اسلامی تقویم کا یہ پانچواں مہینہ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اس کا نام تجویز ہوا تو اس وقت ایسا سرد موسم تھا کہ پانی بھی جم جایا کرتا تھا۔ اسی ماہ مقدس کی آٹھویں تاریخ کو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کریم تولد ہوئے۔
ویسے تو اس ماہ میں بہت سے فضائل موجود ہیں مگر اس ماہ مقدس کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم پیدا ہوئے۔ بلا شبہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کریم ایک عظیم المرتبت ہستی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وس وسلم کے ساتھ جس قدر قریبی تعلق آپ کو حاصل تھا وہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہو سکا۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کریم آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سگے چچا زاد تھے اور آپ کی پرورش آنحضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمائی تھی۔ پیدا جب ہوئے تو آپ نے اس وقت چشمان مبارک نہیں کھولی تھی جب تک سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف نہیں لے آئے۔
آپ کا نام نامی اسم گرامی علی، کنیت تھی ابو تراب اور ابوالحسن۔ آپ کے القاب بے حد و حساب ہیں جن میں حیدر، فاتح خیبر، اسد اللہ ، سیف اللہ زبان زدعام ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب یوں ہے کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کریم بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔
آپ ہی کا خاندان بیت اللہ شریف کا متولی و نگران تھا۔ ابھی آپ کی عمر سعید محض چار برس ہی تھی کہ آپ کو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر لے گئے اور آپ کی پرورش اور تربیت فرمانے لگے۔ پھر جب آنحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کرنے کا اعلان فرمایا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اعلان نبوت سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور آپ نے قبول اسلام کا اعلان کیا تو آپ کی عمر تھوڑی تھی یعنی محض آٹھ دس برس تھی۔ یہ بندہ ناچیز عرض گزار ہے کہ عقل اور فہم فراست کا تعلق عمروں سے نہیں بلکہ عطائے ربی سے ہوتا ہے۔ بات اگر عمر زیادہ ہونے کی ہوتی تو پھر ان لوگوں کو عقل کیوں نہ آئی جن کی عمریں بہت زیادہ ہو چکی تھیں۔ ان کو تو یہ سعادت حاصل ہی نہیں ہو پائی حتی کہ وہ مردود ہو کر قبروں میں چلے گئے
اس ماہ قدس میں عبادت کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے۔ جواہر غیبی میں رقم ہے کہ اگر اس ماہ مقدس کی یکم تاریخ کی شب کو اچھی طرح پاکیزہ ہو کر چار رکعت نماز نفل اس طرح پڑھی جائے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو پڑھنے والے یا پڑھنے والی کے نامہ اعمال میں نوے ہزار برس کی نیکیاں لکھ دی جات ہیں اور نوے ہزار کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں
اس ماہ مقدس کے چاند کو دیکھ کر اگر بوسیلہ جلیلہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کریم دعا مانگی جائے تو وہ ضرور بضرور پوری ہوتی ہے۔ ہاں مگر صدق نیت شرط اولین ہے۔ اس کے علاوہ اس ماہ مقدس میں درود شریف کے ورد کی بھی بہت بہت فضیلت ہے۔