امامت کا بیان

امام اگر بھول جاۓ

امامت کے متعلق متفرق سوالات۔

(1) اگر امام بھول کر قعدہ اولی میں نہ بیٹھا بلکہ کھڑا ہو گیا یا کھڑے ہونے سے قریب ہو گیا پھر کسی مقتدی کے لقمہ دینے سے بیٹھ گیا اور آخر میں سجدہ سہو کر لیا تو نماز ہو گی یا نہیں؟
(2) اور اگر امام نہیں بیٹھا پھر آخر میں سجدہ سہو کر لیا تو امام و مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہے؟
(3) اور اگر امام بغیر لقمہ خود ہی خیال آنے سے بیٹھ گیا پھر سجدہ سہو کیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟
(4) اگر کوئی ایسی غلطی ہوئی کہ سجدہ سہو نہیں تھا پھر بھی کر لیا تو کیا حکم ہے؟

الجواب
بعون الملك العزيز الوهاب
(1) اگر امام قعدہ اولی بھول کر سیدھا کھڑا ہو گیا اس کے بعد مقتدی کے لقمہ دینے سے بیٹھ گیا اور امام کی پیروی میں سب مقتدی بھی بیٹھ گئے تو کسی کی نماز نہ ہوئی سب کی نماز باطل ہو گئی اس لئے کہ سیدھا کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھنا گناہ ہے۔ درمختار مع شامی جلد اول ص 500 میں ہے۔
ان استقام قائما لا يعود فلو عاد الى القعود تفسد صلاته وقيل لا تفسد لكنه يكون مسينا وهو الاشبه كما حققه الكمال وهو الحق بحر اھ ملخصا ۔درمختار میں ہے قوله لكنه يكون مسینا ای و یاثم کما فی الفتح۔ لہذا مقتدی نے امر ناجائز کے لئے لقمہ دیا تو اس کی نماز فاسد ہو گئی۔ پھر امام اس مقتدی کے بتانے سے لوٹا ہو نماز سے خارج تھا تو اس کی نماز بھی باطل ہو گئی اور مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو گئی اور اگر ابھی امام سیدھا نہ کھڑا ہوا تھا بلکہ کھڑے ہونے کے قریب تھا اور مقتدی کے لقمہ دینے پر بیٹھ گیا پھر آخر میں سجدہ سہو کیا تو سب لوگوں کی نماز ہو گئی اس لئے کہ جب سیدھا کھڑا نہ ہو تو مذہب اصح میں پلٹ آنے کا حکم ہے مراقی الفلاح میں ہے ۔
ان عاد وهو الى القيام اقرب بان استوى النصف الاسفل مع انحناء الظهر وهو الاصح في تفسيره سجد للسهو
طحطاوی 254 میں ہے۔
قوله وهو الى القيام اقرب الخ ظاهره انه ان لم یستو قائما يجب عليه العود ثم يفصل في سجود السهو فان كان الى القيام اقرب سجد له وان كان الى القعود اقرب لافحكم السجود متعلق بالقرب وعدمه وحكم العود متعلق بالاستواء وعدمه –
اور تنویر الابصار و در مختار میں ہے
(سھا عن القعود الأول من الفرض)ولو عمليا اما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد اليه) وتشهد ولا سہو عليه في الاصح ( ما لم يستقم قائما) في ظاهر المذهب وهو الاصح فتح رد المحتارص499میں ہے
قوله ولا سهو عليه في الاصح يعني اذا عاد قبل ان يستتم قائما وكان إلى القعود اقرب فانه لا سجود عليه في الاصح وعليه الأكثر و اما اذا عاد وهو الى القيام اقرب فعليه سجود السہو كما فى نور الايضاح و شرحه بلا حکایۃ خلاف فیه وصحح اعتبار ذالک فی الفتح بما فی الکافی ان استوی النصف الاسفل وظھرہ بعد منحن فھو اقرب الی القیام وان لم یستو فھو اقرب إلى القعود۔
اور فتاویٰ رضویہ جلد ثالث ص 632 میں ہے”اگر قیام سے قریب ہو گیا یعنی بدن کا نصف زیریں سیدھا اور پیٹھ میں خم باقی ہے تو بھی مذہب اصح وارجح میں پلٹ آنے ہی کا حکم ہے مگر اب اس پر سجدہ سہو واجب انتہی بالفاظه -وهو اعلم باالصواب
(2) اگر مقتدی نے اس وقت لقمہ دیا جب کہ امام بیٹھنے کے قریب تھا مگر وہ نہیں بیٹھا تو کسی کی نماز فاسد نہ ہوئی لیکن اس نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے اس لئے کہ امام نے لقمہ کے بعد قصدا ترک واجب کیا جس کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہو سکتی ۔
فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص118 میں ہے۔
ان ترک ساھیا یجبر بسجدتي السهو وان ترك عامدا لا كذا فى التتارخانية وظاهر کلام الجم الغفير انه لا يجب السجود في العمد وانما تجب الاعادة جبرا لنقصانه كذا في البحر الرائق
اور اگر مقتدی نےاس وقت بتایا جب کہ امام پورا سیدھا نہ کھڑا ہوا تھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہو گیا تو سجدۂ سہو سے سب کی نماز پوری ہو گئی کہ مقتدی نے اس وقت لقمہ دیا جب کہ امام کو بیٹنے کا حکم ہے اس لئے مقتدی کی نماز فاسد نہ ہوئی اور چوں کہ امام بھول کر کھڑا ہوا اس لئے اس کا نقصان سجدہ سہو سے پورا ہو گیا۔
(3)اگر امام بیٹھنے کے قریب تھا اور بیٹھ گیا تو نماز ہو گئی ۔ اور اس صورت میں سجدہ سہو نہیں اور اگر کھڑے ہونے سے قریب ہوا پھر بیٹھ گیا تو اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہوا اگر کر لیا تو نماز پوری ہو گئی اور اگر پورا کھڑا ہو گیا پھر بغیر لقمہ خود ہی خیال انے سے بیٹھ گیا تو گنہگار ہوا اور مذہب راجح پر نماز فاسد نہ ہوئی اور سجدہ سہو کرنے سے پوری ہو گئی۔
فتاویٰ رضویہ جلد سوم 633 میں ہے “ہر کہ در فرض یا وتر قعدۂ اولی فراموش کردہ استادہ تا بتمامه استاده نه شود بسوئے قعود رجوعش با یدپس اگر ہنوز بقعود اقرب بود سجدۂ سہو نیست و اگر بقیام نزدیک تر شدہ باشد سجده سہو لازم آید۔واگر بتمامہ راست ایستاد آنگاہ نششتن روانیست اگر بقعدہ اولی بازی گردد گنہگار شود امام راجح آنست کہ نماز دریں صورت ہم از دست نہ رودو سجدۂ سہو واجب شود اھ ملخصا وھو تعالی اعلم باالصواب
(4) اگر کوئی ایسی غلطی ہوئی کہ سجدۂ سہو لازم نہ تھا مگر پھر بھی سجدہ سہو کیا تو منفرد امام اور وہ مقتدی جو مدرک ہیں یعنی پہلی رکعت سے آخر تک امام کے ساتھ پڑھے ہیں ان سب کی نماز ہو گئی۔ لیکن جو لوگ امام کے سجدۂ سہو کرنے کے لئے سلام پھیرنے کے بعد جماعت میں شریک ہوئے ان کی نماز نہ ہوئی کہ بے سبب سجدۂ سہو کرنے سے امام سلام پھیرتے ہی نماز سے الگ ہو گیا تو ما بعد کے مقتدیوں کو نماز کے کسی جز میں امام کی شرکت نہ ملی ۔در مختار مع شامی ج ص 503 میں ہے سلام من علیہ سجود سھو یخرجه من الصلوۃ خروجا موقوفا ان سجد عاد الیھا و الا لا۔اور رد المحتارجلد اول ص 504 میں ہے۔ انه اذا سجد وقع لغوا فكانہ لم یسجد فلم يعد الى حرمة الصلوة – اور وہ مقتدی جو مسبوق ہیں یعنی جن لوگوں کی کچھ رکھتیں چھوٹ گئی ہیں اگر وہ لوگ سجدہ کرنے میں امام کی اتباع کئے بعد کو معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو واجب نہ تھا تو ایسے مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو گئی اس لئے کہ انھوں نے محل انفراد میں اقتدا کیا۔ طحطاوی علی مراقی 653 میں ہے۔ لو تابعه المسبوق ثم تبين ان لا سهو عليه ان علم ان لاسھو على امامه فسدت وان لم يعلم انه لم يكن عليه فلا تفسد وهو المختار كذا في المحيط – وهو تعالى اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص: 386