہونا چاہئے اور یہی سنت ہے اور یہی صحابہ تابعین تبع تابعین ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے اور مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی اور خلاف سنت ہے۔عمرو کہتاہےکہ خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے منبر کے پاس ہونا چاہئےخارج مسجد خطبہ کی اذان دینا بدعت ہے۔ لہذا دریافت طلب یہ امر ہے کہ ان دونوں میں کس کا قول صحیح ہے۔اور یہ بھی واضع فرمائیں کہ اگر خارج مسجد اذان دینا صحیح ہے تو مسجد کے اندر اذان دینے کا طریقہ کب سے رائج ہے اور اس کا موجد کون ہے ؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب: بیشک خطبہ کی اذان خارج میں ہونا چاہئے یہی سنت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ مبارکہ میں یہ اذان خارج مسجد ہی ہوا کرتی تھی جیسا کہ حدیث شریف میں ہےحضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتےتو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانہ میں بھی رائج تھا ابو داؤد شریف جلد اول ص 162 اور حضرت علامہ سلیمان جمل رحمت اللہ تعالی علیہ ایت مبارکہ اذا نودی للصلوۃ کے تحت فرماتے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو مسجد کے دروازہ پر اذان پڑھی جاتی تھی اسی لئے فتاوی قاضی خاں، فتاوی عالمگیری بحر الرائق، فتح القدیر اورطحطاوی وغیرہ تمام کتب فقہ میں مسجد کے اندراذان پڑھنےکومکروہ ومنع لکھا ہے۔ لہذا عمرو جو خطبہ کی اذان خارج مسجد پڑھنےکو بدعت بتاتا ہےوہ گمراہ نہیں توجاہل ہے اور جاہل نہیں تو گمراہ ہےکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیوسلم اور صحابہ کرام کے طریقے کو بدعت بتاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ مسجد کے اندر اذان دینے کا طریقہ کب سے رائج ہے اور اس کا موجدکون ہے؟تو ان باتوں کا جواب ان لوگوں کےذمہ ہےجو مسجد کے اندر اذان پڑھنے کو سنت سمجھتے ہیں وہ بتائیں کہ انھوں نے کس کاطریقہ اختیار کر رکھا ہے اور اس کا موجد کون ہے۔ رہے مسجد کے باہر پڑھنے والے تو وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے پر عمل کرتے ہیں ۔
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول،ص:220