مسئله:عید الفطر کی امامت کے لئے کھڑا ہوا اس نے لوگوں کو نماز عید کی نیت اور ترکیبیں بھی بتائیں لیکن زید نے امامت کے لئے تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیا اور ثناءپڑھنے کے بعد قرآت سے پہلے تکبیر کہنے کے بجائے قراءت شروع کر دی یہاں تک کہ سورہ فاتحہ ختم کر لی اور دوسری سورہ کی پہلی ہی آیت شروع کی تھی کہ زید کو لقمہ دیاگیا اور زید نے لقمہ لے کر تینوں تکبیریں کہیں اور الحمد سے پھر سے قراءت شروع کر کے نماز ختم کی نماز کے بعد کچھ لوگوں نے کہا کہ نماز نہیں ہوئی مگر زید نے کہا کہ نماز ہوگئی ایک عظیم جم غفیر نماز ادا کر رہا تھا اگر پہلی رکعت کی تینوں تکبیریں بعد قرآت کہی جاتیں تو نماز میں بیحد انتشار کا خدشہ تھا زید نے فساد سے بچنے کی خاطر جو نماز ادا کی وہ صحیح ہوئی یا نہیں ؟
(نوٹ) زید کے قول کی تصدیق بعض کتابوں سے بھی ہو رہی ہے ، جس میں کبیری وغیرہ کا حوالہ درج ہے ۔جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
الجواب: اللهم هداية الحق والصواب بعض کتب فقہ میں ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد اور سورت پڑھنے سے پہلے اگر معلوم ہوا کہ تکبیر زوائد بھول گیا ہے تو تکبیر کہے اور قراءت کا اعادہ کرے۔جیسا کہ رد المحتار میں ہے ان بدأ الامام بالقرأة سهوا فتذكر بعد الفاتحة والسورة يمضى في صلاته وان لم يقرأ الا الفاتحة كبر واعاد الفاتحة لزوما اھ – لہذا اس قول کے مطابق زید نے وہی کیا جو اسےکرنا چاہئے مگر بہار شریعت میں جو مفتی بہ قول نقل کیا گیا ہے یہ ہے کہ پہلی رکعت میں امام تکبیریں بھول گیا اور قرآت شروع کر دی تو قرآت کے بعد کہے یا رکوع میں اور قرآت کا اعادہ نہ کرے اور فتاوی عالمگیری میں ہے اذا نسی الامام تكبيرات العيد حتى قرأ فانه يكبر بعد القرأة اوفى الركوع ما لم يرفع راسه كذا في التاتارخانيه اھ ۔ تو اس قول کی روشنی میں زید کو چاہئے تھا کہ وہ تکبیر زوائد قرآت کے بعد کہتا یا رکوع میں اور قرآت کا اعادہ نہ کرتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا تو برا کیا مگر نماز ہوگئی و ھو تعالى اعلم بالصواب ۔
بحوالہ: فتاوی فیض الرسول
ص:428۔ جلد 1
امام اگر عید کی نماز میں تکبیریں بھول جائے تو کیا حکم ہے
08
Jan