ہیپناٹزم (Hypnosis)
ممکن ہے کہ آپ کو علم ہو کہ ہپناٹزم کا وجود ہم کو قدیم ترین دور میں بھی ملتا ہے۔ مصر کی تاریخی ممی کی کھوپڑیوں پر ماہرین نے باقاعدہ آپریشن کے نشانات پائے ہیں۔ برٹش میوزیم میں بھی ایک دور قدیم کی تصویر موجود ہے۔ جس میں ہزاروں برس قبل کا ایک مصری ماہر ہپناٹزم مجمع پر ہپناٹزم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ فن ہندوستان، ایران اور یونان میں موجود تھا۔ لفظ ہپناٹزم (HYPNOTISM) یونانی زبان سے لیا گیا ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں نیند ۲۹ جون ۱۸٤۲ء کو ڈاکٹر جیمس بریڈ ایک مشہور برطانوی سرجن نے اس موضوع پر پہلا مقالہ میڈیکل برٹش ایسوسی ایشن کے سامنے پڑھا۔ ۱۸۴۲ء میں ہی اسکویروارڈ نے انگلینڈ میں ایک شخص کی مفلوج ٹانگ ہپناٹزم کے ذریعے اچھی کر دی۔ اس کے بعد جیمز ا بلٹین نے ایک کتاب میں ہپناٹزم کے تین ہزار کامیاب تجربات تحریر کئے۔
لیکن اس سے بہت عرصہ قبل١٧٧٨ء میں فرانز مسمر (FRANS MESMER) نے پیرس میں اس فن کا عام مظاہرہ کیا تھا۔ دراصل مسمر کے نام پر اس فن کا نام مس مریزم پڑا۔ لیکن مسمر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود دنیا کو یقین نہ دلا سکا کہ مسمریزم ایک سائنٹیفک فن ہے۔ اس کو اپنے فن کی ارتقا کے لئے امداد و تعاون کے بجائے پابندیوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید اسی وجہ سے اس فن کو وہ جگہ نہ حاصل ہو سکی جو آج کی طبی دنیا میں ہے۔ ہپناٹزم اور مسمریزم کی ابتدا کے متعلق ڈاکٹرجی، ایم ناز نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے، اس کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ ناشر) لیکن صرف مسمر ہی کیوں اس کے بعد بھی جن ماہرین نے طب کے اس فن کو حقائق کی روشنی میں پیش کرنا چاہا، وہ دنیا کی ملامتوں کا نشانہ بنے۔ اسکویر وارڈ نے ۱۸۴۲ء میں لندن کے “رائل کالج آف سرجن ” میں اس فن کو سائنٹیفک ثابت کرنے کی کوشش کی تو اس کی جد و جہد کو یہ اعتراض کر کے رد کر دیا گیا کہ ”بلا کسی تکلیف و احساس کے آپریشن کا طریقہ غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہے۔” اس کے باوجود اس وقت یورپ میں ہپناٹزم کی بنیاد ایک فن کی حیثیت سے پڑچکی تھی۔ کلور و فارم کی ایجاد نے پھر اس کو ایک بار پس پشت ڈال دیا ۔ چونکہ کلورو فارم کے ذریعے بے ہوشی طاری کرنا ایک یقینی اور فوری ذریعہ تھا اور چونکہ ہیپناٹزم کے ذریعے ہر شخص کو بے ہوش کرنا ممکن نہ تھا اس لئے کلورو فارم کو اس پر ترجیح دیا جانا قدرتی بات تھی۔
اس طرح سے ہپناٹزم کی تاریخ مسلسل نشیب و فراز کی منزلوں سے گزرتی رہی ہے لیکن آج ڈاکٹر ندیم مسکرا کر طلبا کی طرف متوجہ ہوئے “ہم اسے ایک مستند اور سائنٹیفک فن کی حیثیت سے تسلیم کر سکتے ہیں۔” اس مختصر سے تعارف کے بعد ہم یہ دیکھیں گے ہپناٹزم کے عملی طریقے کیا ہیں۔ ہم نومیت کی حالت (HYPNOTIC STATE) کس طرح پیدا کر سکتے ہیں؟ کیا ہپناٹائز کرنے کے لئے کسی مخصوص ماحول کی ضرورت ہے اور ہپناٹائز کرنے کے کتنے طریق کار ہیں ؟؟ انہوں نے چاک اٹھا کر بورڈ پر تحریر کیا۔
میں آپ سب کو کسی بھی مصنوعی ماحول کی تیاری کا ہرگز مشورہ نہ دوں گا۔ تاریک کمرے مخصوص طرز کی روشنی کا انتظام اور اس قسم کی دوسری چیزوں کے ذریعے معمول کو متاثر کرنے کی کوشش سے گریز کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں کسی بھی ماہر اور مستند ہپناٹسٹ کو ان طریقوں پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔”
ایک اور ابتدائی مشکل کا آپ کو عام طور پر سامنا کرنا ہو گا جب آپ پہلی مرتبہ کسی شخص سے یہ کہیں گے کہ “میں تم کو ہپناٹائز کرنا چاہتا ہوں۔ تو اس کے دل میں آپ کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوں گے۔ ممکن ہے وہ اس تجربے کے لئے بالکل ہی رضا مند نہ ہو۔ صاف انکار کردے۔ اس کا یہ رد عمل بالکل نارمل ہوگا۔ کیونکہ عام طور پر لوگوں نے ہپناٹزم کے بارے میں جو کچھ سن رکھا ہے، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ نومیت کی حالت میں معمول اپنے عامل کے قبضے میں ہوتا ہے اور ہپناٹسٹ اس سے جو کام چاہے لے سکتا ہے۔ اس قسم کے تماشے آپ نے اکثر اسٹیج پر دیکھے ہوں گے۔ اس بنا پر ممکن ہے لوگ آسانی سے ہپنا ٹائز ہونے پر آمادہ نہ ہوں۔”اس لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ ان کا اعتماد حاصل کریں ان کو یہ باور کرائیں کہ ہپناٹزم ایک نظری کیفیت ہے۔ ایک نفسیاتی طریقہ ہے جو آپ کی الجھنوں کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے اس کے علاوہ آپ کو بھی پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اپنے معمول کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہئے کبھی اس طرح ابتدا نہ کیجئے کہ ”دیکھئے دراصل چونکہ آپ کو اب تک دوسرے طریقوں سے کامیابی نہیں ہوئی اس لئے آئیے ہم آپ پر ہپناٹزم کا طریقہ بھی آزمائیں۔ ممکن ہے اس میں کامیابی ہو۔”لفظ ممکن ہے۔ آپ کے معمول کے ذہن میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا کر دے گا۔ ۔ اس طرح وہ یہ خیال کرے گا کہ آپ کو خود بھی اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہےہمیشہ پورے یقین کے ساتھ ابتدا کیجئے مثلاً ” آئندہ ملاقات میں آپ کو ہپناٹائز کروں گا معمول کو ممکن ہے کہ تعجب ہو ، ممکن ہے کہ وہ جھجک محسوس کرے ، لیکن آپ کا رویہ قابل اطمینان ہے۔ آپ اسے یقین دلا دیتے ہیں کہ ہپنا ٹزم واقعی ایک سائنس ہے اور ہپنا ٹزم سے کامیابی حاصل کرنا ممکن بھی ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ جب وہ آپ کے پاس آئے گا تو ہیپاٹائز ہونے کے لئے تیاری کر کے آئے گا اور اس تجربے کے لئے ذہنی طور پر رضامند ہو چکا ہو گا۔
جب آپ یہ کہیں کہ “میں تم کو ہپناٹائز کروں گا تو آپ کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھئے کہ جس طرح مریض اسی ڈاکٹر کی طرف رجوع ہوتے ہیں جس کی صلاحیت پر انہیں اعتماد ہو اور جسے وہ اپنے فن کا ماہر تصور کرتے ہوں اسی طرح ایک ہپناٹسٹ کے لئے بھی عوام کی نگاہوں میں قابل احترام ہونا ضروری ہے اور یہ کہ وہ اس کے فن کی تعریف کرتے ہوں۔”احترام و اعتماد پیدا کرنے کے لئے کئی باتیں ضروری ہیں۔ مثلا ما ہر خوش پوش و خوش گفتار ہو۔ اس کی ظاہری شخصیت میں وہ نفاست ہو جو لوگوں کے لئے جاذب توجہ ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہ بھولئے کہ بلا ظاہری رکھ رکھاؤ کے کامیابی حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ خواہ آپ اپنے فن میں کتنی ہی مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں۔” ڈاکٹر نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ سامعین کا جائزہ لیا۔ ہے۔”ہمیشہ یاد رکھئے کہ متاثر کرنے کی ذمے داری آپ پر عائد ہوتی ہے، آپ کو متاثر کرنا ہے
ڈاکٹر نے جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔ کبھی خود متاثر ہونے کی غلطی نہ کیجئے۔ میں اس سلسلہ میں آپ کو اپنا ایک تجربہ بتاتاہوں۔”وہ اطمینان کے ساتھ میز کے ایک کنارے پر بیٹھ گئے۔ لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے۔ یہ ان ابتدائی دنوں کا ذکر ہے جب میں نے ہیپناٹزم کی پریکٹس شروع کی تھی۔ مجھے ایک معزز اور با اثر شخصیت نے فون کے ذریعے طلب کیا کہ میں انہیں ان کے گھر پر اگرہپناٹائز کر کے ان کا علاج کروں۔ میں جب ان کی شاندار کو تھی پہ پہنچا تو ایک باور دی نوکر نے استقبال کیا۔ مجھے ایک خوشنما اور سجے ہوئے ہال میں بٹھا دیا گیا۔ جس کی آرائش سے امارت ٹپکتی تھی۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد انہوں نے مجھے اپنے خاص کمرے میں طلب کیا۔ یہ کمرہ شاہانہ آرائش کا نمونہ تھا۔ وہ ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ چند لمحے بعد انہوں نےنظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا۔” اوہ ڈاکٹر۔ آپ شاید مجھے ہپناٹائز کرنے آئے ہیں؟ خوب پھر آپ جلد از جلد اپنا عمل کر ڈالئے۔ میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔” لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ڈاکٹر بھی مسکرانے لگا۔
اور میں بلا تامل آپ کو یہ بتادوں کہ ان حضرت پر میرا پہلا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا لیکن مجھے اس تجربے سے سبق ضرور مل گیا۔” ہپناٹائز کرنے کے لئے کسی خاص کمرے کی ضرورت نہیں آپ اپنے ڈرائنگ روم یا مشورہ کے کمرے کو اس کام کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک آرام کرسی یا کوچ ہونا ضروری ہے۔ معمول کو نارمل حالت میں ہونا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہوا چانک شور و غل کے امکانات نہ ہوں۔ سڑک پر ٹریفک کے شور و غل سے کوئی حرج نہیں ہوتا۔ لیکن اچانک شور و غل سے توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس لئے اگر کمرہ ساؤنڈ پروف نہ بھی ہو تو کم از کم اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ تجربہ کے درمیان مداخلت نہ ہو۔ مثلاً ٹیلیفون کی گھنٹی کا اچانک بجنا کسی کا زور سے دستک دینا۔ تجربہ کے دوران جو مداخلت ہو سکتی ہے اس کے امکانات کو ختم کر دینا ضروری ہے۔” ڈاکٹر ندیم میز سے اتر کر کھڑے ہو گئے۔ لیجئے۔ اب آپ تمام ابتدائی تیاریاں کر چکے ہیں۔ آپ کے پاس معمول موجود ہے۔ آپ اسے کس طرح ہپناٹائز کریں گے؟” انہوں نے یہ سوال اس انداز میں کہ لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر مسکرائے۔ وہ لوگوں کی بے چینی محسوس کر رہے تھے۔
ڈاکٹر نے لوگوں کی طرف مڑتے ہوئے دہرایا ۔ ہپنا ٹک حالت یا نومیت کی حالت پیدا کرنے کا سب سے عام ذریعہ ہے۔ آپ ملائم (SOFT) اور موثر انداز میں بولتے ہیں۔ آپ کے لہجے میں توازن اور روانی ہوتی ہے آپ اپنے معمول سے کہتے ہیں کہ وہ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دے۔ یعنی (RELAX) ہو کر آرام سے بیٹھ جائے۔ اس کے بعد آپ اس پر قومیت کی حالت طاری کرنے کے لئے اپنی آواز سے تاثر پیدا کرتے ہیں۔” نیند گہری نیند آپ کے پپوٹے اب بھاری ہو رہے ہیں۔ آپ تکان محسوس کر رہے ہیں اب آپ سو رہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ” آپ چاہیں تو کیفیت طاری کرنے کے لئے موزوں قسم کی موسیقی کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی موسیقی جس میں ایک مسلسل نغمگی اور دھمک ہو۔ شاید آپ کے مطالعہ میں آیا ہو کہ قدیم قبائلی قربانی وغیرہ کے وقت ایک خاص قسم کے ڈھول یا نقارے بجایا کرتے تھے۔ آج بھی ہندوستان و پاکستان میں مزاروں وغیرہ پر ” بھوت اتار نے ” والوں کو دیکھا ہوگا، وہ ایک مخصوص انداز میں ڈھول بجاتے ہیں ایک مسلسل تال (BEAT) ہوتی ہے اور اس کے زیر اثر مریض جھومنا شروع کر دیتا ہے۔ آپ کو بھی ایسے ہی مسلسل تال والی موسیقی استعمال کرنا چاہئے۔ اس کے اثر سے مریض پر نیم خوابی کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ کو بھی نہ کبھی ڈانسنگ ہال میں یا موسیقی کی محفل میں اس کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ ڈاکٹر نے بورڈ کی طرف بڑھ کر تحریر کیا۔
اگر آپ ایک ہی نکتہ پر کافی دیر تک گھورتے رہیں تو رفتہ رفتہ اس کو دھندلا ہوتا ہوا محسوس کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ بالکل ہی مبہم (INDISTINCT) ہو جائے گا۔ لیکن یہ جادو نہیں ہے۔ اگر آپ نے نفسیات کا مطالعہ کیا ہے تو اس کا سبب بہ آسانی سمجھ جائیں گے کہ ایک ہی عکس کو مسلسل دیکھنے کے باعث نگاہ تھک جاتی ہے اور نظر کی اس تکان کے باعث وہ نکتہ دھندلا ہوتے ہوتے بالکل ہی مبہم ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ تکان اور آگے بڑھ کر دماغ کی جھلی (CORTEX) پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس مخصوص حصہ میں بھی تکان پیدا کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ تکان دماغ میں رفتہ رفتہ پھیلتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نیند یا خمار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔” طلبا انتہائی دلچسپی اور توجہ کے ساتھ ڈاکٹر کو گھورہے تھے۔ ڈاکٹر نے میز پر سے ایک چھوٹا سا سفید بورڈ ا ٹھایا۔ جس پر کالے رنگ کا ایک بڑا سا دھبہ بنا ہوا تھا۔ آپ اس نشان کو دیکھ رہے ہیں۔ ہپناٹسٹ عام طور پر اسے استعمال کرتے ہیں۔ اس دائرے کو دائرہ تنویم ” یا ” نکتہ تنویم” کہتے ہیں ” ( یہ دائرہ اس کتاب کے شروع میں موجود ہے)
انہوں نے پن کے ذریعے اس سیاہ دائرے کو بورڈ پر لٹکا دیا۔ اگر آپ اپنے معمول کو اس نکتہ یا کسی روشن بلب یا گیند یا کسی بھی ایک مرکز پر مسلسل گھورتے رہنے کی ہدایت کر دیں تو آہستہ آہستہ اس پر خواب کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ یہ کیفیت اور بھی گہری ہو جائے گی۔ بشرطیکہ معمول کو بالکل ہی پر سکون خاموش اور متوجہ رکھا جائے۔ یہ ضروری ہے کہ اس کہ توجہ کسی اور طرف بٹنے نہ پائے۔ اس صورت میں دماغ پر خمار کی کیفیت بتدریج گہری ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ معمول پر بالکل ہی نیند کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔” نظری تکان (VISUAL FTIGUE) طاری کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں مثلاً معمول کو ایک مسلسل ہلتے ہوئے پنڈولم (PENDOLUM) کو گھورنے کی ہدایت کی جائے۔ اس طرح بھی اس پر نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔”اب تیسرے طریقے پر بھی غور کر لیا جائے۔”ڈاکٹر نے بورڈ پر تیسرے طریقے کا نام تحریر کیا
لمس یعنی وہ حس جو چھونے سے محسوس کی جائے۔” ایک زمانے میں مریض کی پیشانی یا ہاتھ کو سہلا کر ہپناٹائز کرنے کا طریقہ عام تھا۔ لیکن ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اس طریقے سے احتراز کرنا چاہئے کیونکہ نومیت (TRANCE) کی حالت میں معمول کو چھونے سے اسے غلط فہمی ہو سکتی ہے۔بے شک ” کسی نے بے ساختہ کہا۔ سب کی نظریں ڈاکٹر احمد کی طرف اٹھ گئیں۔ جو شہر کے مشہور ماہر دنداں تھے۔ لیکن ” ڈاکٹر ندیم نے مسکرا کر کہا ” ہر چیز میں کچھ نہ کچھ استثنا بھی ہوتا ہے مثلاً اگر معمول اندھا ، بہرا ہے، تو مجبورا آپ کو یہی طریقہ اختیار کرتا ہو گا۔”کمرے میں مکمل سکوت طاری ہو گیا۔بلاشبہ لمسی طریقے سے بھی نیند طاری کی جاسکتی ہے ” ڈاکٹر نے کہا۔آپ سب نے خود محسوس کیا ہو گا کہ بار بر جب حجامت بناتا ہے تو خود بخود غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔ بالکل یہی حال اس وقت ہوتا ہے جب آپ سر کی مالش کراتے ہیں اور جہاں تک میرا خیال ہے۔ حس شامہ (SMELL SENSATION) ( سونگھنے کی جس) یا حس ذائقہ (SENSE OF TASTE) کے ذریعے نومیت طاری نہیں کی جا سکتی۔اگر ایسا ہوتا وہ طلبا کی طرف دیکھ کر مسکرائے تو آج کے ماہر باورچیوں نے اس کوضرور دریافت کر لیا ہوتا۔ ” کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔یوں تو ہپناٹائز کرنے کے بہت سے طریقے ہیں ” ڈاکٹر نے بتایا۔ لیکن ان میں سے تقریباً ہر ایک میں حسی تکان (SENSORY FATIGUE) ضرور پیدا کی جاتی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ممکن ہے آپ کو تجربہ ہو کہ اکثر لوگ بعض اوقات غیر اختیاری طور پر ہپناٹائز ہو جاتے ہیں۔ مثلاً لیکچر کے دوران آپ پر ایک غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکچرار کی متوازن اور مسلسل آواز کے اتار چڑھاؤ کے اثر سے ہی آپ پر حسی تکان طاری ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے ریڈیو پرکوئی تقریر یا موسیقی سن رہے ہوں اور اس کے اثر سے خوابیدہ ہو جائیں۔” یہی نہیں، آپ نے ٹرین کے سفر میں بھی تجربہ کیا ہو گا۔ گزرتے ہوئے مناظر کو مسلسل دیکھتے رہنے سے نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یا گزرنے والے تار کے کھمبوں کو مسلسل دیکھتے رہنے سے پلکیں بوجھل ہو جاتی ہیں۔ اس غنودگی کے باعث ٹرین کی کھٹا کھٹ کی مسلسل آواز بھی ہو سکتی ہے جو پڑیوں سے پیدا ہوتی ہےان تمام حالات میں عموما پہلے آپ پر حالت نومیت (HYPNOTIC STATE) طاری ہوتی ہے اور پھر آپ نارمل نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بالکل عام بات ہے۔”ماں جب بچے کو گود میں تھپک تھپک کر لوریاں دیتی ہے تو وہ ایک ہپناٹسٹ کا کام کرتی ہے۔ جھولے پر لیٹے لیٹے جو نیند آجاتی ہے وہ بھی اسی طرح حسی تکان کا کرشمہ ہے۔ اس لئے ان معمولوں کے ساتھ جو ہیپاٹا ئز ہونے میں خوف یا جھجک محسوس کرتے ہوں۔ آپ ان میں سے کسی ایک طریقے کا مظاہرہ کر کے ان کے خوف کو بہ آسانی دور کر سکتے ہیں تاکہ ان کو یقین آجائے کہ “ہپنا ٹزم ” کوئی غیر فطری یا غیر معمولی چیز نہیں ہے۔”لوگوں نے ایک گہری سانس لی۔ ڈاکٹر مسکرایا۔آپ سب بھی تکان محسوس کر رہے ہیں۔ آیئے پھر ہم کچھ دیر آرام کرلیں۔ چائے کا وقت بھی ہو گیا ہے۔
اس موضوع پر مذید مضامین تحریر کیے جارہے ہیں۔ اوروقتاً فوقتاً اپلوڈ کیے جا رہے ہیں۔