ٹیلی پیتھی

الہام

الہام

الہام ایک نہایت اعلیٰ اور برتر انسانی خوبی کا نام ہے ۔ ہر انسان کو الہام نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت صرف پیغمبروں اور برگزیدہ ہستیوں کے لئے مخصوص ہے کہ انہیں ہمیشہ الہام ہوتا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کا یہی اعلیٰ ترین وسیلہ رہا ہے ۔ الہام اور نداے غیبی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔الہام کا دائرہ کائنات کی وسعتوں سے کہیں زیادہ پھیلاو ر کھتا ہے جو لوگ مسلسل ریاضتوں مجاہدوں اور مشقوں سے کسی طرح الہام کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ بعض ایسی خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں کہ عام لوگ انہیں دیکھ کر بحید متحیر رہ جاتے ہیں ۔
یہ بات تو تقریبا سب جانتے ہیں کہ تمام پیغمبر اور برگزیده ہستیاں بھی مد توں دیا ویرانوں صحراؤں غاروں اور تنہائیوں میں ریاضتیں کرتی رہی ہیں ۔ تب کہیں جا کہ وہ الہام کے درجہ تک
پہنچی ہیں۔
آئیے اب ہم معلوم کریں کہ الہامی کیفیت کیسے طاری ہو جاتی ہے جب آپ ہم تن ہو کر کسی مشہورمقصد و تصور میں غرق ہو جاتے ہیں تو دماغ کے مرکزی اعصابی حصّے میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے اور اسی ہیجان سے سے دماغ کاغدہ بلغمیہ یعنی ہیچوٹری گلینڈ میں تحریک پیدا ہو جاتی ہے اور عامل پر استغراق کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور یہی غدہ شعور برتر کا مرکز ہے
ان ہیجانات کہ نتیجہ میں وہ مخصوص شعائیں خارج ہوتی ہیں جو زمان وہ مکان کی قید سے آزاد ہیں یہ مخصوص شعائیں متحرک ہوتی ہیں تو ذہن میں وہ تمام مناظر گھومنے لگتے ہیں جن کے بارے میں اپ کا شعور کچھ جاننا چاہتا ہے شروع شروع میں تو تصویریں بڑی دھندلی اور مبہم سی نظر اتی ہیں اور ان کے ظاہر ہو نے میں کچھ دہشت طاری ہوتی ہے اور جسم کپکپا نے لگتا ہےبعض اوقات مراقبے کے عالم میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے جسم کی قید و بند سے ازاد ہو کر لامحدود خلائی وسعتوں میں کہیں اڑتے چلے جا رہے ہیںدرحقیقت یہ اسپری جسم کی شعائیں ہوتی ہیں کیو نکر وہ ہم سے مشابہ ہے اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم خود ہی خلا میں اڑ رہے ہیں
اس کیفیت کے فورا بعد ہمارے کانوں میں غیبی اوازیں انے لگتی ہیں جیسے ہواؤں میں سرسراہٹ ہو اس کے بعد یہ اوازیں اتنی گرجدار ہو جاتی ہیں کہ قوت سماعت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی پھر طرح طرح کی خوفناک شکلیں نظر انے لگتی ہیں عجیب وہ غریب اوازیں بھی سنائی دیتیں ہیں اور مختلف قسم کے سائے ناچتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں