اسلام اور سائنس, ی۔دینیات

عبادت اور جدید سائنسی تحقیقات

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے “مصیبت کے وقت اپنے خدا کو پکارو ۔ کیا آپ نماز ادا کرتے ہیں؟ گھر کی نسبت مسجد میں نماز پڑھنا زیادہ طمانیت پیدا کرتا ہے، کیونکہ مسجد کا پر سکون . ماحول ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے ۔ نماز فوری طور پر انسان کے اعصاب کو سکون دیتی ہے۔ خدا کے حضور میں انسان جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔ اعصابی تناؤ ختم ہو جاتا ہے اور انسان دلی اطمینان سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی رنج یا غصے کی حالت میں نماز پڑھنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ نماز کے بعد دعا مانگنے سے مستقبل کے بارے میں ہمارا خوف دور ہو جاتا ہے ۔ ہم اپنے معاملات خدا کے سپرد کر دیتے ہیں ۔ جو بچے رات کو ڈرتے ہیں ، مائیں انہیں ہدایت کرتی ہیں ” بیٹا سونےسے پہلے آیت الکرسی پڑھ لو ڈر نہیں لگے گا۔عبادت ، شکستہ دلوں کے لیے سہارا ہے ۔ دن میں کئی بار خدا کی دی ہوئی نعمتیں یاد کیجئے ، اس سے اضطراب اور خوف ختم ہو جائے گا اور حقیقی سکون نصیب ہوگا

اسلام میں عبادت کا جو تصور دیا گیا ہے اس کا مقصد تطہیر روح اور تزکیہ نفس ہے منجملہ عبادت کے نماز اور روزہ ایسی عبادات ہیں جن میں تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ ہی یعنی روحانی پاکیزگی کے ، تھ ہی جسمانی فوائد بھی نمایاں ہوتے ہیں ۔ نماز اللہ تعالی نے ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض قرار دی ہے۔ ہر نماز سے قبل وضو کر ناضروری ہوتا ہے اور شبانہ روز نماز پنگا نہ میں پانچ وقت وضو کر نا ہاتھ منہ وغیرہ دھونا ضروری ہیں ۔ علاوہ ازیں نماز دیگر عبادات کے لیے ظاہری جسم کی پاکیزگی بھی لازمی ہے لہذا غسل کرنا ، صاف ستھرا اور پاکیزہ لباس پہننا اور ہر روز مسواک کرنا جس سے دانت صاف رہتے ہیں جو کہ حفظان صحت کے لیے نہایت ہی مفید ہے اس سے انسان کی صحت پر بہت ہی مفید اثر پڑتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جسمانی صحت سے ہی انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت بخوبی کر سکتا ہے نیز نماز میں قیام ، رکوع اور سجود وغیرہ سے ایک قسم کی ہلکی سی ورزش بھی ہو جاتی ہے جو صحت کے لیے ضروری ہے اس سے انسان چست رہتاہےعبادت فحشاء و منکرات سے روکتی ہےفحشاء سے مراد جنسی دست درازی اور عیاشی ہے اور لفظ منکر کا مفہوم ہے نا پسندیدہ چیز خواہ وہ بیماری ہو یا پریشانی ، نماز ان دونوں سے روکتی ہے۔ ایک عبادت گزار کو لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ لفنگا اور لوفر بن کر لوگوں کی نفرت کا نشانہ بن جائے ۔ رہے امراض و مصائب ۔ تو اللہ کے ذکر اور قرآن مقدس کی تلاوت سے جسم ایسی رطوبتیں خارج کرتا ہے جو مرض کی غلاظتوں کو بہالےجاتی ہے۔

(1) جیسا کہ انسان پر ظاہر ہے کہ تغیر اوقات و تبدیل حالات سے جسمانی تبدیلیاں مشاہدہ میں آرہی ہیں ایسا ہی تغیر اوقات کے ساتھ اس پر روحانی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی رہتی ہیں اور جیسا کہ ان تغیر اوقات کا اثر انسان کے جسم پر پڑتا ہے ایساہی اس کی روحانیت پر بھی اثر ہوتا ہے۔تبدیل اوقات و حالات کے بعض دوروں کا وقت تو روزانہ ہوتا ہے اور وہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کے اوقات ہیں اور بعض اوقات کا دور ہفتہ کے دور کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ روز جمعہ کا وقت ہے اور بعض اوقات کا دور سال کے دور کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور وہ رمضان شریف کی وعیدیں ہیں ۔

(2) لوگوں کے اعمال کا درگاہ الہی میں ده شنبه و پنجشنبہ کو پیش ہونا جو احادیث نبوی میں مذکورہے اور رمضان میں قرآن کریم کا نازل ہونا فضیلت اوقات اور انسانی حالات کی خصوصیتوں کی طرف ایما ہے ۔ 

(3) جیسا کہ جسم کی حفاظت کے لیے بطور حفظ ما تقدم خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء و ادویہ و غذا یہ حسب مناسب وقت استعمال کی جاتی ہیں ایسا ہی روحانیت کے لیے خداتعالی کے فرمودہ احکام کی بجا آوری بمناسب اوقات معینہ کی جاتی ہے

(4) نماز کے لیے وقت کا مقرر کرنا ضروری ہے کیونکہ وقت کے تعیین سے انسانوں کے دلوں کو اس کی طرف توجہ رہتی ہے اور ان کو جمیعت رہتی ہے اور یہ جھگڑا نہیں رہتا کہ ہر شخص اپنی رائے پر چلے کیونکہ جس امر کی تعین نہ ہو اس میں ہر شخص اپنی رائے کا دخل دینا چاہتا ہے خواہ اس میں اس کا نقصان ہی کیوں نہ ہوں

(5)اگر عبادات کے اوقات معین نہ ہوتا تو اکثر لوگ تھوڑی سی نماز روزہ کو زیادہ خیال کرتے جو بالکل رائیگاں اور غیر مفید ہوتا تعیین اوقات میں یہ بھی ایما ہے کہ اگر کوئی شخص ان اوقات کی پابندی سے آزاد رہنا چاہے اور ان کو ترک کرنے کے حیلےحوالے کرے تو اس کی گوشمالی ممکن ہو سکے ۔

(6) حکمت الہی کا اقتضا ہوا کہ انسان کو زمانہ کے ہر ایک محدود حصہ کے بعد نماز کی پابندی کا اور اس کے تعین وقت کا حکم دیا جاوے تا کہ نماز سے قبل اس کا انتظار کرنا اور اس کے لیے تیار رہنا اور نماز کے بعد اس کے نور کا اثر اور اس کے رنگ کا باقی رہنا بمنزلہ نماز ہی کے ہو جائے اور غفلت کے اوقات میں خدا تعالیٰ کا ذکر مد نظر رہا کرے اور اس کی اطاعت میں دل معلق رہے اس میں مسلمان کا حال اس گھوڑے کی طرح رہتا ہے جس کی گاڑی پچھاڑی بندھی ہوتی ہے اور ایک دو دفعہ کودتا ہے اور پھر بے بس ہو کر رہ جاتا ہے اور نماز کی پابندی سے غفلت اور گناہوں کی سیاہی بھی دلوں کے اندر نہیں بیٹھتی

(7) تقر ر اوقات خمسہ میں پابندی اوقات کی طرف اور امور مہمہ میں تا خیر نہ کرنے کی طرف ایما ہے “ لا توخر عمل اليوم لغد “، یعنی آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔

بوڑھوں کے لیے عدد تخلیہ PITUARY سے پیدا شدہ ہارمون ( اندرونی رطوبات ) کئی اور الجھنیں اور دباؤ پیدا کر دیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ضعیفی کی وجہ سے خرابی صحت کا ہر وقت دغدغہ لگا رہتا ہے کہ نہیں معلوم کسی وقت میری طبیعت بگڑ جائے اور میں بالکل معذور اوراپاہج بن کر دوسروں کا محتاج اور بے بس ہو جاؤں اس قسم کے خطرات تو کسی عمر کے جوان کو بھی ہو سکتے ہیں پھر بوڑھوں کے لیے تو ایک بہت بڑی ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے اور ان کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ آپ خوش رہنے کی کوشش کیجئے اور اس قسم کے خوف و خطر کو پاس بھی نہ آنے دیجئے ۔ پختہ کردار اور خشیت الہی کی ضرورت ہوتی ہے اب اگر ان کو نفس کے ہلکے سے مجاہدے کی عادت ڈلوا دی جائے اور عبادت کی لذت فراہم کر دی جائے اور پیرا نہ سالی کے تجربات اور خدمت خلق کا جذبہ ان کے اندر موجزن کرا دیا جائے تو ان کی تمام تکلیفیں اور مسائل خود بخود انشاء اللہ حل ہو سکتے ہیں

ایک مرتبہ دو مشہور کاروباری ہستیاں ( اگر ان کے نام لکھ دوں تو بہت سے قارئین ان سے واقف ہوں گے ) ایک کاروباری مسئلے پر بڑی دیر تک سر کھپاتی رہیں ۔ انہوں نے عبادت کی مگر انہیں اس مسئلے کا کوئی حل نہ مل سکا ۔ آخر کا ر انہوں نے ایک عالم کے ہاں جا کر اس سے مشورہ لینا ضروری سمجھا کیونکہ قرآن پاک میں ایک جگہ آیا ہے جب یہ لوگ آپس میں بیٹھ کر کسی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خدا کی ذات ان کے درمیان ہوتی ہے ان کے شریک حال ہوتی ہے ۔لہذا تینوں نے مل کر اس مسئلے پر غور کرنا شروع کیا وہ بار بار قرآن پاک کو کھولتے اور اپنی باتوں کا جواز اس میں تلاش کر لیتے ۔ آخر چند دنوں کی محنت کے بعد انہیں اپنے مسئلے کا تسلی بخش حل معلوم ہو گیا