اسلام اور سائنس

عبادت اور جدید سائنسی تحقیقات

عبادت اور جدید سائنسی تحقیقات

 روحانی قـوت 

امراض سے بچاؤ میں روحانی طاقت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اللہ پر بھروسا اور ایمان کی طاقت انسان کے تمام امراض پر پر اسرار طریقے سے خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے ۔ یہ احساس کہ اللہ تعالی جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار اور مالک ہے، ہماری زندگی کے ہر ہر موقع پر ہمارے ساتھ ہے اور وہی ہمیں بیماری ، مشکلات و آفات سے بچانے اور ثابت قدمی عطا کرنے والا ہے ، ہمارے جسم کی شفایابی کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے ۔ جو افراد روحانی اور ذہنی طور پر سکون کی حالت میں ہوتے ہیں وہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو ایمان کی کمزوری کی بنا پر پریشانی اور افسردگی میں مبتلا ہوتے ہیں ، بہت جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ بے شک ایمان میں بڑی طاقت ہے اوراسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں کچھ خرچ کرنا نہیں پڑتا۔ 

عبادت کی افادیت جدید ریسرچ کی روشنی میں :

نارتھ کیرولینا کے چار معمر افراد پر تحقیق سے ثابت ہوا کہ جو لوگ ہر روز عبادت کرتے ہیں ، دعائیں مانگتے ہیں اور اپنی مذہبی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ہر ہفتہ اجتماعی عبادت میں شریک ہوتے ہیں ان میں بلڈ پریشر کے خطرات ان لوگوں کےمقابلہ میں بہت کم ہو جاتے ہیں جو عبادت نہیں کرتے ۔ (اخبار جہاں )

عبادت کی قوت

ایک کمپنی کے دفتر میں دو شخص بڑی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے ان میں سے ایک شخص کاروباری اور ذاتی مصائب کا شکار تھا ۔ وہ مایوسی کی حالت میں گھوم رہا تھا۔ کبھی وہ دونوں ہاتھ تھام کر کرسی پر بیٹھ جاتا وہ حزن و ملال کی پوری تصویر دکھائی دے رہا تھا ۔ وہ دوسرے شخص سے مشورہ لینے آیا تھا کیونکہ دوسرا شخص اپنے کاروباری حلقہ میں بڑی سمجھ بوجھ والا مانا جاتا تھا۔ انہوں نے درپیش مسئلہ کو ہر زاویے سے دیکھا مگر انہیں اس کا کوئی حل نظر نہ آیا۔ جس کی وجہ سے اس دکھیارے شخص کی حالت اور بھی غیر ہورہی تھی ۔ ” میرا خیال ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت بھی اب مجھے تباہی سے نہیں بچا سکتی ۔“‘ اس نے ایک طویل سرد آہ بھر کر کہا۔

دوسرا شخص تھوڑی دیر خاموشی سے سوچتا رہا اور پھر بولا ” میں حالات کو اتنا برا نہیں سمجھتا ۔ میرا خیال ہے آپ کو اس قدر ہمت نہیں ہارنا چاہئیے ۔ ذاتی طور پر میرا تجربہ یہ ہے کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ دنیا میں ایک ایسی طاقت موجود ہے جو آپ کی مدد کرسکتی ہے ۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ اس سے کہا ” آپ خدا کی عبادت کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے ؟“

مصیبت زدہ شخص نے قدرے حیرت سے کہا ” مجھے عبادت میں یقین تو ہے مگر مجھے عبادت کرنی نہیں آتی ۔ آپ نے کیا فرمایا کہ عبادت کے ذریعے کاروباری مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں ! میں نے یوں کبھی نہیں سوچا بہر حال میں عبادت کرنے کو تیار ہوں مگراس معاملہ میں ذرا آپ میری مدد کریں ۔

اس نے عملی عبادت کا طریقہ اختیار کیا اور تھوڑے ہی عر صے میں اسے اپنے مسائل کا حل ملنا شروع ہو گیا ۔ آخر کار حالات اس کے موافق ہو گئے ۔ ان کا مطلب یہ نہیں کہ اسے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس پر بڑے بڑے سخت مرحلے آئے تھے مگر آخر کار وہ اپنی مصیبتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا اور اب وہ عبادت کی قوت پر اس قدر اعتماد رکھتا کہ پچھلے دنوں میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا تھا اگر آپ خدا کی عبادت کریں تو ہر مسئلے کا صحیح حل مل سکتا ہے ۔“ جسمانی صحت کے ماہرین اکثر اوقات عبادت کو بھی صحت برقرار رکھنے کے طریقے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

گرجا کے پادری کی عبادت اور مسلمان عالم سے ٹکراؤ:

اس طرح کی مثالیں کثرت سے قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور یہاں میں ایک واقعہ نقل کروں گا جس کے راوی علامہ عنایت اللہ مشرقی ہیں اوراس کا تعلق انگلستان سے ہے :۱۹۰۹ کا ذکر ہے ، اتوار کا دن تھا اور زوروں کی بارش ہو رہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سرجیمر جینس (James Jeans) پر نظرپڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے، میں نے قریب ہو کر سلام کیا ، انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ، دوبارہ سلام کیا تو متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ” تم کیا چاہتے ہو، میں نے کہا دو باتیں اول یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتا بغل میں داب رکھا ہے، سر جیمز اپنی بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتا تان لیا ، دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاقہ آدمی گر جا میں عبادت کے لیے جا رہا ہے، یہ کیا ؟ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمز لمحہ بھر کے لیے رک لئے اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ” آج شام کی چائے میرے ساتھ پیو“ چنانچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پہنچا، ٹھیک ۴ بجے لیڈی جیمز باہر آ کر کہنے لگیں سر جیمز تمہارے منتظر ہیں اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پرچائے لگی ہوئی تھی ، پر وفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے کہنے لگے تمہارا سوال کیا تھا . اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر اجرام آسمانی کی تخلیق ، ان کے حیرت انگیز نظام ، بے انتہا پنہائیوں اور فاصلوں ، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستان کبریا و جبروت پر دہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے ، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دو گونہ کیفیتیں عیاں تھیں ، اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی ، فرمانے لگے عنایت اللہ خاں ! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں تو بڑا ہے تو میری ہستی کا ہر ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے ، مجھے بیحد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے ، مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے ، کہو عنایت اللہ خاں ! تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں ۔“

علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا، میں نے کہا جناب والا ! میں آپ کی روح افروز تفصیلات سے بے حد متاثر ہوں ، اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یاد آگئی اگر اجازت ہو تو پیش کروں ؟

و من الجبال جُدُدٌ بَيْضٌ وَحُمُرٌ مختلف الْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُوده ومن النَّاسِ وَالدَّ وَآب وَالْأَنْعَامِ مختلفُ الْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَ الله من عباده العُلَمَاء (فاطر (۲۷)

پہاڑوں میں خطے ہیں ، سفید اور سرخ اور طرح طرح کے رنگ کے اور کالے، اور آدمیوں اور کیڑوں میں اور چوپائیوں میں، اسی طرح مختلف رنگ، ہیں ، اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اسکے بندوں میں سے جو علم رکھتے ہیں یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمر بولے:کیا کہا ، اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ، حیرت انگیز ، بہت عجیب ، یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی محمد کو کس نے بتائی ، کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے، اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ، اسے یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی ، اسے یقینا اللہ نے بتائی تھی ،بہت خوب ، بہت عجیب ….