مسئله:(1) مسجد محلہ جس کا امام و موذن مقرر ہے بطریق مسنون جماعت ہو چکی ہے اب دوسری جماعت قائم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب فقہ تحریر فرمائیں۔(2) یہاں پر دستور ہے کہ نماز پڑھانے کے بعد امام اپنی جگہ ہی پر نماز پڑھتا ہے اور سنت و نوافل پڑھنے کے بعد دعائے ثانی با آواز بلند کرتا ہے بعدہ فاتحہ پڑھتا ہے اور ایسا ہر نماز پنجگانہ کے بعد کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ ایسا کرنے کو ناجائز و بدعت کہتے ہیں۔لہذا دریافت طلب یہ امر ہے کہ امام کا اپنی ہی جگہ پر رہ کر نماز پڑھنا اور بعد نماز فاتحہ پڑھنا اور اس کا دستور بنا لینا جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ قرآن وحدیث جواب تحریر فرمائیں۔

۔(1)الجواب:مسجد محلہ جس میں امام و مؤذن مقرر ہوں اس میں محلہ والے بطریق مسنون موافق المذاہب امام کے پیچھے جماعت کر چکے اس کے بعد باقی لوگوں کا اس مسجد میں دوسری جماعت قائم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ظاہر الروایہ سے حکم کراہت نقل کیا گیا ہے۔مگر فقہاۓ کرام نے فرمایا کہ حکم کراہت صرف اس صورت میں ہے جب کہ باقی لوگ دوسری اذان کے ساتھ جماعت ثانیہ قائم کریں تو کراہت ہے وگرنہ بلا کراہت جائز ہے یہی صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 77 میں ہے المسجد اذا کان امام معلوم و جماعة معلومة في محلة فصلى اهله بالجماعة لايباح تكرارها فيه باذان ثان اما اذا صلوا بغير اذان يباح اجماعاً وكذا في مسجد قارعة الطريق كذا في شرح المجمع للمصنف اھ. اور فتاوی بزازیہ جلد اول مع ہندیہ ص62 و ردالمحتار جلد اول ص 265 میں ہے۔ عن ابى يوسف اذا لم تكن على الهيئة الاولى لا تكره والا تكره وهو الصحيح وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة وزاد في التاتر خانية عن الولوالجية وبه ناخذ انتھی ۔ مگر یہ جماعت ثانیہ کا جواز صرف ان لوگوں کےلئے ہے جو کبھی کسی عذر کے سبب جماعت اولی کی حاضری سے محروم رہے نہ یہ کہ جماعت ثانیہ کے بھروسے پر بلا عذر شرعی قصدا جماعت ترک کرے یہ بلا شبہ نا جائز وگناہ ہے۔ وهو تعالى اعلم (2) جائز ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کو ناجائز نہ سمجھتا ہوکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگوں کا مجموعی طور پر دعا کرنا اور سورۂ فاتحہ یا دوسری آیتوں کو تلاوت کے بعد اس کا ایصال ثواب کرنا شرعاً ممنوع نہیں کہ بندہ جب چاہے تنہا دعا کرے یا مجموعی طور پر اسے شریعت کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اپنی تلاوت یا کسی کار خیر کے ایصال ثواب کا بھی ہر وقت مجاز ہے۔ رہا سوال اس کے دستور بنا لینے کا تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے کہ بعض لوگ بعد نماز فجر تلاوت قرآن کریم کا دستور بنا لیتے ہیں حالانکہ شریعت نے بعد نماز فجر تلاوت قرآن کے لئے وقت نہیں معین فرمایا ہے۔
اور بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ کان عبد الله بن مسعود يذكر الناس في كل خمیس(مشكوة ص33) ۔
یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ہر جمعرات کو وعظ فرماتے تھے۔حالانکہ شریعت نے ہر جمعرات کو وعظ کے لئے حکم نہیں دیا ہے۔رہا اس طریقے کو بدعت کہنا تو وہ بدعت ضرور ہے مگر بدعت سیئہ نہیں ہے بلکہ بدعت حسنہ یا بدعت مباحہ ہے اور بدعت حسنہ و بدعت مباحہ عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہیں۔ مثلاً مسلمان بچوں کو ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرایا جاتا ہے ایمان کی یہ دو قسمیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں کلموں کی تعداد ، ان کی ترتیب اور ان کے نام سب بدعت ہیں۔ قرآن کریم کا تیس پارہ بنانا ان میں رکوع قائم کرنا اور اس پر زبر زیر وغیرہ لگانا اور آیتوں کا نمبر لگانا سب بدعت ہے حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا یہ بھی بدعت ہے اصول حدیث اور اصول فقہ کے سارے قاعدے قانون بدعت ہیں۔فقہ اور علم کلام یہ بھی از اول تا آخر بدعت ہے نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت اور رمضان المبارک میں 20 رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت ہے۔
خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمايا ۔نعمة البدعة هذه ۔یعنی یہ بہترین بدعت ہے (بخاری شریف مشکوة شریف ص115 ) روزہ کی نیت اس طرح زبان سے کہنا”نویت ان اصوم غدا لله تعالى من فرض رمضان اور افطار کے وقت زبان سے کہنا
اللهم انی لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك افطرت یہ بھی دونوں بدعت ہیں اس طرح شریعت کے چار طریقے حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی۔ اور طریقت کےچار سلسلے قادری چشتی ، نقشبندی اور سہروردی سب بدعت ہیں اور ان کے وظیفے جو دستور کے مطابق پڑھے جاتے ہیں اور مراقبے و چلے وغیرہ بھی بدعت ہیں جن کو سب لوگ دین کا کام سمجھ کر کرتے ہیں لہذا جس طرح یہ سب باتیں جائز ہیں اسی طرح دعاۓ ثانی و فاتحہ کی بدعت بھی جائز ہے وهو تعالى اعلم باالصواب
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:339

Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest