سوال:۔
زید تقریباً بارہ سال سے جامع مسجد کا امام تھا عمرو نے زید پر زنا کا الزام لگایا اور بکر سے کہا جب کہو ہم زید کو حرام کاری کی حالت میں پکڑ کر دکھا دیں تو بکر نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں اکثریت سے الگ ہو کر جمعہ اور عیدین کی نماز قائم کی۔علمائے کرام اور مفتیان عظام نے اسے دیہات میں جمعہ اور عیدین کی نماز قائم کرنے سے بہت روکا مگر وہ باز نہ آیا یہاں تک کہ ضد نفسانی میں بکر نے لوگوں سے کہا کہ مزار پر جانا اور حلوہ وغیرہ میری سمجھ میں نہیں آتا بلکہ اپنے لڑکے کو دیو بندی مکتب میں داخل کرا دیا۔
بکر دوسال تک دیہات میں جمعہ وعیدین پڑھتا اور پڑھاتا رہا اسی درمیان میں کچھ لوگوں نے ازراہِ نفسانیت زید سے خلاف ہو کر اسے امامت سے ہٹا دیااور بکر کو امام مقرر کیا تو بکر نے دیہات کا جمعہ بند کر کے امامت قبول کرلی اور کہتا ہے میں سنی ہوں لہذا دریافت طلب امور ہیں کہ
۔(1)عمرو جس نے زید پر زنا کا الزام لگایا اس کے لئے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
۔(2) بکر جس نے زنا کے الزام کی تصدیق کرتے ہوئے دوسرا جمعہ خلاف شرع دیہات میں قائم کر لیا جو عالم نہیں ہے مگر وہابیوں دیو بندیوں کے جلسوں میں اکثر شرکت کرتا رہتا ہے۔اور بد مذہبوں کی کتابوں کا اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہے جومزار پر جانے اور حلوہ وغیرہ کے سمجھ میں آنے سے انکار کرتا ہے جو اپنے لڑکے کو دیوبندی مکتب میں پڑھانے کو جائز سمجھتا ہے۔
نیز اس کا عقیدہ مشکوک ہے اگرچہ اب وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام مقرر کرنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
۔(3)زید کو بلاوجہ شرعی امامت سے ہٹانا کیسا ہے ؟
الجواب: عمرو جس نے زید پر نیا الزام لگایا اگر وہ چشم دید چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کرے تو وہ گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحق عذاب نار ہے۔
قَالَ اللهُ تعالى ۔القرآن پارہ 18 قد افلح۔ سورة النور سورہ نمبر 24۔ آیت نمبر 15۔اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ(15)
ترجمه کنز الایمان
جب تم ایسی بات اپنی زبانوں پر ایک دوسرے سے سن کر لاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ نکالتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں اور اسے سہل سمجھتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے۔ (2) پارہ 22 ومن یقنت۔سورة الاحزاب ۔سورہ نمبر 33۔آیت نمبر 58۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا(58)
ترجمه کنز الایمان
اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔
3-پارہ 18 قد افلح۔سورة النور سورہ نمبر 24۔آیت نمبر 4۔5۔
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(4)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(5)
ترجمه کنز الایمان
اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی نہ مانو اور وہی فاسق ہیں ۔ مگر جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور سنور جائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
لہذا اگر حکومت اسلامیہ ہوتی تو قرآن کریم کے فرمان کے مطابق زنا کے الزام لگانے والے کو چار گواہ نہ لانے کی صورت میں اسی کوڑے مارے جاتے اور اسے ذلیل ورسوا کیا جاتا۔ موجودہ صورت میں اس پر اعلانیہ توبہ واستغفار کرنا اور جس پر جھوٹا الزام لگایا ہے اس سے معافی طلب کرنا لازم ہے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو سب مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہگار ہوں گے ۔
پارہ 7 واذا سمعوا۔سورة الانعام. سورہ نمبر 6 آیت نمبر 68۔۔
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(68)
ترجمۂ کنز الایمان
اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
فالله تعالى اعلم ورسولہ۔ (2) بکر جس نے زنا کے الزام لگانے والے کی تصدیق کی وہ بھی الزام لگانے والے کے برابر گنہگار ہے اس پر بھی معافی مانگنا اور علانیہ توبہ واستغفار کرنا واجب ہے۔پھر دیہات میں خلاف شرع جمعہ قائم کرنا اور دو سال بعد بند کردینا بکر کی کھلی ہوئی غلطی ہے کہ اس نے احکام شرعیہ کو کھیل بنایا ہے۔اور وہابیوں دیو بندیوں کے جلسوں میں اکثر شرکت کرنا، بدمذہبوں کی کتابوں کا اکثر مطالعہ کرنا مزار پر جانے اور حلوہ وغیرہ کے سمجھ میں آنے سے انکار کرنا اور اپنے لڑکے کو دیوبندی مکتب میں پڑھنے کے لئے بھیجنا۔یہ سب اس کی بد عقیدگی اور گمراہی کی کھلی ہوئی نشاندہی کرتے ہیں۔ لہذا اب اگرچہ وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار کرلے اسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں جن لوگوں نے بکر کے حالات سے مطلع ہوتے ہوئے اسے امام مقرر کیا اور زید کو بلا وجہ شرعی معزول کر دیا ان لوگوں نے اللہ و رسول اورمسلمانوں کی خیانت کی۔ وہ مسمانوں کے بدخواہ ہیں ان پر اپنے فعل سے توبہ کرنا اور اپنے مقرر کئے ہوئے مشکوک امام کو معزول کرنا لازم ہے۔حاکم صحیح مستدرک میں ہے اور ابن عدی و عقیلی و طبرانی وخطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی جماعت میں سےایک شخص کو کسی کام پر مقرر کیا اور ان میں وہ شخص موجود تھا جو اس سے زیادہ اللہ تعالی کو پسند ہے تو اس نے اللہ و رسول کی اور مسلمانوں کی خیانت کی تیسیر شرح جامع صغیر میں اسی حدیث کی شرح میں ہے ای نصبہ عليهم اميرا او قيما او اماما بالصلاة انتہی پھر اگرچہ اس نے توبہ کرلی ہو اور اپنے سنی ہونےکا اعلان کرتا ہو اسے امام نہیں بناسکتے بلکہ لازم ہے کہ اسے زمانہ دراز تک معزول رکھیں اور اس کے احوال کو بغور دیکھتے رہیں اگر خوف وطمع اور غضب و رضا وغیرہ مختلف حالات کے متعدد تجربہ ثابت کردیں کہ واقعی یہ سنی صحیح العقیدہ ثابت قدم ہے
اور وہابیوں دیوبندیوں کے جلسوں میں شرکت نہیں کرتا اور ان کی کتابوں کامطالعہ نہیں کرتا بلکہ ان سے اور سب بد مذہبوں سے اور ان کی کتابوں سے متنفر ہے اس وقت اسے کسی مسجد کا امام مقرر کر سکتے ہیں۔فتاوی قاضی خاں پھر فتاوی عالمگیری میں ہے الفاسق اذا تاب لا يقبل شهادته ما لم بيض عليه زمان يظهر عليه اثر التوبة انتہی
ـ-امير المؤمنين غيظ المنافقين سيدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جب صبیغ تمیمی سےجس پر بحث متشابہات کے سبب بدمذہبی کا اندیشہ تھا بعد ضرب شدید توبہ کرلی تو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمان بھیجا کہ مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھیں اس کے ساتھ خریدو فروخت نہ کریں،بیمار پڑے تو اس کی عیادت کو نہ جائیں اور مر جائے تو اس کے جنازے پر حاضر نہ ہوں تو اس حکم کی تعمیل میں ایک مدت تک یہ حال رہا کہ اگر 100 ادمی بیٹھے ہوتے اور وہ آجاتا تو سب متفرق ہو جاتے۔حالانکہ وہ توبہ بہت پہلے کر چکا تھا۔مگر مسلمان بحکم امیرالمومنین اس سے دور رہتے ۔ پھر جب حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین کو مطلع کیا کہ اب اس کا حال اچھا ہوگیا اس وقت آپ نے مسلمانوں کو صبیغ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور خریدوفروخت کرنے کی اجازت دی۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا رضی المولی تعالٰی عنہ تحریر فرماتےہیں جسے دیکھیں کہ ان (گمراہ) لوگوں سے میل جول رکھتا،ان کی مجالس وعظ میں جاتا ہے اس کا حال مشتبہ ہے ہرگز اسے امام نہ بنائیں اگرچہ وہ اپنے کو سنی صحیح العقیدہ کہتا ہو (فتاوی رضویہ جلد سوم ص214) وهوتعالى اعلم
(3)زید اگر بدمذہب نہ ہو اور اس کی طہارت و قرأت یا کسی عمل کی وجہ سے کوئی سبب کراہت نہ ہو اور الزام زنا ثابت نہ ہو تو اسے امامت سے ہٹانا جائز نہیں۔
لان فيه ايذاء المسلم
لہذا جن لوگوں نے زید کو بلا وجہ شرعی امامت سے معزول کیا ان لوگوں نے دو ظلم کئے کہ جو شخص قابل امامت تھا اسے ہٹا دیا اور بکر جو قابل امامت نہیں تھا اسے امام مقرر کردیا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جس کا حال مشتبہ ہو اور جو احکام شرعیہ کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا اسے امامت سے الگ کر دیں اور امام اول کو نماز پڑھانے کے لئے مقرر کر دیں۔اور اگر امام اول میں بھی کوئی شرعی خرابی ہو تو تیسرا شخص جو سنی صحیح العقيده ،صحیح الطهارة،صحیح القرأت ہو اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو اسے امام مقرر کریں۔اگر مسلمان ایسا نہ کریں گے تو گنہگار ہوں گے
كما هو الظاهر و هو تعالى اعلم بالصواب
بحوالہ: فتاوی فیض الرسول
:جلد اول