قربانی کے جانوروں کا بیان, ی۔دینیات

خصی بکرے کی قربانی

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ خصی جانور کی قربانی کرنے کا کیا حکم ہے اور کیا یہ عیب شمار نہیں ہوگا؟


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
خصی جانور یعنی کہ جس کے خصیے نکال لیے گئے ہوں یا محجوب ہو تو اس کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے اور ایسے جانور کی قربانی کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔خصی کرنا اگر عیب ہوتا توآپ علیہ السلام اس کی قربانی نہ کرتے ۔نیز عیب سے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہے مگر خصی بکرے کی قیمت غیر خصی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس کا گوشت بنست فحل کے زیادہ اچھا اور لذیذ ہوتا ہے ۔
سنن ابی داؤد میں ہے
”عن جابر بن عبدالله، قال: ذبح النبي صلى الله عليه وسلم يوم الذبح كبشين أقرنين أملحين موجئين“
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن سینگوں والے سیاہ وسفید دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کیے۔(سنن أبي داود، باب ما یستحب من الضحایا ،حصہ 2 ،صفحہ 30، مطبوعہ حقانیه ملتان)
سنن ابن ماجہ میں ہے
”عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوئين، فذبح أحدهما عن أمته ، لمن شهد لله بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم“
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے موٹے سینگ والے سفید وسیاہ دھبے دار خصی مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کرتے جو اللہ کے ایک ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پہنچانے کی شہادت دیں، اور دوسری اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے ذبح کرتے۔(سنن ابن ماجه، باب أضاحي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، جلد 2 صفحہ 232 ، قديمی کتب خانہ کراچی)
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے
”عن أبي هريرة أن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ضحى اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوئين“
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے تو دو بڑے موٹے سینگ والے سفید وسیاہ دھبے دار خصے مینڈھے خریدتے۔(مسند الإمام أحمد بن حنبل جلد 37، صفحہ 43 رقم 25843، مؤسسة الرسالة)
غرر الاحكام میں ہے
”و صح الجماء والخصي“
ترجمہ بغیر سینگوں والے اور خصی جانور کی قربانی صحیح ہے۔(درر الحكام شرح غرر الأحكام، جلد 1 صفحہ 269 ، دار الفکر بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے
”وأفضل الشاء أن يكون كبشا املح اقرن موجوءا“
یعنی افضل قربانی یہ ہے کہ مینڈھا، چتکبرا، سینگوں والا اور خصی ہو۔ ( بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، جلد 5 ، صفحہ 80، دار الکتب العلمیہ بیروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
”ویجوز المجبوب العاجز عن الجماع “
ترجمہ:اور اس جانور کی قربانی جائز ہے جس کے خصیے اور آلہ تناسل کاٹ دیے گئے ہوں وہ جماع سے عاجز ہو۔(فتاوی عالمگیری، جلد 5 ،ص367، دار الکتب العلمیہ بیروت)
تبيین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے
”ويضحي بالجماء والخصي، وعن أبي حنيفة هو أولى؛ لأن لحمه أطيب“
ترجمہ بغیر سینگوں والے اور خصی کی قربانی جائز ہے اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خصی بہتر ہے اس لیے کہ اس کا گوشت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي جلد 6 ، صفحہ 5 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)
مجمع الانہر شرح ملتقي الابحر میں ہے
”و يجوز الخصي، عن الإمام أن الخصي أولى لأن لحمه ألّذ و أطيب“
ترجمہ: خصی کی قربانی جائز ہے۔ امام اعظم سے مروی ہے کہ قصی کی قربانی زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ اور اچھا ہوتا ہے۔(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، جلد 2 ،صفحہ 519، دار احیاء التراث العربی)
فتاویٰ رضویہ میں حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
” بکرے دو طرح خصی کئے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ رگیں کوٹ دی جائیں،اس میں کوئی عضو کم نہیں ہوتا،دوسرے یہ کہ آلت تراش کو پھینک دی جاتی ہے اس صورت میں ایک عضوکم ہوگیا آیا ایسے خصی کو بھی قربانی جائزہے یانہیں؟ آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا بلکہ وصف بڑھ جاتاہے کہ خصی گائے کو گوشت بہ نسبت فحل کےزیادہ اچھا ہوتاہے” فی الہندیة عن الخلاصة یجوزالمجبوب العاجز عن الجماع“ ہندیہ میں خلاصہ سے منقول ہے کہ ذکر کٹا جو جفتی کے قابل نہ رہا وہ قربانی میں جائز ہے۔“(فتاوی رضویہ, جلد 20 ص 460، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے :
”خصی یعنی جس کے خصیے نکال لیے گئے ہیں یا مجبوب یعنی جس کے خصیے اور عضو تناسل سب کاٹ لیے گئے ہوں ان کی قربانی جائز ہے۔“(بہار شریعت ،جلد 3 حصہ 15، صفحہ 340،مکتبۃ المدینہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے:
”بکری بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا بکری سے افضل ہے اور اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہوں۔“ (بھار شریعت،جلد 3، حصہ 15، ص340، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وقار الفتاوی میں ہے:
”قربانی کے جانور کے متعلق عیب سے پاک ہونا احادیث سے منصوص ہے لیکن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جانور قربانی کے طور پر ذبح فرمایا اس کے بارے میں ابو داؤد میں حدیث مبارکہ موجود ہے ۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوا کہ بیل ، بکرے یا مینڈھے وغیرہ کا خصی ہونا عیب نہیں اگر عیب ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم قربانی نہ کرتے اس کے علاوہ عیب سے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہے مگر خصی بکرے کی قیمت زیادہ ہوجاتی ہے۔“(وقار الفتاوی ، جلد 2 صفحہ 478، بزم وقار الدین)
فتاویٰ امجدیہ میں ہے :
”خصی کی قربانی غیر خصى سے افضل ہے۔“(فتاوی امجدیہ کتاب الاضحیہ جلد 3، صفحہ 304 ، دار العلوم امجدیہ رضویہ)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
26 ذی القعدہ 1445ھ02 جون2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری
─── ◈☆◈ ───