اعمال حصار

خوف وخطر سے محفوظ رہنے کا عمل

 حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

ہم کو اللہ بس ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے (سورۃ آل عمران (۱۷۳) ثبوت: اس عمل کے مؤثر ہونے کے بارے میں خود اللہ تعالی سورۃ آل عمران رکوع۸، آیت ۴۰۱۷۳ سے میں یوں ارشاد فرماتا ہے:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوهُم فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ فَالْقَلَبُوا نِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ يَمْسَهُمْ سُوءٍ وَ اتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ

جن لوگوں کو کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلہ کو بڑا لشکر جمع کیا ہے تو ان سے ڈرتے رہنا تو اس بات نے ان کا ایمان بڑھا دیا اور بول اٹھے کہ ہم کو اللہ بس ہے، اور وہ کیا اچھا کارساز ہے غرض یہ واپس آئے اللہ کی نعمت اور فضل سے کہ نہ پہنچا کوئی گزند اور یہ چلے اللہ کی رضا پر اور اللہ کا فضل بڑا ہے۔ اس میں اللہ تعالی نے چار باتیں بیان فرمائیں: (۱) نعمت (۲) فضل (۳) ہر برائی سے حفاظت (۴) خوشنودی مولی۔ شان نزول

جنگ احد میں جب کفار کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست فاش ہوئی اور پرلے درجے کی زک اٹھائی تو اپنی ندامت کو مٹانے کے لئے ابوسفیان نے کہا

آئندہ سال ہم مسلمانوں سے پھر مقام بدر صغری میں جنگ کریں گے، چنانچہ جب دوسرا سال آیا تو قحط اور خشک سالی کے باعث سامان جنگ و جدل مہیا نہ ہو سکا ، تو انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم خود اعلان جنگ کر چکے ہیں، اس لئے حسب وعدہ کوئی چال چلنی چاہئے تا کہ اس وعدہ سے بیچ جائیں، چنانچہ اس نے ایک شخص کو طمع دنیوی دے کر مدینہ طیبہ میں بھیجا

تا کہ وہ مسلمانوں میں ہماری افواج کی کثرت اور قوت کی تشہیر کرے مسلمان ہماری طاقت اور کثرت کی خبر سن کر بدرصغری میں نہ آئیں ، پس اس نے مدینہ طیبہ میں جا کر کفار کی کثرت کی شہرت کا ڈنکا جا بجایا مگر مسلمانوں نے کفار کی کثرت کی چنداں پروا نہ کی، بلکہ حسب وعدہ بدرصغری میں وظیفہ حسبنا اللہ پڑھتے ہوئے جا پہنچے اور میدان کو خالی پا کر فتح ونصرت کے نعرے لگاتے ہوئے بہت سا مال غنیمت لے کر مدینہ طیبہ میں واپس چلے آئے ۔